روس کے گارڈز ہمیں اذیت دے کر خوش ہوتے تھے: یوکرینی جنگی قیدی جو ایک سال تک حراست میں خاموش رہا
’مجھے یہ جان کر بہت تکلیف ہوئی کہ مجھے روس کی قید سے باہر نکالنے کے لیے کتنے سارے لوگوں نے اتنا وقت لگا کر اور اتنی کوششیں کیں۔‘
22 سالہ یوکرینی فوجی یوری گُلچُک دو برس سے زیادہ عرصے تک بطور جنگی قیدی روس کی قید میں رہے۔ انھوں نے اپریل 2022 سے ستمبر 2024 تک 30 مہینے روس کی قید میں گزارے اور اس دوران انھیں ایک جیل سے دوسرے جیل میں منتقل کیا جاتا رہا، جہاں انھیں تشدد اور غیرانسانی سلوک بھی سہنا پڑا۔
ان کا کہنا ہے کہ قید میں تقریباً ایک برس تک انھوں نے مکمل خاموش اختیار کیے رکھی اور اس کے سبب انھیں ذہنی اور جسمانی تحفظ حاصل ہوا۔
اپنی گھر واپسی کے بعد بھی وہ خاموش ہی رہے۔ رہائی کے بعد ان کی ویڈیو بھی انٹرنیٹ پر نظر آئی جس میں ان کی والدہ میلانا انھیں سینے سے لگا رہی ہیں اور ان کا چہرہ چوم رہی ہیں۔
یوری کے منھ سے کچھ الفاظ سُننے کے لیے میلانا بار بار انھیں یہ باور کرواتی رہیں کہ ’ہم تم سے پیار کرتے ہیں، ہم تم سے پیار کرتے ہیں۔‘
بعد میں اپنی خاموشی کی وضاحت کرتے ہوئے یوری نے کہا کہ وہ اس وقت بات کرنے کی حالت میں نہیں تھے۔
رہائی کے بعد ان کی والدہ نے ان کی زبان سے جو پہلے جملے سُنے وہ یہ تھے: ’لوگ ایک دوسرے پر اتنا ظلم کیوں کرتے ہیں؟ یہاں اتنی تکلیف کیوں ہے؟‘
تاریخی دن
یوری نے یوکرینی مرینز میں شمولیت 24 جنوری 2022 کو یوکرین پر روسی حملے سے صرف دو ہفتوں پہلے اختیار کی تھی۔ اس دن یوری یوکرینی شہر مروپل میں تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم جب سو کر اُٹھے تو ہم نے ایک زوردار آواز سُنی۔ گراؤنڈ فلور پر کھڑکیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ ہم سمجھے یہ دھماکے کی آواز قریب محاذ سے آئی ہے۔‘
لیکن کچھ گھنٹوں بعد یہ بات واضح ہو گئی کہ ایک باقاعدہ جنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔
یوری کہتے ہیں کہ ’میں سوچ رہا تھا کہ تاریخ کی کتابوں میں لکھا جائے کہ اس سب کی شروعات مروپل میں اس دن ہوئی تھی، اور میں اس دن مروپل میں ہی موجود تھا۔‘
لیکن مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ مستقبل میں میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔
جنگ کی شروعات کے تقریباً دو ہی مہینوں کے بعد یوری کو روسی فوج نے حراست میں لے لیا۔
یہ بھی پڑھیں: PTI Protest: 11 KP Police Officers in Civilian Clothes Arrested
لوگوں کو تکلیف دے کر خوشی حاصل کرنا
اپنے قید کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے یوری نے Uses in Urdu کو بتایا کہ ہمارے ساتھ رویے کا انحصار اس بات پر ہوتا تھا کہ اس دن شفٹ پر کون ہے۔
وہاں کچھ گارڈز تھے جو تمام قیدیوں پر تشدد کیا کرتے تھے۔ دوسرے گارڈز پوچھ لیا کرتے تھے کہ کس قیدی کی عمر 50 برس سے زیادہ ہے یا کون بیمار یا زخمی ہے۔ ان افراد کو بخش دیا جاتا تھا۔ لیکن وہاں کچھ وارڈنز ایسے تھے جو کہ واضح طور پر لوگوں کو تکلیف دے کر خوشی حاصل کرتے تھے۔
رواں برس اکتوبر میں اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے سربراہ وولکر ترک نے خبردار کیا تھا کہ روسی فوج یوکرینی جنگی قیدیوں کو منظم طریقے سے تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے۔
ان کا یہ بیان 174 یوکرینی جنگی قیدیوں کی کہانیوں پر مبنی تھا جن پر دوران حراست مسلسل تشدد کیا جاتا رہا تھا۔
ان یوکرینی جنگی قیدیوں کو کرنٹ لگایا گیا، مارا گیا، جنسی تشدد کیا گیا، نیند سے محروم رکھا گیا اور انہیں مزید تشدد کی دھمکیاں بھی دی گئیں تھیں۔
رواں برس اگست میں اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس مانیٹرنگ مشن کے سربراہ ڈینیل بیل نے انکشاف کیا تھا کہ روس کی جانب سے حراست میں لیے گئے 95 فیصد جنگی قیدیوں کو تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
29 اکتوبر کو ایک انکوائری کمیشن نے اپنے ایک رپورٹ میں اقوامِ متحدہ کو بتایا تھا کہ روس کی جانب سے تشدد دراصل انسانیت کے خلاف جرم ہے۔
اکتوبر میں ہی یوکرینی پروسیکیوٹرز نے تحقیقات کا آغاز کیا تھا اور الزام عائد کیا تھا کہ روسی فوج کی جانب سے جنگی قیدیوں کو اجتماعی طور پر قتل کیا گیا ہے اور ایسے ہی ایک واقعے میں 16 افراد کو کھڑا کر کے انھیں گولیاں ماری گئی ہیں۔
روس کی جانب سے اقوامِ متحدہ کی رپورٹس یا جنگی قیدیوں پر تشدد اور قتل کے الزامات پر تاحال تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔
رواں برس جون میں روسی صدر ولادیمیر پوتن نے اعلان کیا تھا کہ روس کی قید میں 6 ہزار 465 یوکرینی قیدی موجود ہیں۔
تاہم یوکرینی این جی او میڈیا انیشیٹو آن ہیومن رائٹس کے ایک اندازے کے مطابق تقریباً 10 ہزار یوکرین فوجی اہلکار روس کی قید میں بطور جنگی قیدی موجود ہیں۔
یوکرین کا کہنا ہے کہ وہ مجموعی طور پر تین ہزار 650 فوجی اور عام افراد کو روس کی قید سے چُھڑانے میں کامیاب رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت کا کام پالیسی فریم ورک، معاشی بہتری کیلئے مل کر کردار ادا کرنا ہوگا: وزیر خزانہ
’میری خاموشی ضروری تھی‘
دورانِ حراست یوری کا تقریباً 20 کلو وزن کم ہوا لیکن انھیں یقین تھا کہ وہ ایک دن ضرور آزادی میں سانس لے پائیں گے۔
انھوں نے نہ صرف اپنے والدین اور بچپن کے بارے میں خواب دیکھے بلکہ اپنے مستقبل کے بارے میں بھی منصوبہ بندی کی۔ اس دوران وہ زیادہ تر وقت مکمل طور پر خاموش ہی رہتے تھے۔
یوری کا کہنا ہے کہ ’میں خود ہی خاموشی کی طرف چلا گیا تھا۔ ایسا بالکل نہیں تھا کہ میں نے ایک دن فیصلہ کیا ہو کہ میں آج سے خاموش رہوں گا۔ میری خاموشی ضروری تھی۔‘
جب انھیں روسی قیدیوں کی رہائی کے بدلے آزاد کیا جا رہا تھا تو ابتدائی طور پر انھیں یقین ہی نہیں آیا کہ وہ جلد ہی رہا کر دیے جائیں گے۔
وہ سمجھے کہ شاید روسی فوجی اہلکار ان کے ساتھ ایک اور ’دماغی کھیل‘ کھیل رہے ہیں۔ وہ ماضی میں بھی متعدد مرتبہ رہائی کی باتیں کر چکے تھے لیکن اس وقت وہ حقیقت میں جنگی قیدیوں کو ایک جیل سے دوسرے قید خانے میں منتقل کر رہے ہوتے تھے۔
یوری کے مطابق ان مقامات پر قیدیوں پر اور بھی زیادہ تشدد ہوتا تھا۔
اسی سبب جس روز یوری کی رہائی ہونی تھی اس دن بھی وہ اپنے والدین سے ملاقات کی تیاری نہیں کر رہے تھے بلکہ خود کو مزید تشدد، تکلیف اور توہین سہنے کے لیے تیار کر رہے تھے۔
انھیں اور دیگر یوکرینی جنگی قیدیوں کو روس کے پڑوسی ملک بیلاروس لے جایا گیا جس کی سرحدیں یوکرین سے بھی ملتی ہیں۔ اس مقام پر انھیں اجازت دی گئی کہ وہ اپنے چہروں سے کپڑا ہٹا سکیں اور انھیں وہاں سے آگے کے راستے کے لیے راشن، چاکلیٹ، پاپڑ اور بسکٹ بھی دیے گئے۔
یوری کہتے ہیں اس وقت سب ’عجیب سا لگ رہا تھا۔‘
یوری یہی سوچ رہے تھے کہ ان کے ساتھ کوئی مذاق کیا جا رہا ہے لیکن جب انھوں نے اپنی والدہ اور دیگر اہلخانہ کو اپنا انتظار کرتے اور مسکراتے ہوئے دیکھا تب ہی انھیں یقین آیا کہ یہ خواب نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔
زندگی کی طرف واپسی
اپنی رہائی اور اہلخانہ کے پاس واپسی کے بعد ابتدائی طور پر یوری کچھ بھی بولنے سے قاصر رہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’بولنے کے لیے یہ صرف گلے کے استعمال کا معاملہ نہیں تھا۔ بلکہ دوبارہ بات کرنے کے لیے، گُنگنانے کے لیے یا چیخنے کے لیے مجھے اپنے دماغ کو راضی کرنا تھا کیونکہ وہ بہت کمزور ہو چکا تھا۔ مجھے اُسے دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت تھی۔‘
خود کو اس بات کا یقین دلانے کے لیے کہ وہ آزاد ہیں یوری کو کئی دن لگ گئے۔
یوری کہتے ہیں وہ تمام فلمیں جو ان کی قید کے دوران ریلیز ہوئیں وہ دیکھنا چاہتے ہیں، نیا میوزک بھی سننا چاہتے ہیں اور ایک الیکٹرک بائیک بھی چلانا چاہتے ہیں۔
ان کا ارادہ ہے کہ وہ کیئو یونیورسٹی کا رُخ دوبارہ کریں جہاں وہ جنگ کی شروعات سے قبل پڑ رہے تھے۔
یوری کہتے ہیں کہ: ’میں خود کو سمجھاتا ہوں کہ میرا جو وقت قید میں گزرا وہ بالکل ضائع نہیں ہوا۔ شاید میں یہ خود کو تسلی دے رہا ہوں لیکن میں پھر بھی یہی کہنا چاہوں گا کہ میں نے اس سارے تجربے سے کچھ نہ کچھ سیکھا ہے۔‘
’میں خوش قسمت تھا جو بچ گیا، ہر کوئی اتنا خوش قسمت نہیں تھا۔‘