دو کروڑ کے کتے نے ٹرمپ کی حفاظت سنبھالی
بوسٹن ڈائنامکس کی جانب سے تیار کردہ ’سپوٹ‘ نامی روبوٹ کتا امریکی سیکرٹ سروس کے قومی سلامتی کے لیے جدید ترین ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔
اس روبوٹ کتے کو حال ہی میں فلوریڈا کے پام بیچ میں نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مارا لاگو ریزورٹ کے ارد گرد گشت کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
یہ روبوٹ کتے مسلح نہیں ہیں، لیکن انہیں دور سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور ان کے سیکورٹی گشت کا راستہ بھی پہلے سے پروگرام کیا جا سکتا ہے۔
سپوٹ نامی روبوٹ کتے کی ہر ٹانگ پر ایک اسٹیکر لگا ہوا ہے جو راہگیروں کو خبردار کرتا ہے ’اس پر ہاتھ نہ پھیرنے کی کوشش نہ کریں۔‘
مینلو کالج کی ماہر سیاسیات میلیسا مائیکلسن کہتی ہیں کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ کوئی ان کتوں کو پیار کرنا چاہتا ہے۔ یہ دیکھنے میں بالکل پیارے نہیں لگتے۔‘
Uses in Urdu اب واٹس ایپ پر: سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مارا لاگو ریزورٹ کے ارد گرد سپوٹ کی ویڈیو ٹک ٹاک پر وائرل ہو گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو یہ کتے بہت پیارے لگ رہے ہیں جبکہ کچھ انہیں عجیب و غریب اور خطرناک سمجھ رہے ہیں، اور امریکی ٹاک شوز میں ان کا خوب مزاق بن رہا ہے۔
تاہم ان کتوں کے بارے میں ہنسنے کا کوئی معاملہ نہیں ہے۔
امریکی خفیہ سروس کے مواصلات کے سربراہ انتھونی گگلیئیلمی نے Uses in Urdu کو ایک بیان میں کہا کہ ’نو منتخب صدر کی حفاظت ہماری اولین ترجیح ہے۔‘
امریکی صدارتی انتخاب سے چند ماہ قبل ڈونلڈ ٹرمپ پر بظاہر دو بار قاتلانہ حملے کے نشانے بننا پڑھا۔ پہلا حملہ رواں سال جولائی میں امریکی ریاست پینسلوینیا میں ہونے والی ان کی انتخابی مہم کی ریلی کے دوران ہوا، جبکہ دوسرا حملہ ستمبر میں مارا لاگو گولف کورس میں ہوا۔
جب Uses in Urdu نے ٹرمپ کی حفاظت کے لیے ان کتوں کے استعمال کے بارے میں امریکی سیکرٹ سروس سے پوچھا تو انہوں نے ’سیکورٹی وجوہات‘ کا حوالہ دیتے ہوئے اس بارے میں بات کرنے سے انکار کر دیا۔
Uses in Urdu نے یہ بھی پوچھا تھا کہ ٹرمپ کی سب سے اہم رہائش گاہ پر یہ کتے کب تعینات کیے گئے، لیکن اس بارے میں بھی کوئی جواب نہ ملا۔
روبوٹ کتے بنانے والی کمپنی بوسٹن ڈائنامکس نے اس معاملے میں بات کرنے سے انکار کر دیا ہے، لیکن انھوں نے یہ ضرور بتایا کہ وہ سیکرٹ سروس کو سپوٹ روبوٹ فراہم کر رہے ہیں۔
سیکرٹ سروس ان کا استعمال کیوں کر رہی ہے؟
رون ولیمز، ایک سابق سیکریٹ سروس ایجنٹ جو اب سیکیورٹی اور رسک مینجمنٹ فرم ٹیلون کمپنیز کے سی ای او ہیں، کے مطابق ٹرمپ کے خلاف قاتلانہ حملوں کی وجہ سے سیکرٹ سروس ایجنسی کو یہ احساس ہوا ہے کہ ’اسے ٹیکنالوجی کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بروقت ہونے والے حملوں کا پتہ لگایا جا سکے اور انہیں روکا جا سکے۔‘
مارا لاگو میں جہاں ٹرمپ کی کئی جائیدادیں ہیں، رون ویلیمز کا کہنا ہے کہ ان روبوٹ کتوں کو وہاں بہت پہلے آ جانا چاہیے تھا۔
انھوں نے کہا کہ انسانوں کے مقابلے یہ ’روبوٹ کتے ایک وسیع رقبے پر سیکیورٹی فراہم کر سکتے ہیں۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ یہ روبوٹ کتے مستقبل میں عام نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔
اور یہ روبوٹ کتے صرف سیکرٹ سروس ہی نہیں، بلکہ رون ولیمز کے مطابق، افواج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی استعمال کر رہے ہیں۔
بوسٹن ڈائنامکس کے تشہیری مواد کے مطابق، امریکی ریاست پنسلوانیا کی مونٹگمری کاؤنٹی میں ایک بم سکواڈ ممکنہ دھماکہ خیز مواد کا معائنہ کرنے کے لیے ان کتوں کا استعمال کرتا ہے۔
خبروں کی ویب سائٹ وائرڈ کے مطابق، پچھلے سال نیو یارک پولیس ڈپارٹمنٹ نے ان روبوٹ کتوں کو اپنی فورس میں شامل کیا تھا، جس پر یہ تنقید کی گئی کہ پولیس اپنی طاقت کا غلط استعمال کر رہی ہے۔
دوسری جانب یوکرین کے اخبار کیئو پوسٹ کے مطابق، یوکرین نے 2022 میں روس کے حملے سے شروع ہونے والے جاری تنازعے میں جاسوسی کے لیے ان روبوٹ کتوں کا استعمال کیا ہے۔
’پھرتی، متعدد کیمروں اور تھرمل سینسرز سے لیس کتے‘
سپوٹ اپنی پھرتی اور تیز رفتاری کے لیے جانا جاتا ہے۔ یہ سیڑھیوں پر اوپر نیچے آ جا سکتا ہے اور تنگ جگہوں سے بھی گزر سکتا ہے، یہ دروازے بھی کھول سکتا ہے۔
تاہم، ان کتوں کی ممکنہ خطرات کو ظاہر کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے بہت ساری ایجنسیاں انہیں خریدنے کے لیے 75 ہزار ڈالرز یا دو کروڑ روپے تک ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
سیکرٹ سروس مواصلات کے سربراہ انتھونی گگلیئیلمی نے کہا کہ روبوٹ کتے ’نگرانی کرنے کے لیے استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی اور ہمارے حفاظتی کاموں میں معاونت کرنے والے جدید سینسرز سے لیس ہیں۔‘
بوسٹن ڈائنامکس کے مارکیٹنگ مواد کے مطابق یہ روبوٹ کتے متعدد کیمروں سے لیس ہیں جو ان کے گردونواح کا تھری ڈی نقشہ تیار کرتے ہیں۔ ان کتوں میں تھرمل سینسنگ جیسی اضافی چیزیں بھی لگائی جا سکتی ہیں۔‘
لیکن یہ روبوٹ کتے اپنے مالک کے بغیر کچھ نہیں ہیں۔
جارج میسن یونیورسٹی میں انجینئرنگ کی پروفیسر مسی کمنگز جو آٹونومی ایںڈ روبوٹکس سینٹر کی سربراہ ہیں، نے بتایا کہ ’ایک جوائے سٹک ہوتی ہے جو ان کتوں کو قابو میں رکھتی ہے۔‘ تاہم سپوٹ کے پروگرام میں جو راستے انسٹال ہوئے ہیں وہ ان پر خود سے چل پھر سکتے ہیں۔
انسان اور اصلی کتوں کے برعکس، روبوٹ کتوں کی توجہ کوئی چیز دیکھنے، آواز سننے یا خوشبو سونگھنے سے نہیں پھرتی۔
ان روبوٹ کتوں میں کئی خصوصیات ہیں لیکن اس کے باوجود انھیں شکست دی جا سکتی ہے۔
پروفیسر مسی کمنگز نے بتایا کہ ’آپ کو زیادہ کچھ نہیں کرنا، بس ’ایکوا نیٹ‘ نامی بالوں پر کرنے والا سپرے ان کتوں کے چہرے پر کرنا ہے اور اس سپرے کے ذریعے ان کے کیمرے خراب کیے جا سکتے ہیں۔‘
اگرچہ مارا لاگو میں نظر آنے والا روبوٹ کتا مسلح نہیں ہے، لیکن پروفیسر کمنگز کے مطابق، متعدد ٹیک کمپنیاں ایسے ماڈلز کا تجربہ کر رہی ہیں۔
پروفیسر کمنگز نے کہا کہ لوگ ان کتوں کو مسلح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انھوں نے رواں ہفتے میں ہی ایک میٹنگ میں ایک چینی ماڈل دیکھا جس میں اس روبوٹ کتے کے ساتھ رائفل لگی ہوئی تھی۔
مینلو کالج کی ماہر سیاسیات میلیسا مائیکلسن کا کہنا تھا کہ یہ کتے انسانوں کی جگہ لینے نہیں آ رہے۔ ان کی رائے میں یہ روبوٹ کتے ان ٹیکنالوجی سے لیس گاڑیوں کی طرح ہیں۔
’ہمیں گاڑیوں پر کوئی بھروسہ نہیں ہے کہ وہ خود سے چل سکتی ہیں۔‘
مارا لاگو میں تعینات سیکرٹ سروس ایجنٹس سپوٹ کے ساتھ ساتھ گشت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
میلیسا مائیکلسن نے کہا کہ 'ہمیں انسانوں کی ضرورت تو ہمیشہ رہے گی تاکہ ہم صورت حال کو سمجھ سکیں اور اگر ٹیکنالوجی ناکام ہو جائے تو وہاں مداخلت کر سکیں۔'