ایمن آباد: وہ شہر جہاں گرو نانک نے گھاس کھا کر کنکریوں پر عبادت کی، قید کاٹی اور چکی بھی پیسی

’ایمن آباد کی برفی‘ پاکستان میں ایک مشہور نام ہے۔۔۔ اگر آپ کراچی سے خیبر تک براستہ سڑک سفر کریں تو مختلف جگہوں پر ایسی دوکانیں نظر آئیں گی جن پر ایمن آباد کی مشہور برفی کے بورڈ آویزاں ہوں گے۔

اس علاقے کی برفی کو مشہور ہوئے پندرہ بیس سال ہی ہوئے ہوں گے لیکن صوبہ پنجاب میں سیالکوٹ کے قریب واقع ایمن آباد کی تاریخ برفی سے بہت پرانی ہے۔

پہلے ایمن آباد کا نام سید پور تھا اور اس علاقے کو شاہراہ ریشم کے ذریعے ہونے والی تجارت کے حوالے سے اہم گزرگاہ کے طور پر جانا جاتا تھا۔ وسطی ایشائی ریاستوں میں تجارت کے حوالے سے بھی ایمن آباد ایک اہم گزر گاہ تھی۔

مغل بادشاہ بھی جب کبھی یہاں سے گزرتے تو ایمن آباد میں ضرور قیام کرتے تھے۔

یہ علاقہ سکھ مذہب کے بانی گرو نانک کے ساتھ وابستگی کی وجہ سے سکھوں کے لیے بھی ایک مقدس مقام کی اہمیت رکھتا ہے۔

گرو نانک نے اپنے روحانیت اور ہمدردی کے پیغام کو پھیلانے کے لیے اپنے سفر کے دوران ایمن آباد کا بھی دورہ کیا۔

ایمن آباد میں سکھوں کے تین مقدس مقامات ہیں جن میں گرودوارہ روہڑی صاحب، گرودوارہ چکی صاحب اور گرودوارہ بھائی لالو صاحب شامل ہیں۔

گوردوارہ روہڑی صاحب کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ گرو نانک نے یہاں مراقبہ اور غور و فکر میں کافی وقت گزارا۔ سکھ روایات کے مطابق جب گرو نانک ایمن آباد گئے تو ان کی ملاقات بھائی لالو سے ہوئی، جو ایک عام سے بڑھئی تھے مگر بعد میں سکھ مذہب میں ایک اہم شخصیت بن گئے۔

قیام پاکستان سے پہلے اس علاقے میں سکھوں کی ایک بڑی تعداد آباد تھی اور ان کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی تھا۔

قیام پاکستان کے بعد سکھ انڈیا چلے گئے مگر ان کے پرانے گھر اب بھی ایمن آباد میں موجود ہیں جن میں مسلمان قیام پذیر ہیں۔

گرودوارے کا نام روہڑی صاحب کیوں رکھا گیا؟

گرودوارے کا نام روہڑی صاحب کیوں رکھا گیا؟

قیام پاکستان سے پہلے جب انڈیا اور پاکستان ایک ہی تھے، اس وقت تمام مذاہب کے لوگ (یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ اس مذہب کے ماننے والے نہیں ہیں) ایک دوسرے کی مقدس عبادت گاہوں کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور ایمن آباد میں واقع سکھ مذہب کے بانی گرو نانک دیو جی کا گرودوارہ روہڑی صاحب بھی اس کی ایک مثال ہے، جس کی تعمیر میں سکھوں کے علاوہ ہندوؤں اور مسلمانوں نے بھی اپنی مالی حیثیت کے مطابق حصہ ڈالا۔

اس گرودوارے کی نگرانی کرنے والے سریندر سنگھ نے اس کی تاریخ بتاتے ہوئے کہا کہ سکھ مذہب کے بانی گرونانک جب پہلی اداسی میں سکون کی تلاش میں اس جگہ پر آئے تو انھوں نے ریت اور کنکر (روہڑی) بچھا کر رب کی عبادت کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جس وقت بابا گرونانک اس جگہ پر آئے تو یہ ایک ویران جنگل تھا اور یہاں بیٹھ کر انھوں نے رب کی عبادت کرنے کے ساتھ گھاس وغیرہ کھا کر گزارا کیا تھا۔‘

بابا گرونانک کتنے عرصے اس جگہ پر رہے اس کے بارے میں تو معلومات نہیں ملیں تاہم سریندر سنگھ کا کہنا تھا کہ تاریخ سے ایسے شواہد ملتے ہیں کہ بابا گرونانک دو تین مرتبہ اس جگہ پر آئے تھے اور یہاں بیٹھ کر انھوں نے عبادت کی تھی۔

گرودوارہ روہڑی صاحب کی بیرونی دیواروں کی تعمیر سکھ حکمراں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں ہوئی تھی اور اس گرودوارے کے مرکزی دروازے پر ان متعدد افراد کے نام لکھے گئے ہیں جنھوں نے اس گرودوارے کی تعمیر میں حصہ ڈالا تھا۔

اس گرودوارے کی تعمیر میں اس وقت جس نے سب سے زیادہ حصہ ڈالا تھا وہ اس وقت کا ایک ہزار روپیہ تھا جو آج کے دور کے مطابق ایک کروڑ سے بھی زیادہ ہے۔

سردار سریندر سنگھ کے کہنا تھا کہ ان کے بڑے انھیں بتاتے ہیں کہ جس دور میں اس گرودوارے کی تعمیر ہوئی تھی چونکہ زیادہ تر لوگ زمینداری کیا کرتے تھے تو اس وقت صرف تین روپے میں ایک بھینس آجاتی تھی جبکہ اس گرودوارے کے مرکزی دروازے پر ان افراد کے نام لکھے گئے ہیں جنھوں نے اس کی تعمیر میں حصہ ڈالا۔ اس میں دوسرے نمبر پر گوجرانوالہ کے ایک ٹرانسپورٹر سردار نہال سنگھ بھی شامل تھے جنھوں نے اس وقت گرودوارے کی تعمیر میں پانچ سو روپے دیے تھے۔

محکمہ اوقاف کے مطابق جس جگہ پر بابا گرونانک عبادت کیا کرتے تھے اس کو تو اس وقت کے سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد نے محفوظ کر لیا تھا لیکن اس کی تزئین و آرائش کا کام سنہ 1997 میں شروع کیا گیا تھا جو آج تک جاری ہے۔

اس گرودوارے کے ساتھ تالاب بھی ہے جو کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں تعمیر کیا گیا تھا اور ابھی بھی اس کی مرمت اور دیکھ بھال کا کام جاری ہے۔

گرودوارہ روہڑی صاحب کے نگران کا کہنا ہے کہ اس تالاب کو بابا گرونانک کے جنم دن سے پہلے پانی سے بھر لیا جائے گا تاکہ بابا گرونانک کے جنم دن کے موقع پر جو سکھ یاتری پاکستان آئیں وہ اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے سے پہلے پاک صاف ہو کر عبادت کر سکیں۔

عام دنوں میں یہ تالاب خالی ہوتا ہے اور اس حوالے سے مقامی افراد کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ بہت بڑا پانی کا تالاب ہے اور یہاں پر سکھ یاتری بابا گرونانک کے جنم دن کے علاوہ اتنی زیادہ تعداد میں نہیں آتے اس لیے پانی کے تالاب کو خالی رکھا جاتا ہے تاکہ ڈینگی وغیرہ نہ پھیلے۔

ایمن آباد میں واقع اس گرودوارے کی دیوار کے ساتھ ہر سال بیساکھی کا میلہ بھی لگتا تھا جو کہ گذشتہ 15 سالوں سے نہیں لگ رہا اور اس ضمن میں مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں زمینوں پر قبضے کے تنازعے کی وجہ سے میلے میں علاقے کے بااثر افراد کے درمیان لڑائی جھگڑے ہوتے تھے جس میں پولیس کے مطابق 20 سے زیادہ افراد مارے جا چکے تھے۔

مقامی پولیس کے مطابق امن و امان کی صورت حال کو خراب ہونے سے روکنے کے لیے ضلعی انتظامیہ نے بیساکھی کے میلے کے انعقاد کو روک دیا۔

اس علاقے کے رہنے والے افراد بتاتے ہیں کہ گندم کی کٹائی کے موقع پر گرودوارہ روہڑی صاحب کی دیوار کے ساتھ ایک میلہ لگتا تھا جو کہ تفریح کے ساتھ ساتھ لوگوں کو کاروبار کے مواقع بھی فراہم کرتا تھا اور لوگ یہاں پر اپنی گائے بھینس اور دیگر سامان فروخت کرنے کے لیے لاتے تھے۔

گرودوارہ روہڑی صاحب کے نگران سردار سریندر سنگھ کا کہنا ہے کہ بیساکھی کے اس میلے کا سکھ مذہب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ سکھوں کی بیساکھی کا تہوار حسن ابدال پنجہ صاحب کے ساتھ منایا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ یہاں کے مقامی کسان اپریل میں گندم کی کٹائی کے موقع پر تہوا مناتے تھے جسے بیساکھی کا نام دے دیا گیا۔

سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد گوجرانوالہ کو بڑی عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ایمن آباد میں سکھوں کے لیے ایک اور مقدس جگہ موجود ہے اور اسے گرودوارہ چکی صاحب کا نام دیا گیا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں پر اس وقت کے بادشاہ ظہیر الدین بابر نے بابا گرونانک کو گرفتار کرکے قید کیا تھا۔

جس جگہ پر بابا گرونانک کو قید کیا گیا وہ جگہ کئی سو ایکڑز پر پھیلی ہوئی تھی لیکن اب یہ جگہ چند مرلوں تک ہی محدود ہوکر رہ گئی ہے اور مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اس جگہ پر اس وقت کے بااثر لوگوں نے قبضہ کرلیا تھا۔

ظہیر الدین بابر کے دور میں بنائی گئی جیل کے اسی حصے کو محفوظ بنایا گیا ہے جہاں پر اس وقت کے حکمراں نے بابا گرونانک کو ایک سیل میں قید کیا تھا اور انھیں چکی چلا کر مکئی کے دانے پیسنے کا حکم دیا تھا۔

سردار سریندر سنگھ کا کہنا ہے کہ سکھ مذہب کی روایات کے مطابق ’بابا گرونانک کو جب یہاں پر قید کیا گیا تو انھوں نے ایسا کچھ پڑھا جس سے وہاں پر لگی ہوئی چکیاں خود اپنے آپ ہی چل پڑیں اور وہاں کی سکیورٹی پر موجود افراد نے اس بارے میں اس وقت کے بادشاہ کو آگاہ کیا۔‘

سردار سریندر سنگھ کے مطابق ان کی تاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ’یہ خبر سن کر بادشاہ بابر خود وہاں پر چل کر آئے اور جب انھوں نے اپنی آنکھوں سے یہ سارا منظر دیکھا تو وہ بابا گرونانک کے قدموں میں گر گئے ہیں اور انھوں نے اپنے رویّے کی معافی مانگتے ہوئے بابا گرونانک کو رہا کرنے کا حکم دیا۔‘

سردار سریندر سنگھ کا کہنا ہے کہ بابا گرونانک دیو جی نے اس وقت تک جیل سے باہر جانے سے انکار کردیا جب تک ان کے ساتھ قید کیے گئے 30 ہزار قیدیوں کو رہا نہیں کردیا جاتا۔ اور پھر ایسا ہی ہوا کہ بابا گرونانک کے ساتھ ساتھ 30 ہزار قیدیوں کو بھی رہا کیا گیا۔

سکھ مذہب کے بانی بابا گرونانک نے اس جگہ پر بیٹھ کر چکی پیسی تھی جس کی وجہ سے اس گرودوارے کا نام گرودوارہ چکی صاحب رکھا گیا ہے۔

لالو بھائی کا گرودوارہ

لالو بھائی کا گرودوارہ

گرودوارہ چکی صاحب سے کچھ فاصلے پر بابا گرونانک کے چاہنے والے بھائی لالو کا گھر ہے، جسے لالو بھائی گرودوارہ کہا جاتا ہے۔

اس جگہ کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ سردار سریندر سنگھ کا کہنا ہے کہ بھائی لالو بابا گرونانک کے مخلص بھگت تھے اور جب بھی بابا گرونانک اس علاقے میں آتے، وہ بھائی لالو کے گھر ضرور جاتے تھے۔

سردار سریندر سنگھ کے مطابق بھائی لالو پیشے سے ایک ترکھان تھے اور محنت کرکے روزی روٹی کماتے تھے۔

سردار سریندر سنگھ سکھ مذہب کی تاریخ میں ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ جب بابا گرونانک بھائی لالو کے گھر آئے اور کہا کہ انہیں بھوک لگی ہے، تو گھر والوں نے بتایا کہ گھر میں باجرے کے آٹے کی سوکھی روٹی موجود ہے۔

سریندر سنگھ نے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسی روز اس گاؤں کے بڑے زمیندار ملک بھاگو کے گھر پر دعوت تھی، اور انہوں نے بابا گرونانک کو کھانے پر مدعو کیا تھا، لیکن بابا گرونانک ان کے گھر نہیں گئے اور بھائی لالو کے گھر آگئے۔

جب گاؤں کے زمیندار کو اس بارے میں معلوم ہوا تو وہ مختلف پکوان اٹھا کر اور لوگوں کو اکھٹا کرکے بھائی لالو کے گھر پر آگئے اور تکبرانہ انداز میں کہا کہ ایک غریب آدمی کی اس کے سامنے کیا حیثیت ہے۔

سردار سریندر سنگھ کا کہنا ہے کہ ’روایات کے مطابق، بابا گرونانک نے ایک ہاتھ میں بھائی لالو کی باجرے کے آٹے سے بنی ہوئی روٹی پکڑی اور دوسرے ہاتھ میں زمیندار کے گھر سے بنی ہوئی دیسی گھی کی روٹی۔ انہوں نے کہا کہ بھائی لالو کی باجرے کی روٹی سے دودھ نکل رہا تھا جبکہ زمیندار کے گھر سے بنی ہوئی دیسی گھی کی روٹی سے خون نکل رہا تھا۔‘

روایات کے مطابق، جس جگہ پر بابا گرونانک نے بیٹھ کر باجرے کے آٹے کی بنی ہوئی روٹی کھائی تھی، اس جگہ کو محکمہ اوقاف نے محفوظ کر لیا ہے۔

محکمہ اوقاف کے مطابق، بابا گرونانک کے جنم دن کے موقع پر دنیا بھر سے 50 ہزار سے زیادہ سکھ یاتری پاکستان آتے ہیں اور ان میں سے اکثریت ان مقدس جگہوں کا دورہ کرتی ہے۔

اس علاقے میں بیرون ممالک سے آنے والے سکھوں کے رہنے کے لیے کوئی انتظام نہیں ہوتا، اس لیے جو سکھ یاتری پاکستان آتے ہیں ان کا قیام لاہور میں ہی ہوتا ہے، جہاں سے وہ روہڑی صاحب کے علاوہ کرتارپور اور ننکانہ صاحب بھی جاتے ہیں۔

ایمن آباد لاہور سے تقریباً 50 کلو میٹر دور ہے اور ایک گھنٹے کی مسافت سے سکھ یاتری ایمن آباد پہنچ جاتے ہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...