پی آئی اے کس طرح برباد ہوئی؟ آڈیٹر جنرل پاکستان کی 10 سالہ رپورٹ میں تہلکہ خیز انکشافات
پی آئی اے کی منظم لوٹ مار
لاہور (ویب ڈیسک) قومی ائیر لائن پی آئی اے کو بڑی بے دردی اور بے رحمی کے ساتھ بڑے ہی منظم طریقے سے لوٹا گیا، جہازوں کو لیز پر لینے اور بعد ازاں انہی جہازوں کو خریدنے سے لے کر ان کے مختلف اسپئر پارٹس اوپن مارکیٹ سے خریدنے کے بجائے ایجنٹس کے ذریعے خریدنے اور ٹریولر ایجنٹوں کی ملی بھگت سے ڈمی بکنگ اور ریفنڈز کی مد میں کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان نے گزشتہ سال چین سے کتنے ارب ڈالرز کے شمسی پینلز درآمد کیے ۔۔؟ تفصیلات سامنے آ گئیں
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں انکشاف
نجی ٹی وی ایکسپریس نیوز کے مطابق اس امر کا انکشاف آڈیٹر جنرل پاکستان کی رپورٹ میں کیا گیا جبکہ نامی گرامی آڈٹ فرم انٹرنل اڈٹ میں ان فراڈ کو پکڑنے میں ناکام رہی۔ سال 2007ء سے لے کر سال 2017ء تک کے دس سال کے آڈٹ میں ایسے ایسے فراڈ سامنے آئے ہیں کہ پی آئی اے کی موجودہ انتظامیہ بھی حیران و پریشان ہے کیونکہ فراڈ کرنے والے آج بھی پُرکشش اعلی عہدوں پر فائز ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور یوتھ فیسٹیول: نوجوانوں کے لیے ایک شاندار تحفہ – ثقافتی، آرٹ، آئی ٹی اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے مقابلے!
ڈمی سیٹوں کی بکنگ
پی آئی اے میں مخصوص ٹریول ایجنسیوں کی ملی بھگت سے ڈمی سیٹوں کی بکنگ کرکے اندرون اور بیرون ممالک جانے والی پروازوں میں سیکڑوں سیٹیں خالی رکھی گئیں کہ ٹریول ایجنٹس انہیں فروخت کر لے گا۔ ٹریول ایجنٹس ڈمی بکنگ کر کے ظاہر کرتے کہ سیٹیں فل ہو چکی ہیں مگر فلائٹ جانے سے ایک گھنٹہ قبل پتا چلتا ہے کہ متعلقہ ٹریول ایجنٹس سیٹیں فروخت ہی نہیں کرسکا اور آدھا آدھا جہاز خالی گیا۔
یہ بھی پڑھیں: خواجہ آصف: بانی پی ٹی آئی گنڈاپور کو اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات بہتر بنانے کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں
ریفنڈز کا دھندہ
سال 2011ء سے لے کر سال 2017ء تک 8 ہزار 800 ٹکٹیں 45 ہزار بار ریفنڈز ہوئیں یعنی ایک ٹکٹ ایوریج پانچ بار ریفنڈز ہوا۔ جہازوں کو لیز پر لیتے وقت 75 ملین ڈالر کا کرایہ زائد ادا کیا گیا جبکہ یہی جہاز دیگر ائیر لائنز نے اس سے بھی کم قیمت پر لیز پر لیے۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب میں ڈویلپمنٹ، واٹر اینڈ سینی ٹیشن اور ہارٹیکلچر کیلئے صوبائی اتھارٹیز قائم کرنے کا فیصلہ
انٹرنل آڈٹ کی ناکامی
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انٹرنل آڈٹ کرنے والی معروف و نامی گرامی آڈٹ فرموں نے بھی غفلت کا مظاہرہ کیا۔ سب سے زیادہ قصوروار پی آئی اے کے انجینئر ڈیپارٹمنٹ کو ٹھہرایا گیا ہے جس نے جہازوں کے اسپئیر پارٹس، جہازوں کی لیز اور بعد ازاں ان کو خریدنے کے معاملے میں جان بوجھ کر ملی بھگت کر کے ایسے طیارے بھی خریدے اور لیز پر لیے جو قابل استعمال نہیں تھے۔
یہ بھی پڑھیں: سیاحوں کے ساتھ دھو کہ دہی اور لوٹ مار دیکھ کر غصہ بہت آیا،فرعون کا ننھا سا تابوت جو 12پاؤنڈ کا تھا یہاں سے صرف 2پاؤنڈ میں مل گیا
بوئنگ ٹرپل سیون کا معاملہ
بوئنگ ٹرپل سیون (777) کی ایوریج عمر 30 سال ہے یعنی کہ 30 سال تک اسے استعمال کیا جا سکتا تھا، مگر یہ طیارے 10 سے 12 سال اور حد سے حد 14 سال بعد ہی ناکارہ ہو گئے۔ اس پر بھی کسی سے باز پرس نہیں کی گئی۔ پی آئی اے کے خسارے میں جانے کی سب سے بڑی وجہ پی آئی اے کی مالی کرپشن ہے۔ پی آئی اے میں گولڈن ہینڈ شیک دے کر ساڑھے تین سے چار ہزار ملازمین کو فارغ کر دیا گیا مگر پی آئی اے آج بھی خسارے میں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سابق صوبائی وزیر کرپشن کے الزام میں اینٹی کرپشن آفس طلب
سابق آڈیٹر جنرل کا بیان
پی آئی اے کے سابق آڈیٹر جنرل اشتیاق رضوی نے ایکسپریس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جب انہوں نے پی آئی اے میں فراڈ پکڑنے کی کوشش کی تو انہیں تبدیل کر دیا گیا۔ پی آئی اے کے افسران کی اپنی کمپنیاں ہیں یا وہ ان کمپنیوں کے خفیہ ایجنٹ ہیں اور ان کمپنیوں کو فائدہ پہنچا کر لاکھوں کروڑوں روپے کک بیک کی مد میں حاصل کرتے ہیں۔
حل کے امکانات
ایک جہاز کے ایک ہی پارٹ کو دس دس بار تبدیل کیا جاتا رہا ہے اور اوپن مارکیٹ کے بجائے مخصوص کمپنیوں سے ہی پارٹس خریدے جاتے رہے۔ پی آئی اے کو فروخت کرنے کے بجائے ان لوگوں سے ریکوری کی جائے اور اچھے اور باصلاحیت افسران کو تعینات کیا جائے تو پی آئی اے دو سال میں ہی اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جائے گی۔