شام میں مقیم عالم عبدالرحمان الادریسی نے دعویٰ کیا کہ محمد بن سلمان کے ایما پر فیشن شو میں خواتین اس ’کعبہ نما شکل‘ کے گرد چکر لگا رہی ہیں۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ یہ ’دجال کو بلانے کی شیطانی حرکت ہے۔‘
یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ ایسی کئی پوسٹیں دنیا بھر میں مسلح انتہا پسند گروہوں کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے بعض اکاؤنٹ شیئر کر رہے تھے۔
پاکستان میں بھی بعض صارفین نے اس معاملے پر تبصرے لکھے۔ جیسے ملا حقانی نامی صارف کا کہنا تھا کہ ’ریاض میں فیشن ویک کی تقریب میں خانہ کعبہ کی توہین کی گئی ہے۔ انھوں نے جان بوجھ کر اس جگہ کو کعبہ جیسا ڈیزائن کیا ہے اور اس کے گرد نیم برہنہ خواتین سے چکر لگوایا گیا۔‘
مونا نامی ایک صارف کہتی ہیں کہ ان کے پاس خانہ کعبہ کا ماڈل تھا جہاں انھوں نے گلوکاروں اور رقاصوں کی تصاویر آویزاں کیں۔
سوشل میڈیا پر ایسی تحریف شدہ تصاویر بھی گردش کر رہی ہیں جن میں اس فیشن شو کے دوران مجسمے دیکھے جاسکتے ہیں۔
بعض صارفین نے دوسروں کو یہ سمجھانے کی بھی کوشش کی کہ ’ہر کیوب شکل کی چیز کعبہ نہیں ہوتی۔‘ شہناز سولنگی نے لکھا کہ ’کنسرٹ میں اس کیوب سکرین کو کعبہ قرار دے (کچھ) پاکستانی سعودی عرب کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔‘
سعودی میڈیا کا سخت ردعمل
سعودی چینل العربیہ ٹی وی نے 17 نومبر کو اپنی نشریات کے دوران کہا کہ سوشل میڈیا پر ’نامعلوم اور مشکوک اکاؤنٹس‘ نے ’سعودی منصوبوں پر حملہ آور ہونے کے لیے‘ ایک مہم شروع کی تھی۔
العربیہ کی ویب سائٹ پر ایک تحریر میں لکھا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر ریاض سیزن کو تنقید کرنے والی مہم کا مقصد ’سعودی سافٹ پاور اور ویژن 2030 پروگرام کو مسخ کرنے کی کوشش ہے۔‘
خیال رہے کہ اکتوبر میں شروع ہونے والے سالانہ ثقافتی پروگرام پر ابتدا سے ہی آن لائن منفی تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ بعض حلقوں نے تنقید کرتے ہوئے اسے غزہ اور لبنان میں جاری جنگ سے جوڑا تھا کہ وہاں لوگوں کی اموات کے باوجود ریاض میں ثقافتی تقاریب جاری ہیں۔
تاہم العربیہ کی نشریات میں سعودی بادشاہت کے حامی کالم نگار عبداللہ الجدایہ کا کہنا تھا کہ اس مہم کے پیچھے سعودی عرب میں کالعدم ’اخوان المسلمین اور دنیا بھر میں اس کے رکن ہیں۔‘