نشتر ہسپتال میں ڈائلیسز کے 25 مریضوں میں ایچ آئی وی کی تصدیق: ‘ہم کس گناہ اور غلطی کی سزا بھگت رہے ہیں؟’

’میری اہلیہ کافی عرصے سے ڈائلیسز پر تھیں۔ ہسپتال والوں نے اس سے پہلے کبھی بھی زور دے کر نہیں کہا کہ ٹیسٹ کروائیں۔ گذشتہ ماہ انھوں نے ٹیسٹ کیے اور بتایا کہ میری اہلیہ ایچ آئی وی پازیٹو ہوچکی ہیں۔ یہ سن کر ہمارے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی سمجھ میں نہیں آیا کہ اب ہمارا کیا بنے گا۔‘

یہ کہنا ہے کہ ملتان کے نواحی علاقے کے رہائشی امیر حسین (فرضی نام) کا جن کی اہلیہ روحی امیر (فرضی نام) ایک عرصے سے گردوں کے عارضے میں مبتلا ہیں اور ان کا علاج ملتان کے نشتر ہسپتال میں جاری ہے۔

روحی امیر کے حالیہ کیے جانے والے خون کے نمونے کے تجزیے میں ان کا ایچ آئی وی پازیٹو آنے کے بارے میں خیال کیا جارہا ہے کہ ان میں ایچ آئی وی کا وائرس ہسپتال کے ڈائلیسز مشین کے ذریعے سے منتقل ہوا ہے۔

یاد رہے کہ رواں ماہ جنوبی پنجاب کے سب سے بڑے ہسپتال نشتر ہسپتال میں مبینہ طور پر ہسپتال کی غفلت کے باعث ڈائیلسز کروانے والے 25 مریضوں میں ایچ آئی وی پازیٹو ہونے کی تشخیص ہوئی ہے۔

امیر حسین کہتے ہیں کہ ’مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ میں کیا کروں، کس سے بات کروں بس ایسے لگتا ہے کہ جیتے جی مرگیا ہوں۔ ایڈز والی بات پھیل چکی ہے۔ کئی لوگوں کو پتا ہے کہ میری اہلیہ کے ڈائلیسز ہو رہے ہیں۔ لوگ اور رشتہ دار کھل کر بات تو نہیں کرتے ہیں مگر ان کا رویہ بتاتا ہے کہ وہ اب ہم سے کترا رہے ہیں۔‘

’ہمیں کس گناہ اور غلطی کی سزا مل رہی ہے‘

’ہمیں کس گناہ اور غلطی کی سزا مل رہی ہے‘

ایک اور متاثرہ خاتون مریض غزالہ (فرضی نام) کے بیٹے نوشاد (فرضی نام) کا کہنا تھا کہ ان کی والدہ کچھ عرصہ سے ڈائلیسز پر ہیں اور ہفتے میں تین بار ان کا ڈائلیسز ہو رہا ہے۔

نوشاد نے بتایا کہ یہ اکتوبر کا واقعہ ہے، میں جب والدہ کے ہمراہ ہسپتال گیا تو وہاں پر کچھ بھی ٹھیک نہیں تھا۔ عملے کا ہر فرد ڈرا ہوا اور پریشان تھا۔ ہمیں فوراً کہا گیا کہ سیکنگ کروانی ہے اور نہ صرف والدہ کا خون لیا گیا بلکہ میرا بھی خون لیا گیا تھا۔

نوشادکا کہنا تھا کہ ہمیں وہاں ہی پر انتظار کرنے کا کہا گیا تھوڑی دیر بعد بتایا گیا کہ والدہ ایچ آئی وی پازیٹو ہیں جبکہ میں نیگٹو ہوں۔

’یہ سن کر میری والدہ کے جسم میں جان باقی نہیں رہی۔ وہ مجھے عجیب سی نظروں سے دیکھ رہی تھیں اور میں سوچ رہا تھا کہ ہمارا گناہ اور غلطی کیا ہے، ہمیں کس گناہ اور غلطی کی سزا مل رہی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اب بھی ان کی والدہ کا ڈائلیسز ہو رہا ہے۔ اب ہسپتال کا عملہ والدہ کے پازئیٹو ہونے کی وجہ سے خصوصی طور پر خیال رکھ رہا ہے۔

ڈائیلسز کے مریضوں میں ایچ آئی وی کی تصدیق ہونے کے فوری بعد نشتر ہسپتال نے اس وائرس کی منتقلی کے اسباب جانچنے کے لیے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی۔

اس تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق، پچھلے مہینے اکتوبر میں ایک چالیس سالہ مریض کو ایمرجنسی میں ہسپتال لایا گیا تھا۔ یہ مریض پہلے بھی ہسپتال میں ڈائلیز پر تھا۔ ڈائلیز کے دوران اس مریض کی موت ہو گئی، جس کے بعد ہسپتال کے عملے کو پتہ چلا کہ مذکورہ مریض ایچ آئی وی پازٹیو تھا۔

تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق یہ واقعہ 11 اکتوبر کو پیش آیا تھا۔ اُس وقت ڈائلیز یونٹ میں کل 270 مریض زیر علاج تھے۔ اس کے بعد تمام مریضوں کی جانچ شروع کی گئی، اور 9 نومبر تک مجموعی طور پر 220 مریضوں کی جانچ کی جا چکی تھی، جن میں 25 مریضوں میں ایچ آئی وی وائرس کی تشخیص ہوئی، ان میں دس خواتین بھی شامل ہیں۔

ہسپتال کی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طبی عملے کی بھی جانچ کی گئی، مگر اس میں کوئی متاثرہ نہیں پایا گیا۔

ہسپتال کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق، جانچ کا دوسرا دور شروع ہو چکا ہے جو ممکنہ طور پر دسمبر کے پہلے ہفتے میں مکمل ہو گا۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جینیاتی مطالعے کیے جائیں گے تاکہ وائرس کے رابطوں کا تعین کیا جا سکے۔

تاہم رپورٹ میں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ پچھلے مہینے ایچ آئی وی متاثرہ مریض، جو ڈائیلسز کے بعد ہلاک ہو گیا، کی جانچ کیوں نہیں کی گئی تھی؟

تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بھی واضح نہیں کیا گیا کہ ہلاک ہونے والے مریض میں ایچ آئی وی وائرس منتقل ہونے کی وجوہات کیا تھیں، اور وہ کچھ عرصے سے ڈائیلسز پر تھا۔

Uses in Urdu نے نشتر میڈیکل یونیورسٹی کی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مہناز خاکوانی، رجسٹرار یونیورسٹی اور نیفرالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ ڈاکٹر غلام عباس اور ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر کاظم سے رابطہ کیا، مگر انہوں نے اس واقعے سے متعلق کوئی جواب نہیں دیا۔

ہسپتال کی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ہسپتال کے عملے کو انفیکشن کنٹرول کرنے کے لیے باقاعدگی سے تربیت دی جاتی ہے۔ تاہم، یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ ڈائیلسز وارڈ میں ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کی کمی ہے، جس کی وجہ سے کئی مواقع پر انفیکشن کنٹرول پروگرام متاثر ہوتا ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ڈائیلسز مشینیں کم ہیں، جس کی وجہ سے اکثر مریضوں کی تعداد بڑھ جانے کے باعث ایک مشین پر دو دو مریضوں کا ڈائیلسز کیا جاتا ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر کوئی مریض ہسپتال سے باہر ڈائلیسز کرواتا ہے یا غیر محفوظ طریقے سے خون لگواتا ہے تو وہ اس بات کا ذکر نہیں کرتا، جس کی وجہ سے ہر مریض کی سیکنگ کی پالیسی پر سختی سے عمل نہیں ہو سکا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ کچھ مریضوں نے اپنی غلط رپورٹ ڈائلیسز یونٹ کو فراہم کی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جن مریضوں کا ایچ آئی وی پازٹیو آیا ہے ان کو الگ کر دیا گیا ہے۔ ان کے لیے خصوصی ڈائلیسز مشینیں مختص کی گئی ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایچ آئی وی پازیٹو کے مناسب علاج کے لیے ایڈز کنٹرول پروگرام میں ریفر کر دیا گیا ہے اور ایسے مریضوں کی شناخت کو خفیہ رکھا جا رہا ہے۔ نئے مریضوں کی رجسٹریشن بند کردی گئی ہے اور انہیں دوسری جگہوں پر ریفر کیا جا رہا ہے۔

تاہم پنجاب کے صوبائی وزیر صحت خواجہ سلیمان رفیق کی طرف سے اس معاملے پر جاری کردہ ایک اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ نشتر ہسپتال ملتان کا واقعہ انتہائی افسوسناک اور ناقابل برداشت ہے۔

صوبائی وزیر نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے قائم کردہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے واقعے کے ذمہ داروں کا تعین کر لیا ہے۔ اب ان تمام ذمہ دار عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

وزارت صحت پنجاب کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ نشتر ہسپتال ملتان کے عملے کی غلطی کی بنا پر ایچ آئی وی وائرس کی منتقلی کے واقعے کا سخت نوٹس لیا گیا اور چار رکنی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی قائم کی گئی۔ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے نشتر ہسپتال ملتان جا کر ث証ت اکٹھے کیے اور ذمہ داروں کا تعین کیا ہے۔ تاہم پریس ریلیز میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اس واقعے کے ذمہ دار کون ہیں؟

ڈائلیسز کرنے سے پہلے اور بعد کے حفاظتی اقدامات

ڈائلیسز کرنے سے پہلے اور بعد کے حفاظتی اقدامات

طبی ماہرین کے مطابق ڈائلیسز کرنے سے پہلے اور بعد میں کئی حفاظتی اقدامات ہیں اور ان اقدامات پر عمل کرنا ہر مریض اور عملے کی صحت کے لیے لازمی ہے ورنہ مختلف قسم کی بیماریاں اور انفیکشن پھیلنے کا خطرہ رہتا ہے۔

ڈائلیسز سے پہلے مریض کی لازمی طور پر مکمل جانچ ہونی چاہیے جس میں خون کے مختلف ٹیسٹ شامل ہوتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اکثر اوقات کچھ مریضوں کو ہفتے میں کئی مرتبہ ڈائلیسز کروانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ان مریضوں کا ہر ڈائلیسز پر خون کے ٹیسٹ کرنا عملاً ممکن نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں عملے کو مریض اور اس کے لواحقین کو ضروری طور پر یہ باور کروانا ہوتا ہے کہ اگر وہ مذکورہ یونٹ کے علاوہ کسی اور یونٹ سے ڈائلیسز کروائیں گے تو لازمی عملے کو آگاہ کریں۔

اس حوالے سے طبی عملے کو مریض اور اس کے لواحقین کی کونسلنگ کرنی چاہیے تاکہ وہ اپنی اور کسی اور کی زندگی کو خطرے میں نہ ڈالیں۔ ہر مریض کا کچھ عرصے بعد لازمی طور پر خون کے ٹیسٹوں سمیت دیگر طبی معائنے کیے جانے چاہیں۔

ڈائلیسز سے پہلے، ڈائلیسز مشین کو اندرونی اور بیرونی طور پر انفیکشن سے پاک کرنا ضروری ہے۔ ڈائلیسز کے بعد بھی مشین کی صفائی اہم ہے۔ ڈائلیسز کے دوران عملے اور مریض کو مخصوص لباس پہننا چاہیے، اور اس لباس کو استعمال کے بعد انفیکشن سے پاک کرنا ضروری ہے۔ ڈائلیسز میں استعمال ہونے والی سرنجوں کو بھی انفیکشن سے پاک کرنا چاہیے اور ہر مریض کو اپنے مخصوص آلات کا استعمال کرنا چاہیے۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...