حکمرانی کی خواہش تو موجود تھی مگر یہ کہنا صحیح نہیں کہ ایک دن اچانک سورج طلوع ہوا اور رضیہ، برصغیر کی پہلی اور دِلّی کی واحد مسلمان خاتون سلطان بن گئیں۔
سنہ 1205 میں پیدا ہونے والی رضیہ، ہندوستان میں غلامان خاندان کے تیسرے سلطان شمس الدین الٹتمش اور ترکان خاتون (جنہیں قطب بیگم کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) کی بیٹی اور پہلے سلطان قطب الدین ایبک کی نواسی تھیں۔
رضیہ نے عربی، فارسی اور ترکی زبانوں میں تعلیم حاصل کی اور لڑائی میں بھی مہارت حاصل کی۔ ان کے والد الٹتمش انہیں حکمرانی کے معاملات بتاتے اور اُن سے مملکت کے امور میں مشورہ بھی لیتے۔
الٹتمش نے اپنے بڑے بیٹے اور بنگال میں نمائندے ناصر الدین محمود کو جانشینی کے لیے تیار کیا تھا مگر 1229 میں ان کا انتقال ہوگیا۔
الٹتمش نے بیٹی کو بیٹوں سے بہتر قرار دیا
مؤرخ منہاج السراج کے مطابق، الٹتمش کو یہ بات محسوس تھی کہ ان کے زندہ بچ جانے والے بیٹے عیش و عشرت میں مشغول ہیں اور وہ ریاستی امور نہیں سنبھال پائیں گے۔ انہوں نے اپنی بیٹی کی انتظامی صلاحیتوں کی جانچ کی تھی، لہذا انہوں نے امور مملکت کی ذمہ داری رضیہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا۔
سنہ 1231 میں گوالیار کی مہم پر روانہ ہوتے ہوئے، الٹتمش نے اپنی بیٹی رضیہ کو دِلّی کا انتظام سونپا۔ مؤرخ کے اے نظامی لکھتے ہیں کہ رضیہ نے یہ ذمہ داری اتنی اچھی طرح نبھائی کہ دِلّی واپس آنے پر الٹتمش نے انہیں اپنا جانشین نامزد کرنے کا فیصلہ کیا۔ جب امرا نے اس فیصلے پر سوال اٹھایا کہ الٹتمش کے وارث ان کے بیٹے ہیں، تو الٹتمش نے انہیں جواب دیا کہ رضیہ ان کے بیٹوں سے زیادہ قابل ہیں۔
ہندوستان میں مسلم حکمرانی کی تاریخ ’فتوح السلاطین‘ میں عبد الملک عصامی نے لکھا کہ ایک مرتبہ الٹتمش نے اپنے امرا سے کہا کہ ’میرے تمام بیٹوں کی قابلیت اور عقل کی بہ نسبت رضیہ علم و دانش، ہمت اور دلاوری میں بہت بہتر ہے۔‘
مگر یہ سب آسان نہ تھا
الٹتمش نے اپنی بیٹی کے حوالے سے جو چاہا سو کیا مگر چالیس امرا تھے جو ’ترکان چہل گانی‘ کے نام سے معروف اُس کمیٹی کے رکن تھے جس کی تائید بادشاہت کے عہدے کے لیے ضروری تھی۔
فہد کیہر لکھتے ہیں کہ یہی چالیس معتبر شخصیات تھیں جو الٹتمش کے بعد رضیہ کی حکمرانی پر متفق نہیں ہوئیں۔ خود الٹتمش کی کنیز اور ملکہ (رضیہ کی سوتیلی والدہ) ترکان شاہ بھی رضیہ کے خلاف تھیں اور وہ اپنے بیٹے (اور رضیہ کے سوتیلے بھائی) رکن الدین فیروز کو ولی عہد دیکھنا چاہتی تھیں۔
’نتیجہ یہ نکلا کہ 1236 میں رکن الدین ہی سلطان بنے، مگر چند ہی مہینوں میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ حکومت چلانا ان کے بس کی بات نہیں تھی اور اصل اقتدار حقیقت میں ملکہ ترکان شاہ کا تھا جو اپنے بیٹے کے اقتدار کی راہ میں حائل ہر رکاوٹ کو ختم کرنے پر تیار تھیں۔ ماں بیٹے کے مظالم سے بالآخر ترکان چہل گانی بھی تنگ آ گئے۔‘
محقق ایلیسا گابے کا لکھنا ہے کہ ’رضیہ ایک ایسی عورت کی شاندار مثال ہیں جو جدید اسلامی معاشرے سے پہلے کے دور میں اقتدار میں آئیں۔ رضیہ کے والد نے ان کی دانشمندی اور حکمرانی کی صلاحیتوں کو پہچانا اور ان کی آبیاری کی، جس سے انہیں جانشین بنانے اور اُن کے تخت پر فائز ہونے کی راہ ہموار کی۔‘
’رضیہ نے ایسے ماحول میں حکومت کی جہاں بیٹیوں کی پیدائش عموماً مایوسی کا سبب بنتی تھی اور خواتین کے پاس اختیارات حاصل کرنے کی بہت کم راہیں تھیں۔‘