آسٹریلیا نے پاکستان کو ٹی ٹوئنٹی سیریز میں شکست دی: کیا پاکستان بار بار نئی شروعات کرتا رہے گا؟
یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ جب کسی زرخیز دماغ نے پہیہ ہزاروں سال پہلے ایجاد کر دیا تھا تو پاکستان بار بار اسے پھر سے ایجاد کرنے کی کوشش کیوں کرتا ہے۔ سڈنی میں بھی پاکستان نے پہیہ دوبارہ ایجاد کرنے کی کوشش کی اور نتیجہ حسبِ فطرت رہا۔
ایک وقت تھا کہ جب پاکستانی ٹی ٹوئنٹی ٹیم بدلاؤ کے عمل سے گزر رہی تھی۔ محمد حفیظ اور شعیب ملک کی ریٹائرمنٹ نے مڈل آرڈر میں جو خلا پیدا کیا تھا، اسے پُر کرنا آسان نہ تھا اور ٹاپ آرڈر کو تقویت فراہم کرنا ہی مسئلے کا اکلوتا حل تھا۔
ٹی ٹوئنٹی میں بابر اعظم اور محمد رضوان سے اوپننگ کرنے کا فیصلہ اگرچہ ہر دور میں قابلِ بحث رہا ہے مگر اسی جوڑی کے کریڈٹ پہ بے شمار یادگار فتوحات بھی ہیں جن میں پہلی بار انڈیا کے خلاف ورلڈ کپ میں کامیابی اور یکے بعد دیگرے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے سیمی فائنل و فائنل تک رسائی نمایاں ہیں۔
مگر جہاں باقی دنیا ماڈرن ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں ’اینکرز‘ سے آگے بڑھ کر متنوع اور نیچرل بیٹنگ کرنے والے بلے بازوں کو ترجیح دے رہی ہے، وہیں پاکستان نے دوبارہ ایک قدم واپس پیچھے رکھنے کی ٹھانی۔
گو صائم ایوب سے اوپننگ کروانے کا تجربہ اپنے مختصر سے ڈیٹا میں ناکام ہی دکھائی دیتا ہے مگر انھیں مستقل مواقع نہ دینا بھی اتنا ہی بے جا ہے جتنا صاحبزادہ فرحان کے بیٹنگ آرڈر میں بے تحاشہ بے یقینی ہے۔
دو دائیں ہاتھ کے اینکرز سے شروع ہونے والی اننگز کی یکسانیت کا کمال ہے کہ یہ بولنگ کپتان کا کام آسان کر دیتی ہے۔ جاش انگلس کو بھی یہ سہولت پاکستان نے خود فراہم کی اور اپنی اننگز کا آغاز ہی اس فارمولے سے کیا جس کی یہاں ناکامی تقریباً یقینی تھی۔
دونوں بیٹنگ اننگز کا تقابل دیکھا جائے تو واضح فرق پاور پلے میں نظر آتا ہے جہاں آسٹریلوی اوپنرز نے پہلے دو اوورز میں ہی اتنے رنز بٹور لیے جو پاکستان دو وکٹیں گنوا کر بھی پورے پاور پلے میں حاصل نہ کر پایا۔
پہلے دو اوورز میں شاہین آفریدی اور نسیم شاہ نے جن لینتھ کا انتخاب کیا، آسٹریلوی سیمرز اس سے متفق نہ ہوئے اور نئی گیند کی کاٹ کا درست فائدہ اٹھانے کے لیے وہ لینتھ چُنی جس پہ بلے بازوں کے لئے قدم بڑھانا یا ہٹانا دشوار تھا۔
لیکن بولنگ پاور پلے میں مکمل مات ہو جانے کے باوجود پاکستانی بولنگ نے بہترین کاؤنٹر اٹیک کیا۔ حارث رؤف اور عباس آفریدی نے نہ صرف پہلے تین اوورز کی بدنظمی کا پورا ازالہ کیا بلکہ اوپر تلے وکٹیں پا کر میچ کو بھی واپس پاکستان کی مٹھی میں لے آئے۔
سفیان مقیم نے انٹرنیشنل کرکٹ میں اپنا شاندار تعارف پیش کیا اور پاکستان کی وہ دیرینہ تشنگی بھی دور کی جو لیفٹ آرم لیگ سپنرز کی کمیابی کے سبب تھی۔ مڈل اوورز میں پاکستان کو جو کنٹرول درکار تھا، سفیان کی ثمر آور بولنگ نے پوری طرح فراہم کیا۔
لیکن فیلڈنگ میں جو فراخ دلی پاکستان نے دکھائی، اس کی بدولت آسٹریلوی اننگز رینگ رینگ کر بھی اس مجموعے تک پہنچ گئی جو اس پچ پہ اچھی بولنگ کے خلاف مسابقتی ہدف تھا۔ اگر پاکستان یکے بعد دیگرے ڈراپ کیچز کے انبار نہ لگاتا تو بلے بازوں کو درپیش ہدف اس سے کہیں مختصر ہوتا جس کے تعاقب کو دو اینکرز کی اوپننگ شاید قابلِ فہم بھی ہوتی۔
مگر کسی بھی طرح کے وینیو پہ کیسی بھی بولنگ لائن کے سامنے یہ ایسا ہدف تھا جو کسی متوازن بیٹنگ لائن کے لئے بآسانی قابلِ حصول ہوتا۔ پاکستان نے البتہ اس ہدف کے تعاقب میں جو اپروچ اپنائی، وہ مایوس کن تھی۔
اننگز کے پہلے سات اوورز میں کسی بھی بلے باز نے مثبت عزم کا مظاہرہ نہیں کیا اور عمدہ آسٹریلوی بولنگ کے خلاف برابری کا جواب دینے میں ناکام رہا۔ بعد میں عثمان خان اور عرفان خان نے اس مردہ میچ میں جان ڈالنے کی اچھی کوشش کی لیکن اُس وقت تک مقابلہ کافی سخت ہو چکا تھا اور وقت بھی کم تھا۔
پاکستان کی کیچز ڈراپ کرنے کی عادت برقرار
کہا جاتا ہے کہ جب آپ اہم کیچز ڈراپ کرتے ہیں تو میچ جیتنے کا خواب نہیں دیکھنا چاہئے۔ کیوں کہ پھر یہ ممکن نہیں رہتا۔
آج بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ پاکستانی ٹیم کی بیٹنگ پر بعد میں بات کریں گے، مگر ایک ہی میچ میں چھ کیچ ڈراپ کرنا کہاں کا انصاف ہے؟
پھر جب بیٹنگ کا موقع آیا تو پاکستان کا ٹاپ آرڈر ہمیشہ کی طرح لڑکھڑا گیا اور پیچھے آنے والے کھلاڑی شاید اسی دباؤ کا شکار ہو کر بار بار پویلین لوٹ گئے۔ یوں آسٹریلیا نے دوسری ٹی ٹوئنٹی میچ میں پاکستان کو 13 رنز سے شکست دے کر سیریز جیت لی۔
یاد رہے کہ بارش سے متاثرہ پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ میں آسٹریلیا نے پاکستان کو 31 رنز سے شکست دی تھی۔ میچ کے آغاز میں آسٹریلیا کے کپتان جاش انگلس نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔
پاکستان کے لیے دن کا آغاز بھی کچھ اچھا نہیں رہا اور آسٹریلیا کی اننگز کے ابتدائی اوورز کافی مہنگے پڑے۔
سوشل میڈیا پر پاکستان کی ہار خاص طور پر کیچز ڈراپ کرنے پر پاکستانی کرکٹ شائقین خاصے مایوس نظر آتے ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان نے اس میچ میں چھ کیچز ڈراپ کیے ہیں۔
کرکٹ تجزیہ کار سیج صادق نے لکھا 'دسویں اوور کی پہلی بال تک پاکستان ایک بھی باؤنڈری نہیں لگا سکا۔۔۔ ایسے میں سوال تو بنتا ہے کہ آخر ان کا پلان کیا تھا؟'
انہوں نے دوسرے سے آٹھویں اوور کے دوران پاکستان کی جانب سے بنائے گئے صرف 32 رنز پر تنقید کرتے ہوئے اسے انتہائی حیران کن قرار دیا۔
تاہم سوشل میڈیا پر حارث رؤف کی بولنگ کی خاصی تعریف کی جا رہی ہے۔
آرچر نامی صارف نے آسٹریلیا میں حارث رؤف کی کارکردگی کو حقیقت سے ماورا قرار دیا۔ ’حارث ان پچوں کے لیے ہی بنائے گئے ہیں۔ انھیں مستقل طور پر آسٹریلیا جا کر وہیں کی شہریت لے کر کھیلنا چاہیے۔‘
پاکستانی بیٹنگ کی بات کریں تو عثمان خان داد کے مستحق ہیں۔
Uses in Urdu کے کرکٹ کمنٹیٹر عاطف نواز نے لکھا کہ جہاں ان کے باقی ساتھی جدوجہد کرتے نظر آئے، وہیں عثمان خان نے بہترین بیٹنگ کا مظاہرہ کیا۔ ’ان کی ہاف سینچری نے ہی اس میچ میں جان ڈالے رکھی ہے۔‘