یہ کیسا علم ہے ؟
ڈاکو اور علم کی قدر
تحریر : ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم
جرجان سے طوس جانے والا قافلہ دامن کوہ میں پہنچا ہی تھا کہ اچانک پہاڑ کمین گاہ سے ڈاکو اس پر ٹوٹ پڑے اور لوٹ مار کا بازار گرم ہوگیا۔ اسی دوران ان ڈاکوؤں کے سردار نے دیکھا کہ قافلے کا ایک لڑکا اپنا تھیلا ادھر اُدھر چھپانے کی کوشش کررہا ہے۔ سردار نے اپنے ساتھی سے اس لڑکے کو پکڑ کر لانے کو کہا۔ ڈاکو نے اسے لڑکے کو دبوچا اور سردار کے حوالے کردیا۔
یہ بھی پڑھیں: خواب اور حقیقت: قیمتی سامان کی واپسی کا انوکھا قصہ
علم کی اہمیت
اس لڑکے نے اپنے تھیلے کو مضبوطی سے سینے سے چمٹا لیا۔ یہ دیکھ کر سردار نے وہ تھیلا اس سے چھین لیا، لڑکا منت سماجت اور گریہ زاری کرتے ہوئے کہنے لگا، "تھیلے میں جو نقدی ہے وہ آپ لے لیں، مگر جو کاغذات اس میں ہیں وہ براہِ کرم مجھے لوٹا دیں۔"
سردار بڑی حیرت سے اسے دیکھنے لگا کہ خلاف معمول اسے نقدی کی تو فکر نہیں، مگر ان کاغذات کی بڑی فکر ہے۔ آخر کیوں؟ جب ڈاکو نے اس کی وجہ پوچھی تو لڑکے نے کہا کہ ان اوراق میں میرا وہ علمی سرمایہ ہے جو میں نے بڑے مصائب جھیل کر، سفر کی تلخیاں سہہ کر حاصل کیا ہے، اگر یہ مجھ سے چھن گیا تو میں اپنے اس عزیز ترین علمی سرمایہ سے محروم ہو جاؤں گا۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر اعلیٰ پنجاب اور ارجنٹائن کے سفیر سیباسٹین سیوس کی ملاقات: اوکاڑہ میں سائلوز کے پائلٹ پراجیکٹ کا آغاز
سردار کا جواب
سردار چند لمحوں کے لیے حیرت میں ڈوب گیا، پھر اس نے کہا، "صاحبزادے! وہ علم کس کام کا جس کو میرے جیسے ڈاکو لے اُڑیں، ہم تو یہ سنتے آئے ہیں کہ علم تو وہ دولت ہے، جسے کوئی چُرا نہیں سکتا۔" یہ کہہ کر تھیلا نوجوان کی جانب پھینک دیا۔
وہ یہ بات کہہ کر آگے بڑھ گیا، مگر ادھر اس لڑکے کے دل و دماغ میں ایک ہلچل سے مچ گئی۔ سردار کے الفاظ بار بار اس کے ذہن میں گونج رہے تھے، "وہ علم کس کام کا جس کو میرے جیسے ڈاکو لے اُڑیں۔" سوچتے سوچتے اس نے اپنی زندگی کا اہم ترین فیصلہ کر لیا، وہ یہ کہ اب لکھے ہوئے علم پر کبھی انحصار نہیں کرے گا۔ جو کچھ سیکھے گا، اسے قرطاس و قلم کے حوالے کرنے کے ساتھ دل و دماغ میں نقش کرے گا۔ اس فیصلے نے اس کی زندگی کا رنگ ہی بدل ڈالا۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی صدارتی انتخابات، پنسلوینیا میں 4 ہزار اوور سیز کے ووٹ مسترد ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا کیونکہ ۔ ۔ .
امام غزالی کا سفر
پھر اس نوجوان کو سارے زمانے نے امام غزالیؒ کے نام سے پہچانا جو کہ علمی دنیا کا درخشندہ ستارہ بن کر جگمگائے۔ انہیں تحصیل علم کا بچپن ہی سے شوق تھا۔ علم کے میدان میں ان کا کوئی حریف نہ تھا۔ عقلیات اور فلسفہ ان کی علمی زندگی کا اوڑھنا بچھونا تھا۔
آج ہمارے بچے ہم سے زیادہ قابل اور اہل علم جان جاتے ہیں مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان کا علم ان کی عملی زندگی پر کوئی اچھا اثر نہیں ڈال رہا۔ وہ علم جس کے نور سے انسان کو انسانیت کے اس مقام پر ہونا چاہیے جسے مسجود ملائک کہا جاتا ہے، وہ انسان خود غرض اور مفاد پرست بنا ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: غیرملکی اثاثوں اور بینک اکاؤنٹس کیخلاف درخواست 20ہزار جرمانے کیساتھ خارج
علم کی حقیقت
ایسا علم جو انسان کے اپنے لیے اپنی شخصیت کے لیے مفید نہ ہو وہ دوسروں کو کیا نفع دے گا۔ علم کا نفع یہ ہے کہ تم اس کے مطابق عمل کرو۔ علم وہ ہے جو آخرت کی فکر پیدا کرے اور دنیا کی محبت کم کرے۔ علم وہ ہے جو دنیا اور آخرت دونوں کے معاملات میں انسان کی رہنمائی کرے۔
علم جب عمل سے خالی ہو، علم جب ادب سے خالی ہو، علم جب تربیت سے خالی ہو تو وہ محض معلومات کا ایک مجموعہ رہ جاتا ہے بالکل ایسا بھوسہ جو جانور کا پیٹ تو بھرتا ہے مگر اس میں غذائیت نہیں ہوتی۔ ایسے علم سے نہ روح متاثر ہوتی ہے نہ دل نہ دماغ۔
تعلیم کی اہمیت
نوٹ: ادارے کا لکھاری کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔