پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کی ماضی کے احتجاج سے کیسی فرق ہیں اور بشریٰ بی بی کا کیا کردار ہے؟

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے ایک بار پھر ملک کے دارالحکومت اسلام آباد کی جانب 24 نومبر کو لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سیاسی حلقوں میں اس بار پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے اعلان کو ماضی کے احتجاج سے زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے، کیونکہ اس بار نہ صرف عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی جیل سے باہر ہیں بلکہ سیاست میں بھی فعال طور پر حصہ لے رہی ہیں۔

پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ وہ 24 نومبر کو اسلام آباد میں لانگ مارچ کریں گے اور اپنے مطالبات پورے ہونے تک واپس نہیں جائیں گے۔ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جماعت کے چار مطالبات ہیں جن میں 26 ویں آئینی ترمیم کا خاتمہ، جمہوریت اور آئین کی بحالی، چوری شدہ مینڈیٹ کی واپسی اور تمام معصوم سیاسی قیدیوں کی رہائی شامل ہیں۔

ایک طرف جہاں پی ٹی آئی کامیاب لانگ مارچ کے دعوے کر رہی ہے، وہیں دوسری طرف حکومت اس لانگ مارچ کو روکنے کی تیاری کر رہی ہے۔

اسلام آباد کے داخلی اور خارجی راستوں پر پہلے ہی کنٹینرز رکھ دیے گئے ہیں۔ دارالحکومت کی حدود میں دو ماہ کے لیے دفعہ 144 کا نفاذ کر دیا گیا ہے۔

منگل کو اسلام آباد میں ملک میں امن و امان کی صورتحال پر غور کے لیے ایپکس کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا، جس میں وزیرِ اعظم شہباز شریف، وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور اور دیگر صوبائی وزرا، فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر اور دیگر سینیئر سویلین اور عسکری حکام نے شرکت کی۔

ایپکس کمیٹی کے اس اجلاس میں کیا ہوا، اس حوالے سے پی ٹی آئی نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ تاہم اجلاس کے بعد وزیرِ اعظم شہباز شریف نے خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی کا ذکر کیے بغیر کہا کہ 'گذشتہ کئی ماہ سے وفاقی دارالحکومت میں جب بھی کوئی بڑا ایونٹ ہوتا تھا تو یہاں دھرنا ہوتا تھا۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ کیا یہ پاکستان کے حق میں ہے۔'

انہوں نے کہا کہ 'اگر واقعی پاکستان کی ترقی اور خوشحالی آپ سب کو عزیز ہے تو پھر یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم دھرنے دے لیں، لانگ مارچ کریں یا ترقی اور خوشحالی کے راستے پر چلیں۔'

پی ٹی آئی کا لانگ مارچ ماضی کے احتجاج سے کتنا مختلف ہوگا؟

پی ٹی آئی کا لانگ مارچ ماضی کے احتجاج سے کتنا مختلف ہوگا؟

پی ٹی آئی ماضی قریب میں ہونے والے احتجاج اور لانگ مارچ میں بانی جماعت عمران خان سمیت دیگر رہنماؤں کو کوئی بڑا ریلیف دلوانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ اس صورتحال میں سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کا 24 نومبر کا لانگ مارچ ماضی کے احتجاج سے کتنا مختلف ہوگا اور حکومت اس لانگ مارچ کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا حکمت عملی اپنائے گی؟

پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی شیر علی ارباب کہتے ہیں کہ 'پچھلے احتجاجی مظاہروں کا مقصد کارکنان کو متحرک کرنا، آگاہی پیدا کرنا اور حکومتی ردِ عمل کو جانچنا تھا۔'

24 نومبر کے لانگ مارچ کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ 'یہ احتجاج (لانگ مارچ) طویل المدتی ہوگا، زیادہ منظم ہوگا اور اس میں لوگوں کی بڑی تعداد شریک ہوگی۔'

یہ بھی پڑھیں: یہ تو نہیں ہوا، مگر جو ریپ ہو رہے ہیں، ان کا کیا؟

حکومت اور پی ٹی آئی میں پس پردہ مذاکرات کی گونج

حکومت اور پی ٹی آئی میں پس پردہ مذاکرات کی گونج

سیاسی حلقوں میں ایسی اطلاعات بھی گردش کر رہی ہیں کہ پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان شاید کوئی پسِ پردہ مذاکرات چل رہے ہیں۔

حکومتی وزرا نے ان خبروں پر تاحال کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے جبکہ دوسری جانب پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے رُکن قومی اسمبلی شیر علی ارباب نے Uses in Urdu کو بتایا کہ انھیں حکومت یا ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے ہونے والے کسی بھی مذاکرات کا علم نہیں ہے۔

تاہم عمران خان کی بہن علیمہ خان نے تصدیق کی ہے کہ بیرسٹر گوہر اور وزیرِ اعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈاپور نے بانی پی ٹی آئی عمران خان سے اسٹیبشلمنٹ سے مذاکرات شروع کرنے کی اجازت مانگی ہے۔

منگل کو اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے علیمہ خان کا کہنا تھا کہ ’بیرسٹر گوہر اور علی امین گنڈاپور نے ان (عمران خان) سے اجازت مانگی ہے کہ ہم اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی شروعات کریں۔ عمران خان اجازت دیتے ہوئے کہا ہے کہ سیاسی جماعتیں ہمیشہ اپنے دروازے کھلے رکھتی ہیں۔‘

جماعت کے سیکریٹری انفارمیشن شیخ وقاص اکرم بھی اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ’حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان کسی سطح پر کوئی رابطہ نہ ہے، نہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی احتجاج کو روکا جا سکتا ہے۔‘

سینیٹ میں حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینیٹر عرفان صدیقی بھی کہتے ہیں کہ ان کے پاس حکومت یا پی ٹی آئی کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے کوئی تفصیل موجود نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ پی ٹی آئی کے ان چار مطالبات کو مان سکے یا پھر اس کے علاوہ انھیں کچھ اور دے سکے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ان میں سے کون سی شرط پر مذاکرات ہو سکتے ہیں؟ ہو سکتا ہے کہ پی ٹی آئی میں کچھ ایسے لوگ ہوں جو سمجھتے ہوں تصادم نہ چاہتے ہوں، جنھیں معلوم ہو کہ اتنا بڑا مجمع اکٹھا کرنا آسان نہیں ہے وہ حکومتی یا دیگر حلقوں کے ساتھ رابطے میں ہوں۔‘

سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ ’جب وہ (پی ٹی آئی) نکلیں گے، توڑ پھوڑ کرنے، شہر پر قبضہ کرنے یا اڈیالہ جیل توڑنے کے ارادے سے آئیں گے تو ریاست آئین کے تحت دیے گئے اختیارات کے تحت طاقت کا استعمال کرے گی۔‘

سینیٹر عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ عمران خان نے لانگ مارچ کی کال ’بہنوں کے ذریعے دی ہے اور ان کی بیگم اس کو منظم کر رہی ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’جو کرنا ہے قانون کے مطابق کریں ورنہ مجھے تو نہیں لگتا کہ یہاں کوئی بیچ بچاؤ کا کوئی راستہ ہے۔‘

پی ٹی آئی لانگ مارچ میں عمران خان کی اہلیہ کا کیا کردار ہے؟

پی ٹی آئی لانگ مارچ میں عمران خان کی اہلیہ کا کیا کردار ہے؟

عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی بھی پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے حوالے سے متحرک نظر آ رہی ہیں۔ گذشتہ روز سے ان کی ایک مبینہ آڈیو سوشل میڈیا اور میڈیا پر گردش کر رہی ہے جس میں وہ 24 نومبر کے لانگ مارچ کے حوالے سے ’ہدایات‘ دے رہی ہیں۔

وزیرِ اعلیٰ خیبرپختونخوا کے مشیرِ اطلاعات بیرسٹر سیف نے پاکستان کے مقامی چینل جیو نیوز کو اس آڈیو کے اصلی ہونے کی تصدیق کی ہے۔

ٹانک سے رُکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے داور خان کنڈی نے Uses in Urdu سے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بشریٰ بی بی ہماری خاتونِ اول ہیں اور ان کے احکامات ہماری پارٹی انتہائی احترام سے مانتی ہے اور ہم بھی یہ سمجھتے ہیں کہ جب خان صاحب اندر جیل میں ہیں تو بشریٰ بی بی چونکہ وہ سارے معاملات میں جیل میں بھی وقت گزار کر آئی ہیں، ساری تکلیفیں بھی برداشت کر رہی ہیں تو ہم تو خوش ہوتے ہیں کہ ان کی سرپرستی آجائے پارٹی پر اور اس سے نظم و ضبط قائم ہو پارٹی میں۔‘

تاہم بشریٰ بی بی کی جانب سے لانگ مارچ کے متعلق ہدایات دینے والی آڈیو کے متعلق بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’میرا نہیں خیال کہ بشریٰ بی بی نے کسی اجلاس سے خطاب کیا ہے۔ ہمیں نہ بُلایا، نہ دعوت دی گئی۔ میں نے یہ کلپ سُنا تھا لیکن مجھے یہ مستند نہیں لگتا۔‘

دوسری جانب علی شیر علی ارباب کہتے ہیں کہ ’مسز خان نے کارکنان اور رہنماؤں تک عمران خان کا پیغام پہنچایا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ وہ پارٹی کے رینک اینڈ فائل کا حصہ نہیں ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’عمران خان کی بہنوں اور اہلیہ کے پیغامات کے توسط سے (لانگ مارچ کی) کال کو تقویت ملتی ہے اور اس کا مثبت اثر پڑے گا۔‘

انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ بشریٰ بی بی نے خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ ہاؤس میں کچھ اجلاس سے خطاب کیا ہے ’لیکن میں ذاتی طور پر وہاں موجود نہیں تھا۔‘

سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق بشریٰ بی بی کے پی ٹی آئی کی سیاست میں متحرک ہونے پر پی ٹی آئی کے اندر مختلف آرا پائی جاتی ہے۔

خیبرپختونخوا کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار عقیل یوسفزئی کا کہنا ہے کہ سیاست میں بشریٰ بی بی کے ’متحرک‘ ہونے سے جماعت میں کچھ افراد نہ خوش بھی ہیں۔

انھوں نے Uses in Urdu کو بتایا کہ بشریٰ بی بی کے احکامات پر ’کچھ سینیئر اراکین اور رہنماؤں نے شدید اعتراضات بھی اُٹھائے ہیں کہ لوگوں کو ثبوت کے طور پر ویڈیوز بنانے کے احکامات جاری کیے جارہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں انھیں (بشریٰ بی بی کو) ہم پر اعتماد نہیں ہے؟‘

عقیل یوسفزئی کے مطابق معترض اراکین کا مؤقف ہے کہ اب تک تمام احتجاجی مظاہروں میں خیبرپختونخوا کے رہنماؤں نے ہی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے کیونکہ باقی صوبوں سے تو لوگ نکل ہی نہیں پائے۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...