وِیگن غذا کیا ہے اور بڑھتی عمر میں اس کے استعمال کے صحت پر اثرات کیا ہیں؟
ایک وقت کے کھانے میں ایک شخص کے لیے کتنا گوشت ہونا چاہیے یہ ہمیشہ ایک بڑا سوال ہوتا ہے۔ جہاں کچھ لوگ اکثر ویگن فوڈ کی تعریف کرتے ہیں، وہاں کچھ ایسے بھی ہیں جو اس کے بارے میں محتاط رویہ رکھتے ہیں۔
یہاں سب سے پہلے یہ واضح کر دوں کہ ویگن غذا کیا ہے؟ ویگن ڈائیٹ کا مطلب ہے کہ آپ سبزی خور ہو گئے ہیں، یہاں تک کہ آپ نے دودھ، دہی، گھی، مکھن، لسی، کریم اور پنیر بھی ترک کر دیا ہے۔ اس میں شہد بھی چھوڑنا پڑتا ہے۔
یہ بھی بحث کا موضوع رہا ہے کہ کیا سبزی خوری تمام لوگوں کے لیے اور خصوصاً بزرگوں کے لیے ایک صحت بخش غذا ہے۔
بی ایم سی میڈیسن جنرل میں حال ہی میں شائع ہونے والی ایک متنازع تحقیق میں حیاتیاتی عمر بڑھنے کے معاملے سبزی والی غذا کے ممکنہ فوائد پر روشنی ڈالی گئی ہے، جو بوڑھا ہونے کے عمل کو ممکنہ طور پر سست کر دیتی ہے۔
بہت سے مطالعات میں مختلف خوراکوں کے اثرات کو دیکھتے ہوئے کچھ ماہرین نے ان کے نتائج کے متعلق احتیاط کی تاکید کی ہے کیونکہ یہ تحقیق چھوٹے نمونوں پر مبنی تھی اور محدود مدت کی تھی۔ لیکن حالیہ مقالے نے اس بحث کو دوبارہ تازہ کر دیا ہے۔
بڑی عمر کے سبزی خوروں کے لیے تشویش
لندن کے کنگز کالج میں غذائیت کے ماہر پروفیسر ٹام سینڈرز جیسے کچھ لوگوں نے ان نتائج پر سوال اٹھائے ہیں اور متنبہ کیا ہے کہ ویگن غذا دراصل بوڑھوں کے لیے نقصاندہ ہو سکتی ہے اور یہ کہ ان کے لیے اس میں خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
انھوں نے Uses in Urdu کو بتایا کہ 'بوڑھے ویگنز کا پٹھوں کی کمزوری، ہڈیوں کی کم کثافت، اعصابی عوارض میں مبتلا ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے، جس کا معیار زندگی پر نمایاں اثر پڑتا ہے۔'
ان کے مطابق 'عمردراز سبزی خور کم وزن کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان میں ہڈیوں کے ٹوٹنے کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے کیونکہ کم کیلشیم اور پروٹین کی مقدار (قدرتی طور پر ڈیری اور گوشت کی مصنوعات میں پائی جاتی ہے) اس کی ممکنہ وجوہات میں شامل ہیں۔'
پروفیسر سینڈرز نے خبردار کیا کہ سبزی خورغذاؤں میں خاص طور پر آئرن اور زنک کا کم جذب ہونا ایک مسئلہ ہو سکتا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس کو اناج اور پھلیوں کے ساتھ ساتھ کافی پھل اور سبزیاں کھانے سے کم کیا جا سکتا ہے۔
پروفیسر سینڈرز کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو لوگ سبزی خورغذا کے صحت کے فوائد کا دوسری طرح کی غذا کے ساتھ موازنہ کرنا چاہتے ہیں ان کے پاس بہت زیادہ دلائل نہیں ہیں۔
'میں اس حقیقت پر قائم رہوں گا کہ ویگن اور سبزی خوروں (سبزی خوروں اور غیر سبزی خوروں) کی مجموعی صحت بہت مختلف نہیں ہے۔'
برطانیہ میں کنسلٹنٹ ڈاکٹر نیامبورا ایمبورو خاص طور پر سبزی خور غذا کے صحت کے فوائد کے بارے میں فکر مند ہیں۔
ڈاکٹر ایمبورو غذائیت کے ماہر ہیں۔ وہ اپنے آن لائن بلاگ میں ویگن ڈائٹ کو ’کم غذائیت‘ والا کہتے ہیں۔ اس کے بجائے وہ کھانے میں توازن کو اہمیت دیتے ہیں۔
انھوں نے لکھا کہ ’پودوں اور جانوروں پر مبنی خوراک میں مائیکرو نیوٹرینٹس کی مختلف مقدار ہوتی ہے اور اس لیے انھیں غذائیت کے مسابقتی ذرائع کے بجائے ایک دوسرے کی تکمیل کرنے والے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔‘
یہ بھی پڑھیں: بالائی علاقوں میں آج سے منگل تک گرج چمک کے ساتھ بارش کی پیشگوئی
وِیگن غذا کے فوائد
برطانیہ کے ڈاکٹر ایلن ڈیسمنڈ وِیگن غذا کے فوائد کے بارے میں وسیع پیمانے پر بولتے اور لکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں معمر افراد کو گوشت سے پاک خوراک کھانے کی ترغیب دی جانی چاہیے اور اس کے فوائد کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’پودوں پر مبنی صحت بخش خوراک کسی بھی عمر میں بہت فائدہ مند ہوتی ہے۔ اس سے دل کی بیماری، ٹائپ ٹو ذیابیطس اور کئی قسم کے کینسر کے خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے، جن کا بڑھاپے میں زیادہ خدشہ ہوتا ہے۔
’پودے پر مبنی غذا کو تبدیل کرنے کے بارے میں سوچنے میں کبھی بھی جلدی یا دیر نہیں ہوتی ہے۔‘
لیکن ڈاکٹر ڈیسمنڈ خبردار کرتے ہیں کہ گوشت اور دودھ سے پاک خوراک پر کاربند بوڑھے لوگوں کے لیے ’اہم غذائی اجزاء کا خیال رکھنے‘ کی ضرورت ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’جو بھی شخص صحت مند رہنے کا ارادہ رکھتا ہے اسے زیادہ پروٹین والی پودوں پر مبنی غذائیں جیسے پھلیاں، توفو اور ہول گرین (پورا اناج) کھانا چاہیے۔ اور وزن اٹھانے کی باقاعدہ مشقوں کی بھی ان کی ضرورت ہے۔‘
وٹامن بی 12 ایک اہم ضرورت ہے۔ یہ صرف جانوروں سے پیدا ہونے والی مصنوعات میں پایا جاتا ہے اور یہ انسانی غذا میں ایک اہم جزو ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اکثر وِیگن طرز زندگی والے اس سے محروم رہتے ہیں۔
وٹامن بی 12 کی کمی کی علامات میں تھکاوٹ، پٹھوں کی کمزوری، افسردگی اور الجھن شامل ہیں۔ یہ علامات بڑی عمر کے لوگوں میں زیادہ واضح اور زیادہ خطرناک ہونے کا امکان ہے۔ ایک تحقیق میں محققین نے وٹامن بی 12 کی کم سطح کو فالج کے بڑھتے ہوئے خطرے سے منسلک بتایا ہے۔
چولائن ایک اور اہم غذائیت ہے جو انڈے، دودھ اور بیف یعنی گائے اور بھینس کے گوشت میں زیادہ مقدار میں پایا جاتا ہے۔
بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ سبزی خوروں کو اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ چولائن کو نظر انداز نہ کریں کیونکہ یہ اعصابی خلیوں کے درمیان سگنل کی منتقلی میں مدد کرتا ہے اور اس کا تعلق گردوں کے اچھے کام سے ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چولائن حاملہ خواتین کے لیے اہم ہے کیونکہ یہ پیدا ہونے والے بچے کی دماغی نشوونما کے لیے ضروری ہے۔ خوش قسمتی سے یہ بروکولی، برسلز، سپراؤٹ، مونگ پھلی اور مشروم جیسے کھانوں میں بھی پایا جاتا ہے۔
’نادان وِیگن‘
ڈاکٹر ڈیسمنڈ نے ویگن غذا کے اخلاقی فوائد پر بھی روشنی ڈالی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اینیمل پروڈکٹ پر انحصار کو کم کرنے سے کاربن کے اخراج کو کم کیا جا سکتا ہے، قدرتی وسائل کو محفوظ کیا جا سکتا ہے اور زیادہ پائیدار اور بہتر دنیا میں اپنا حصہ ڈالا جا سکتا ہے۔‘
تاہم بوڑھے لوگوں کے لیے ویگن ہونا ہمیشہ اچھا آپشن نہیں ہو سکتا۔ امریکہ اور برطانیہ کے ماہرین خاص طور پر بڑھتی ہوئی عمر کی آبادی میں ’نادانستہ ویگنزم‘ کے پھیلاؤ کے بارے میں فکر مند ہیں۔
اور وہ اسے ’چائے اور ٹوسٹ‘ سنڈروم کہتے ہیں۔ بوڑھے مریض آئرن کی کمی اور دیگر صحت کے چیلنجوں کے ساتھ ہسپتالوں میں آتے رہتے ہیں کیونکہ ان کی خوراک محدود اور کم کیلوریز پر مبنی ہوتی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ گوشت اور دودھ کی مصنوعات کے استعمال میں کوئی اخلاقی رخنہ ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ساتھی کا انتقال ہو جائے اور بچے دور چلے جائیں تو اکیلے رہتے ہوئے کھانا پکانے میں حوصلہ افزائی کی کمی ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ غذائیت سے بھرپور گوشت اور مچھلی کی مصنوعات کی زیادہ قیمت یا گوشت، مچھلی اور دودھ کی مصنوعات خریدنے کے لیے بازاروں یا دکانوں تک جسمانی طور پر جانے میں بھی دشواری ہے۔
اس مجبوری کی وجہ سے غذائیت سے بھرپور خوراک ناپید ہوتی جا رہی ہے۔
یہ ایک قابل بحث چکر ہو سکتا ہے۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سنڈروم جزوی طور پر نہ صرف معاشی عوامل بلکہ تنہائی اور ڈپریشن کے آغاز کا نتیجہ ہے۔ جیسے جیسے لوگوں کی عمر بڑھتی ہے ان کی جسمانی صحت اور کمزوری پر ویگن ہونے کے سنگین اثرات نظر آتے ہیں۔