ستunting: بچوں کے قد میں عمر کے لحاظ سے کمی کی وجوہات جو نظر انداز کی گئی ہیں۔
ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ انڈیا میں دہائیوں سے جاری ذات پات کے امتیاز کی وجہ سے بچے اپنی عمر کے حساب سے بڑھنے سے قاصر ہیں اور غذائی قلت کے باعث انڈیا میں سٹنٹنگ کی شرح سب صحارا افریقہ کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
جب بچہ اپنی عمر کے لحاظ سے متوقع قد و قامت سے کم رہ جاتا ہے تو اسے سٹنٹڈ سمجھا جاتا ہے اور یہ غذائیت کے اہم فرق کی واضح علامت ہے۔
انڈیا اور صحارا ریگستان کے جنوب میں واقع خطہ یعنی ان دونوں خِطّوں میں کل ملا کر دنیا کی پانچ سال سے کم عمر کی 44 فیصد آبادی رہتی ہے۔ لیکن عالمی سطح پر انہی دونوں علاقوں میں دنیا بھر کے 70 فیصد سٹنٹڈ بچے رہتے ہیں، جو بچوں میں غذائی قلت کا ایک اہم اشاریہ ہے۔
اگرچہ ان دونوں خِطّوں میں حالیہ برسوں میں نمایاں پیش رفت اور بہتری دیکھی گئی تاہم انڈیا میں ایسے بچوں کی شرح 35.7 فیصد ہے، جب کہ سب صحارا یا جنوبی افریقہ کے 49 ممالک میں ان کی مجموعی اوسط 33.6 فیصد ہے۔
اشونی دیشپانڈے (دہلی کی اشوکا یونیورسٹی) اور راجیش رامچندرن (ملائیشیا کی موناش یونیورسٹی) کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ صرف قد کے فرق پر توجہ مرکوز کرنا، یا انڈین بچوں کا سب صحارا افریقہ کے بچوں سے چھوٹا رہ جانے کے معاملے پر زور دینے سے ایک اہم عنصر کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اور یہ اہم عنصر انڈیا میں بچوں میں غذائی قلت میں سماجی شناخت، خاص طور پر ذات پات کا کردار ہے۔
بچے کی زندگی کے پہلے 1,000 دنوں کو اکثر ان کی نشو و نما اور پرورش کا 'سنہری دور' کہا جاتا ہے کیونکہ دو سال کی عمر تک بچوں میں دماغ کا تقریباً 80 فیصد حصہ نشوونما پا جاتا ہے، جو زندگی بھر کے لیے ان کی صلاحیت کی بنیاد رکھتا ہے۔
ان ابتدائی سالوں میں صحت کی دیکھ بھال تک رسائی، اچھی غذائیت، ابتدائی تعلیم، اور محفوظ ماحول کسی بچے کے مستقبل کو گہرائی سے تشکیل دینے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
انڈیا اور جنوبی افریقی ممالک دونوں جگہ تیزی سے بڑھتے ہوئے متوسط طبقے، نوجوان آبادی اور قابل عمل افرادی قوت ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ دیرینہ قدر مشترک رکھتے ہیں۔
سنہ 2021 میں، ورلڈ بینک نے رپورٹ کیا کہ ’سب صحارا افریقہ اور جنوبی ایشیا (بشمول انڈیا) میں دنیا کی 85 فیصد سے زیادہ غریب آبادی مقیم ہے اور اس کی وجہ سے ان خِطّوں میں ترقی کے لیے چیلنجز بھی ایک جیسے ہیں۔‘
سرکاری اعداد و شمار کا استعمال کرتے ہوئے نئی تحقیق کے مصنفین نے انڈیا اور سب صحارا افریقہ کے 19 ممالک کے نمونوں کے درمیان فرق کے تازہ ترین تخمینوں کو دیکھا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ انڈیا کے پانچ سال سے کم عمر کے 13 کروڑ 70 لاکھ بچوں میں سے 35 فیصد بچوں کا وزن ان کی عمر کے لحاظ سے کم ہے۔ عالمی سطح پر، پانچ سال سے کم عمر کے 22 فیصد بچے سٹنٹ یعنی غذائی قلت کے سبب کم نشو نما کا شکار ہیں۔
پھر انھوں نے انڈیا میں چھ وسیع سماجی طور پر پسماندہ گروہوں کا جائزہ لیا۔ ان میں آدیواسی (دور دراز علاقوں میں رہنے والے قبائلی) اور دلت (جنھیں پہلے اچھوت کے نام سے جانا جاتا تھا) شامل ہیں۔ ان برادریوں میں پانچ سال سے کم عمر کی آبادی کا ایک تہائی سے زیادہ ہے۔
ماہرین اقتصادیات نے پایا ہے کہ انڈیا میں اعلیٰ درجے کے اور غیر داغدار ذات میں شامل گروپس کے بچوں کی شرح 27 فیصد ہے، جو کہ سب صحارا افریقہ کی شرح سے واضح طور پر کم ہے۔
انہوں نے یہ بھی پایا کہ انڈیا میں اعلیٰ درجے کی ذات کے گروہوں کے بچوں کو پسماندہ گروہوں کے بچوں کے مقابلے میں سٹنٹنگ کے 20 فیصد کم امکان ہے، جو ذات پات کے درجہ بندی کے سب سے نچلے درجے میں آتے ہیں۔
یہ نتیجہ پیدائش میں ترتیب، صفائی کے طریقوں، ماں کے قد، بہن بھائیوں کی تعداد، تعلیم، خون کی کمی اور گھریلو سماجی و اقتصادی حیثیت جیسے عوامل کے حساب کو ذہن میں رکھتے ہوئے بھی اہم ہیں۔
یہ فرق انڈیا میں سات دہائیوں کی مثبت کارروائی کے باوجود موجود ہے، کیونکہ یہاں ذات پات کا نظام بہت گہرا پیوست ہے۔ ہندو مذہب میں لوگوں کو ان کی پیدائش کی بنیاد پر چار درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے، اور ان پر سختی سے عمل درآمد کیا جاتا ہے۔
مصنفین کا کہنا ہے کہ 'یہ بات حیران کن نہیں ہونی چاہیے کہ انڈیا میں بہتر طبقے کے بچوں کو زیادہ کیلوریز تک رسائی حاصل ہے اور انہیں بیماریوں سے لڑنے کے لیے بہتر سہولیات دستیاب ہیں۔'
انڈیا میں بچوں میں سٹنٹنگ کی بلند شرح کی وجوہات نے گذشتہ برسوں میں ایک پیچیدہ بحث کو جنم دیا ہے۔
کچھ ماہرین اقتصادیات نے دلیل دی ہے کہ یہ فرق جینیاتی ہیں اور یہ کہ انڈین بچے جینیاتی طور پر کم قد کے ہوتے ہیں۔
دوسروں کا خیال ہے کہ نسل در نسل بہتر غذائیت نے تاریخی طور پر قد کے فرق کو جینیاتی سمجھا ہے۔
کچھ مطالعوں سے پتہ چلا ہے کہ لڑکیاں اس معاملے میں لڑکوں سے بدتر ہیں، جبکہ کچھ مطالعات اس کے برعکس نتیجہ اخذ کرتے ہیں، اور ان کے مطالعہ کرنے والوں نے مختلف عالمی معیارات کا استعمال کرتے ہوئے یہ نتائج اخذ کیے ہیں۔
بہرحال، یہ یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ سماجی گروپوں میں سٹنٹنگ میں کمی آئی ہے۔
سنہ 2022 میں کیے جانے والے ایک علیحدہ مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ صحت اور غذائیت کی سہولیات بہتر بنانے، گھریلو حالات زندگی اور زچگی کے عوامل میں بہتری کی وجہ سے چار انڈین ریاستوں میں سٹنٹنگ میں کمی آئی ہے۔
(1992-93 کے فیڈرل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق، انڈیا کے پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں سے نصف سے زیادہ سٹنٹڈ تھے)۔
پسماندہ گروہوں مثلاً آدیواسیوں کے بچوں میں غذائیت کی کمی کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔
افریقہ میں بھی سٹنٹنگ کی شرح 2010 سے کم ہونے لگی ہے لیکن مجموعی تعداد میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
لیکن بھارت کے معاملے میں ایک بات واضح ہے کہ غریب خاندانوں کے بچے، کم تعلیم یافتہ ماؤں کے بچے، یا پسماندہ گروہوں سے تعلق رکھنے والے بچے خاص طور پر سٹنٹنگ کا شکار ہیں۔