میں اپنی بچہ دانی نکلوانے کی خواہش رکھتی ہوں، مگر ڈاکٹر کہتے ہیں کہ میں ابھی بہت چھوٹی ہوں۔
26 سال کی ایملی اپنی بچہ دانی (یوٹرس) نکلوانا چاہتی ہیں۔ اس آپریشن کو طبی زبان میں ’ہسٹریکٹومی‘ کہا جاتا ہے۔ اتنا بڑا قدم اٹھانا ان کے لیے آسان نہیں اور وہ اس سے بخوبی واقف بھی ہیں کیوں کہ ان کے بچے نہیں ہیں۔
تاہم بچہ دانی میں اینڈومیٹریوسس (endometriosis) اور ایڈینومیوسس (adenomyosis) کے باعث شدید تکلیف نے انھیں یہ مشکل فیصلہ کرنے پر مجبور کیا۔
اس درد سے نجات کے لیے ہی وہ ہمیشہ کے لیے بے اولادی کا دکھ سہنے کے لیے تیار ہو گئی ہیں۔
اینڈومیٹریوسس ایک ایسی بیماری ہے جس میں بچہ دانی کی اندرونی تہہ سے ملتے جلتے ٹشوز بچہ دانی کے باہر بڑھنے لگ جاتے ہیں۔ یہ پیٹ میں شدید درد کا سبب بن سکتا ہے اور حاملہ ہونا مشکل بنا سکتا ہے۔
جبکہ ایڈینومیوسس اس وقت ہوتا ہے جب عام طور پر بچہ دانی کی اندورنی تہہ بنانے والے اینڈومیٹریئل ٹشوز بچہ دانی کے پٹھوں کے اندر بننے لگتے ہیں۔
اس وقت ایملی کی خواہش فقط یہ ہے کہ وہ بغیر مدد اور سہارے کے چہل قدمی کرنے کے قابل ہو سکیں۔
لیکن وہ کہتی ہیں کہ وہ اپنی عمر کی وجہ سے کوئی ایسا معالج تلاش کرنے سے قاصر رہی ہیں جو اس طریقہ کار پر بات کرسکے۔
انگلینڈ کے علاقے کارمارتھن شائر سے تعلق رکھنے والی ایملی کا کہنا ہے کہ ’ڈاکٹر اس بچے کے لیے تو فکر مند ہیں جو میں مستقبل میں پیدا کرنا چاہوں گی لیکن وہ یہ نہیں محسوس کر رہے کہ اس وقت میں اس تکلیف سے گزر رہی ہوں۔‘
ایملی میں علامات اس وقت سامنے آنا شروع ہوئیں جب وہ صرف 12 سال کی تھیں۔ ان کے لیے ماہواری اس قدر تکلیف دہ ثابت ہوئی کہ انھوں نے سکول جانا چھوڑ دیا اور خون کی کمی کا شکار ہو گئیں۔
ایملی کہتی ہیں کہ ان کے معالج نے ان کو بتایا کہ یہ درد نارمل ہے۔
’وہ سوچتے تھے کہ شاید یہ سب میرے دماغ میں تھا اور میں صرف سکول سے بچنے کی کوشش کر رہی تھی۔‘
ایملی کو 21 سال کی عمر میں سیپسس (انفیکشن) کے بعد اینڈومیٹریوسس کی تشخیص ہوئی تھی۔
ایملی کو کارڈف میں علاج کے لیے بھیجا گیا تاہم وہاں ان کے مطابق انتظار اتنا طویل تھا کہ ان کے خاندان نے پرائیویٹ علاج کا فیصلہ کیا۔
ایملی این ایچ ایس کے کسی ماہر سرکاری ڈاکٹر تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے ان گنت نجی کلینکس میں چیک کروایا تاہم انھیں محسوس ہوا کہ انھیں صفر سپورٹ ملی۔
ہسٹریکٹومی ایملی کو صرف بانجھ ہی نہیں بنا دے گی بلکہ سرجری کے بعد مینو پاز، آسٹیوپروسس، دل کی بیماری اور ڈیمنشیا کا خطرہ بھی بڑھ سکتا ہے۔
اس کے باوجود پچھلے تین سال سے ہر ماہ انھیں پیریڈز روکنے کا انجیکشن لگایا جا رہا ہے تاکہ ان کی علامات اور تکالیف کو کم کیا جا سکے۔ کئی ٹیسٹ اب ان کی ہڈیوں کی صحت خراب ہونے کی نشاندہی کر رہے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ 23 سال کی عمر میں انھیں اینڈومیٹرائیوسس کی تشخیص ہوئی تھی۔
’اگرچہ یہ ایک بڑا قدم ہے تاہم اس وقت جب میں سخت تکلیف میں ہوں اس آپریشن سے شاید میں تھوڑی سی چہل قدمی کرنے کے قابل ہو سکوں۔ اس وقت میں ایک بہت ہی تاریک جگہ میں پھنس گئی ہوں۔‘
ہسٹریکٹومی کیا ہے؟
ہسٹریکٹومی خواتین کا ایک ایسا بڑا آپریشن ہے جس میں صحت یابی کے لیے طویل وقت درکار ہوتا ہے اور اس کو آخری حل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ آپریشن خواتین کے تولیدی نظام کو متاثر کرنے والے صحت کے مسائل کے علاج کے لیے کیا جاتا ہے۔
مکمل ہسٹریکٹومی میں رحم اور سروکس (بچہ دانی کا منھ) کو سرجری سے ہٹا دیا جاتا ہے۔
بعض کیسز میں فیلوپین ٹیوب، بیضہ دانی، مخصوص غدود اور اندام نہانی کا معمولی حصہ بھی آپریشن سے ہٹایا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: Strong Condemnation of Terrorist Attack Near Karachi Airport in the USA
اینڈومیٹریوسس اور ایڈینومیوسس
اینڈومیٹریوسس ایک ایسی بیماری ہے جس میں بچہ دانی کی اندرونی تہہ سے ملتے جلتے ٹشوز بچہ دانی کے باہر بڑھتے ہیں۔
یہ پیٹ کے نچلے حصے میں شدید درد کا سبب بن سکتا ہے اور حاملہ ہونا مشکل بنا سکتا ہے۔
اینڈومیٹریوسس کسی خاتون کے پہلے حیض سے شروع ہو سکتا ہے اور مینوپاز تک جاری رہ سکتا ہے۔
ایڈینومیوسس اس وقت ہوتا ہے جب عام طور پر بچہ دانی کی اندرونی تہہ بنانے والے اینڈومیٹریئل ٹشوز بچہ دانی کی پٹھوں کے اندر بننے لگتے ہیں۔
اس کی علامات اس وقت سامنے آتی ہیں جب یہ ٹشوز (بافتے) ٹوٹ جاتے ہیں۔ یہ ٹشوز ہر حیض کے دوران معمول کے مطابق کام کرتے ہیں، جن میں بافتوں کا موٹا ہونا، ٹوٹنا اور خون بہنا شامل ہے۔
اینڈومیٹریوسس ایملی کی دونوں بیضہ دانیوں کے ساتھ ساتھ ان کی بچہ دانی، مثانے اور ان کی آنت کے کچھ حصے میں پھیلا ہوا ہے۔
ان میں مینوپاز کی علامات بھی شدید رہی ہیں لیکن ہارمون ریپلیسمنٹ تھراپی (HRT) اینڈومیٹریوسس کو مزید خراب کر دیتی ہے۔
اپنے کیس کی پیچیدگیوں کی وجہ سے ایملی کو ہسٹریکٹومی کروانے کے لیے اینڈومیٹریوسس کے ماہر ڈاکٹر کی ضرورت ہوگی۔
برطانیہ کے ایک ماہر ڈاکٹر کے مطابق، ’بچہ دانی کا آپریشن اینڈومیٹریوسس کے درد اور علامات سے مکمل نجات کی ضمانت تو نہیں دے سکتا، البتہ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ حتمی انتخاب آپ کا ہے، یہ آپ کا جسم ہے۔‘
آپریشن کے لیے کم عمری رکاوٹ
ایملی نے کہا کہ ’میں واقعی میں نہیں سوچتی کہ خواتین کو اپنے جسم کے بارے میں انتخاب کرنے کی آزادی ہے۔‘
’مجھے بتایا گیا ہے کہ اگر میں بہتر ہو جاتی ہوں تو اپنے شوہر کے ساتھ بچہ پیدا کرنا چاہوں گی۔ وہ صرف آگے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور یہ نہیں دیکھ رہے کہ میں ابھی کہاں کھڑی ہوں۔‘
’بنیادی طور پر تولیدی صحت کو میری ہر بیماری سے اوپر رکھا جا رہا ہے حالانکہ میں ایک اذیت سے گزر رہی ہوں۔‘
ایملی نے کہا کہ ’مجھے مشورہ دیا گیا ہے کہ میں کیمیکل سے متاثرہ مینوپاز میں رہوں۔ مانع حمل گولیاں کھاؤں، ڈپریشن کی دوائیاں لوں، دوڑوں، ورزش اور یوگا کروں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میں بغیر سہارے کے چل نہیں سکتی، اس لیے مجھے دوڑنے کے بارے میں بتانا کوئی اچھا مشورہ نہیں ہے۔‘
ایملی تولیدی صحت سے متعلق مسائل پر آگاہی دینے پر کام کر رہی ہیں اور اس پر انھیں برطانوی شاہی خاندان کی جانب سے بھی سراہا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’مجھے کچھ واقعی حیرت انگیز مواقع ملے ہیں اور یہی چیز مجھے امید پر قائم رکھے ہوئے ہے۔‘
ایملی نے بتایا کہ اب تک نجی فنڈ سے ان کی دو سرجریز ہو چکی ہیں اور ممکنہ طور پر ایک اور سرجری ہو سکتی ہے۔
سرجری کے بعد کی دیکھ بھال اور مشورے پر بھی اخراجات آتے ہیں۔ انھوں نے کہا، ’فی الحال این ایچ ایس سے کوئی بھی میری دیکھ بھال نہیں کرے گا، لہذا یہ فنڈنگ اور صحیح شخص کی تلاش کا ایک نہ ختم ہونے والا چکر بن گیا ہے۔‘
’میں سمجھتی ہوں کہ جب آپ کی نجی نگہداشت ہوتی ہے تو آپ یہی راستہ اختیار کرتے ہیں، لیکن اگر این ایچ ایس بھی مدد کے لیے موجود نہیں ہے، تو پھر کوئی چارہ نہیں ہے۔‘
ویلش حکومت کے ترجمان نے کہا کہ خواتین کی صحت کو اہم ترجیح بنایا گیا ہے اور دسمبر میں خواتین کی صحت کا 10 سالہ منصوبہ شائع ہو گا۔
انھوں نے کہا کہ ویمنز ہیلتھ نیٹ ورک کو اینڈومیٹرائیوسس کی دیکھ بھال، علاج اور مدد سمیت بہتری فراہم کرنے کے لیے قائم کیا گیا ہے۔
ترجمان کے مطابق ’ہیلتھ بورڈز خدمات کی فراہمی کے ذمہ دار ہیں اور ہم نے ہر ہیلتھ بورڈ کے اندر اینڈومیٹرائیوسس فنڈ فراہم کیا ہے۔‘