مسلمان سیاستدانوں نے بنگال میں تعلیم کیلئے بہت محنت کی مگر اُنکی اپنی زبان کو معدوم کر دیا گیا، قیام پاکستان کی وجہ سے پنجابی گورمکھی بننے سے بچ گئی
مصنف کی معلومات
مصنف: جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد
یہ بھی پڑھیں: پشاور سے بخارا: افغان سلطنت کی خواتین سکالرز کی زندگیاں – خصوصی نشست ابو ظہبی پاکستانی سفارتخانے کے زیراہتمام
قسط: 86
مشرقی پاکستان: بنگلہ دیش کیسے بنا؟
جغرافیائی پس منظر
مشرقی پاکستان ایک گنجان آباد خطۂ زمین ہے۔ بنگال، آسام اور بھارت کے اس سے ملحقہ علاقے بھی اسی طرح گنجان آباد ہیں۔ ان علاقوں میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت موجود ہے، جبکہ ہندو اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی اس علاقے میں رہتے ہیں۔ بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت ہونے کے باوجود پندرہ سے بیس فیصد ہندو آبادی بھی موجود ہے۔ اس طرح مشرقی پاکستان میں چار کروڑ مسلمانوں کے ساتھ تقریباً بیس فیصد ہندو بھی موجود ہیں۔ یہ ہندو اسلام کے مقابلے میں مقامی بنگالی نیشنل ازم کا پرچار کرتے ہیں۔
زبان کا معاملہ
انگریز کے دور میں بنگلہ زبان فارسی اور عربی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی۔ ہندو بنگالی ماہرین تعلیم نے دیوناگری رسم الخط کو عام کرنے کی تحریک شروع کی اور بنگالی زبان کے پرانے رسم الخط کو ختم کر دیا۔ ہندووں کی تعلیمی برتری نے اس حوالے سے ایک بڑی تبدیلی کی بنیاد رکھی، جس کا مسلمان سیاست دانوں کو اندازہ نہیں تھا۔
پنجابی زبان کا معاملہ
پنجابی زبان کے حوالے سے بھی ایسی ہی سازشیں کی جا رہی ہیں، جہاں نام نہاد دانشوروں کی ایک طاقتور تحریک پنجابی زبان کا رسم الخط بدلنے کی خواہش مند ہے۔ حالانکہ پنجابی زبان ایک قدیم زبان ہے اور اس کا تعلق مسلمانوں کی زبانوں سے ہے۔ قیام پاکستان کے بعد پنجابی زبان گورمکھی ہونے سے بچ گئی، مگر مسلمانوں کے دشمنوں کی تحریکیں اب بھی جاری ہیں۔
بنگالی مسلمانوں کی صورتحال
بنگال میں ہندو اقلیت ہونے کے باوجود طاقتور ہے اور وہ بنگالی مسلمانوں کو بنگالی نیشنل ازم کے تحت تحریص دینے کے بعد انہیں دنیا بھر کے مسلمانوں سے کاٹنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ یہ ہندو دانشور مسلمانوں کو یہ سمجھاتے ہیں کہ مغربی پاکستان میں صرف پنجابی رہتے ہیں، جبکہ بنگالیوں کو معیشت کے غلط اعداد و شمار سے متاثر کر رہے ہیں۔
مطالعاتی دورہ
1966ء میں بنگالی طلباء کا ایک وفد لاہور یونیورسٹی کا مطالعاتی دورہ کرنے آیا۔ ہم نے انہیں لاہور کے اہم مقامات دکھائے۔ یہ لوگ وہاں کی خوشبوئیں محسوس کر کے متاثر ہوئے، جب کہ ہم نے انہیں مختلف عمارات کی تاریخ بھی بتائی۔ یہ بات ان کے لیے نئی تھی۔
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔