قطری ثالثی میں غزہ جنگ کا خاتمہ کرنے میں درپیش چیلنجز اور مذاکرات کی معطلی کے اسباب

قطر کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ بطورِ ثالث اسرائیل اور حماس کے درمیان امن معاہدہ کرانے کی کوششوں کو معطل کر رہی ہے کیونکہ دونوں فریقین مذاکرات پر آمادہ نہیں ہیں۔
یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مبینہ طور پر امریکہ کی طرف سے قطر پر حماس کے دفتر کو بند کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔
اس چھوٹی اور دولت مند ریاست نے مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم کرنے کے لیے ثالث کا کردار چنا ہے۔ مگر اسرائیل اور حماس کے بیچ موجودہ تنازع میں جنگ بندی کے لیے ثالثی کروانا اس ریاست کے لیے مشکل ہو رہا ہے۔
قطر مشرق وسطیٰ میں امن کا ثالث کیسے بنا؟
قطر خلیج فارس کا ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کا کل رقبہ 11 ہزار 600 مربع کلومیٹر پر محیط ہے لیکن یہ بڑی مقدار میں قدرتی گیس برآمد کرتا ہے اور فی کس آمدن کے لحاظ سے یہ دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔
قطر کی حکومت نے اپنے لیے بین الاقوامی امن ساز کے کردار کا انتخاب کیا اور گذشتہ دو دہائیوں کے دوران مشرق وسطیٰ، یورپ اور افریقہ میں مخالف فریقوں کے درمیان کئی جنگ بندیوں اور امن معاہدوں میں ثالثی کی ہے۔
قطر نے نومبر 2023 میں اسرائیل اور حماس کے درمیان عارضی جنگ بندی کے لیے مذاکرات کی میزبانی کی جس دوران 105 اسرائیلی یرغمالیوں کو 240 فلسطینی قیدیوں کے بدلے رہا کیا گیا۔
اس سے قبل سنہ 2020 میں قطر نے افغانستان میں دو دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدے کی ثالثی کی تھی۔
اس امن معاہدے کے نتیجے میں افغانستان سے امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کا انخلا ہوا اور طالبان نے اقتدار سنبھالا۔
سنہ 2023 میں ہی قطر نے امریکہ اور ایران کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے میں بھی ثالثی کی ہے۔
اسی سال اس ریاست نے روس اور یوکرین کے درمیان مذاکرات میں بھی ثالثی کی تاکہ دونوں ممالک کے بیچ جاری تنازعہ کے دوران یوکرین سے روس لیجائے جانے والے یوکرینی بچوں کی واپسی ممکن ہو سکے۔
سنہ 2020 میں قطر نے چاڈ کی حکومت اور چالیس اپوزیشن گروہوں کے درمیان جنگ بندی کے لیے ثالثی کی۔
اور 2010 میں اس ریاست نے سوڈان کی حکومت اور مغربی صوبے دارفور میں مسلح گروپوں کے درمیان امن معاہدے کی نگرانی کی۔
یہ بھی پڑھیں: بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل بازیابی کے بعد گھر پہنچ گئے
قطر نے ثالث کا کردار کیوں چنا؟
قطر کی حکومت نے ملک کے آئین میں اپنا کردار ایک ’امن ساز‘ کے طور پر لکھا ہے۔
اس ریاست کے آئین کے آرٹیکل سات کے مطابق: ’ریاست کی خارجہ پالیسی کا انحصار بین الاقوامی تنازعات کے پرامن حل کے ذریعے بین الاقوامی امن و سلامتی کو مضبوط بنانے پر ہے۔‘
قطر امریکہ کا قریبی اتحادی ہے جو ناصرف العديد ایئربیس پر اس کے ہزاروں فوجیوں کی میزبانی کر رہا ہے بلکہ اس نے طالبان اور حماس جیسے گروہوں کو اپنے ملک کے اندر دفاتر قائم کرنے کی اجازت بھی دے رکھی ہے۔
ڈاکٹر ایچ اے ہیلیر برطانیہ میں قائم تھنک ٹینک رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ اسے ایسے دو سیاسی فریقین کے درمیان پل کا کام کرنے کے قابل بناتی ہے جو براہِ راست ایک دوسرے سے بات نہیں کرنا چاہتے۔
وہ کہتے ہیں ’قطر طالبان اور حماس جیسے گروہوں سے باآسانی بات چیت کر سکتا ہے کیونکہ ان کا اس ریاست کے ساتھ کبھی کوئی تنازع نہیں رہا اور یہاں امریکی فوجی موجودگی کی وجہ سے ان گروہوں کے نمائندے دوحہ میں خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں۔‘
ڈاکٹر ایچ اے ہیلیر کے مطابق انھیں لگتا ہے کہ یہاں ان پر کوئی قاتلانہ حملے کی کوشش نہیں کرے گا اور اسی حفاظت کے ماحول میں وہ سکون سے بات چیت کر سکتے ہیں۔
برطانیہ میں قائم تھنک ٹینک چتھم ہاؤس سے وابستہ ڈاکٹر صنم وکیل کہتی ہیں قطر اپنا امیج عملی طور پر ایک ثالث کا بنانا چاہتا ہے جو مسائل کو حل کرتا ہے۔
’امن کے لیے ثالثی قطر کو امریکہ کے لیے کارآمد بناتی ہے اور اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ مغربی ممالک کے کام بھی آ سکتا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں ’اور یہی وجہ قطر کے ارد گرد کے علاقوں کو بھی محفوظ اور مستحکم بناتی ہے۔‘
ڈاکٹر صنم وکیل کا کہنا ہے کہ قطر کے پاس اپنی سفارت کاروں کی ایک تربیت یافتہ ٹیم موجود ہے جو امن مذاکرات کی نگرانی کرتی ہے۔ تاہم، وہ یہ بھی بتاتی ہیں کہ یہ ٹیم ہمیشہ مخالف فریقین کو امن معاہدے یا جنگ بندی کے لیے راضی کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتی۔
ان کا کہنا ہے کہ جب تشدد کا سلسلہ تھمنے کے بعد دونوں فریقین امن کے خواہاں ہوتے ہیں، تو اس وقت قطر کا ریکارڈ تنازعات کے خاتمے کی نگرانی میں بہت اچھا رہا ہے۔ 'لیکن اگر ایسی صورت حال نہ ہو تو وہ تنازعات کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔'
قطر کے لیے اسرائیل اور حماس کے درمیان امن قائم کروانا مشکل کیوں ہو رہا ہے؟
قطر کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ اسرائیل اور حماس کے درمیان امن معاہدے کی ثالثی کی کوششیں معطل کر رہا ہے۔
تاہم، انہوں نے دوحہ میں حماس کے دفتر بند کرنے سے متعلق خبروں کی تردید کی ہے۔
اس کے بعد سے اسرائیل کی حکومت نے قطر پر تنقید کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ وہ حماس کی حمایت کر رہا ہے اور ایک دہشت گرد گروہ کی حمایت کر رہا ہے۔
ڈاکٹر ہیلیر کہتے ہیں کہ 'سنہ 2012 میں حماس اور شامی حکومت کے درمیان تعلقات خراب ہونے کے بعد قطر نے حماس کے رہنماؤں کو اپنے دفتر دمشق سے دوحہ منتقل کرنے کی دعوت دی۔ یہ دعوت ممکنہ طور پر امریکہ کے مشورے سے دی گئی تھی اور شاید اسرائیل بھی شامل رہا ہو۔'
ان کا کہنا ہے کہ قطر نے پچھلے تنازعات کے دوران اسرائیل اور حماس کو جنگ بندی پر راضی کرنے میں مدد فراہم کی تھی۔ تاہم، اس وقت دونوں فریقین بھی ایسا چاہتے تھے۔
ڈاکٹر صنم وکیل کا کہنا ہے کہ اس بار صورتحال مختلف ہے 'اسرائیلی حکومت امن سے زیادہ اپنی سلامتی کی ضمانت چاہتی ہے، اور اگر جنگ بڑھتی ہے تو اسے اپنے مقاصد کے حصول میں مدد ملے گی۔ دوسری طرف، حماس کو زندہ رہنے کے لیے امن کی ضرورت ہے۔'
ایسا بھی کہا جا رہا ہے کہ ممکنہ طور پر حماس اپنے دفتر کو قطر سے ترکی یا ایران منتقل کر سکتی ہے۔
تاہم، ڈاکٹر ہیلیر کہتے ہیں کہ اگر حماس وہاں رہنا چاہتی ہے تو قطر ان کے رہنماؤں کے لیے سب سے محفوظ جگہ ہے۔
وہ کہتے ہیں 'جب اسماعیل ہنیہ دوحہ چھوڑ کر ایران گئے تو اسرائیلی افواج نے انہیں فوراً نشانہ بنایا۔'