تاتاریوں سے امریکی فوج تک: بغداد کے عروج و زوال کی کہانی، دنیا کے سب سے امیر شہر کا ماضی
تقریباً 1260 سال قبل عباسی خلیفہ ابو جعفر المنصور نے نومبر کے مہینے میں بغداد شہر کی بنیاد رکھی، جسے تعمیر کرنے میں چار سال کا وقت لگا۔
انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا کے مطابق سنہ 637 میں عرب باشندوں کی آمد سے پہلے اس خطے میں آبادی کے آثار موجود تھے، اور کئی قدیم ریاستوں کے دارالحکومت قریبی مقامات پر واقع تھے۔
تاہم بغداد شہر کی بنیاد حقیقت میں اس جگہ پر موجود ایک گاؤں میں رکھی گئی جس کو خاص طور پر عباسی خلیفہ ابو جعفر المنصور نے اپنے دارالحکومت کے طور پر چنا۔ اسی مقام پر امن کا شہر تعمیر ہوا جس کے گرد دیواریں بنائی گئیں۔
شروع میں یہ آج کل کے کسی شہر کی طرح نہیں تھا بلکہ یہ سرکاری دفاتر کا مرکز تھا۔ یہاں چار مرکزی شاہراہیں تھیں جو خلیفہ کے محل کو مرکزی مسجد کے علاوہ سلطنت کے باقی حصوں سے جوڑتی تھیں۔
اس مرکزی شہر کے چھوٹے سائز کے باوجود دیواروں کے باہر تیزی سے دکانیں اور مکانات تعمیر ہونا شروع ہوگئے، اور اس طرح یہ شہر آہستہ آہستہ پھیلنے لگا۔ شمال مشرقی دروازے کے باہر خراسان سڑک تعمیر ہوئی جو کشتیوں سے بنے ایک پل کے ذریعے دجلہ کے مشرقی کنارے تک لے جاتی تھی۔
946 تک دریا کا مشرقی کنارہ اتنا آباد ہوگیا تھا کہ یہ مرکز کے مقابلے میں ایک نئے شہر کا موقع فراہم کرتا تھا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا کی رپورٹ کے مطابق آٹھویں اور نویں صدی میں بغداد معاشی اعتبار سے اپنے عروج پر تھا، خاص طور پر خلیفہ المہدی اور ان کے بعد آنے والے خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں۔
اس دور کے بغداد کی شان و شوکت کا ذکر ادب میں بھی ملتا ہے، اور اس وقت اسے دنیا کا سب سے امیر ترین شہر تصور کیا جاتا تھا جہاں چین، ہندوستان اور مشرقی افریقہ تک سے تجارتی مال پہنچتا تھا۔
ہندوستان سے لے کر مصر تک کے علما، فضلا، شاعر، فلسفی، سائنس دان اور مفکر یہاں پہنچنے لگے۔ اسی دوران مسلمانوں نے چینیوں سے کاغذ بنانے کا طریقہ سیکھ لیا اور شہر علمی سرگرمیوں سے بھر گیا۔ نویں صدی میں بغداد کا ہر شہری پڑھ لکھ سکتا تھا۔
تاریخ دان ٹرٹیئس چینڈلر کی تحقیق کے مطابق سنہ 775 سے 932 تک آبادی کے لحاظ سے بغداد دنیا کا سب سے بڑا شہر تھا، اور یہ 10 لاکھ کی آبادی تک پہنچنے والے دنیا کا پہلا شہر بھی تھا۔
تاہم ہارون الرشید کے دو بیٹوں، ال امین اور المامون، کے درمیان لڑائی کے دوران مرکزی شہر کے بڑے حصے کو نقصان پہنچا۔ اقتدار میں آنے کے بعد المامون نے قدیم یونانی زبان کے عربی ترجمے پر خاص توجہ دی اور شہر میں ہسپتال بنوائے، شعرا اور فنون لطیفہ سے وابستہ افراد کو بغداد میں جمع کیا۔
لیکن نویں صدی کے وسط میں خلافت عباسیہ داخلی اختلافات کی وجہ سے کمزور ہونے لگی، جس کا ایک بڑا سبب زرعی شعبے کی تنزلی بھی تھا، جو نہری نظام پر کم توجہ کی وجہ سے متاثر ہوا۔
سنہ 836 سے 892 کے درمیان خلیفہ بننے والوں نے بغداد کو چھوڑ کر شمال میں سمارا کا رخ کیا، اور بغداد ان ترکوں کے ہاتھ میں چلا گیا جو محافظ بنا کر لائے گئے تھے۔ تاہم بعد میں جب خلیفہ بغداد واپس لوٹے تو نیا دارالحکومت مشرقی کنارے پر ہی بسایا گیا۔
بیرونی عوامل اور سلجوق ترکوں کے حملوں نے بغداد کے بہت سے حصوں کو بعد میں کھنڈرات میں بدل ڈالا۔
زوال
سست رفتاری سے وقوع پذیر ہونے والا زوال تو شروعات تھی جس کے بعد تباہ کن بیرونی حملوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جس سے بغداد بیسویں صدی تک سنبھل نہیں سکا۔
خلافت عباسیہ منگولوں کے ہاتھوں تباہ ہوئی تو بغداد کا مقدر بھی کچھ مختلف نہ تھا۔
1258 میں چنگیز خان کے پوتے ہلاکو نے بغداد پر حملہ کیا اور نہ جانے کتنے لوگ مارے گئے۔ ہلاکو نے وہی کیا جو اس کے دادا چنگیز خان پچھلی نصف صدی سے کرتے چلے آئے تھے۔ اس نے خلیفہ کے علاوہ تمام اشرافیہ کو وہیں تلوار کے گھاٹ اتار دیا اور منگول دستے ام البلاد بغداد میں داخل ہو گئے۔
اس کے اگلے چند دن تک جو ہوا اس کا کچھ اندازہ مورخ عبداللہ وصاف شیرازی کے الفاظ سے لگایا جا سکتا ہے:
’وہ شہر میں بھوکے گدھوں کی طرح پھِر گئے، اس طرح جیسے غضبناک بھیڑیے بھیڑوں پر ہِلہ بول دیتے ہیں۔ بستر اور تکیے چاقوؤں سے پھاڑ دیے گئے۔ حرم کی عورتیں گلیوں میں گھسیٹی گئیں اور ان میں سے ہر ایک تاتاریوں کا کھلونا بن کر رہ گئی۔‘
اس بات کا درست تخمینہ لگانا مشکل ہے کہ کتنے لوگ اس قتلِ عام کا شکار ہوئے۔ مورخین کا اندازہ ہے کہ دو لاکھ سے لے کر 10 لاکھ لوگ تلوار، تیر یا بھالے کے گھاٹ اتار دیے گئے۔
تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ بغداد کی گلیاں لاشوں سے اٹی پڑی تھیں۔ چند دن کے اندر اندر ان سے اٹھنے والے تعفن کی وجہ سے ہلاکو خان کو شہر سے باہر خیمہ لگانے پر مجبور ہونا پڑا۔ منگولوں نے کئی ڈیم بھی تباہ کر دیے جس کی وجہ سے نہری نظام کو بحال کرنا تقریبا ناممکن ہو گیا اور بغداد کی مستقبل قریب میں معاشی بحالی کے امکانات بھی ختم ہو گئے۔
جہاں تک آخری اور 37 ویں عباسی خلیفہ مستعصم باللہ کی بات ہے تو خلیفہ کی ہلاکت کے بارے میں کئی کہانیاں مشہور ہیں تاہم زیادہ قرینِ قیاس ہلاکو کے وزیر نصیر الدین طوسی کا بیان ہے جو اس موقعے پر موجود تھے۔
وہ لکھتے ہیں کہ خلیفہ کو چند دن بھوکا رکھنے کے بعد ان کے سامنے ایک ڈھکا ہوا خوان لایا گیا۔ بھوکے خلیفہ نے بے تابی سے ڈھکن اٹھایا تو دیکھا کہ برتن ہیرے جواہرات سے بھرا ہوا ہے۔ ہلاکو نے کہا، ’کھاؤ۔‘
مستعصم باللہ نے کہا: ’ہیرے کیسے کھاؤں؟‘ ہلاکو نے جواب دیا: ’اگر تم ان ہیروں سے اپنے سپاہیوں کے لیے تلواریں اور تیر بنا لیتے تو میں دریا عبور نہ کر پاتا۔‘
عباسی خلیفہ نے جواب دیا: ’خدا کی یہی مرضی تھی۔‘
ہلاکو نے کہا: ’اچھا، تو اب میں جو تمھارے ساتھ کرنے جا رہا ہوں وہ بھی خدا کی مرضی ہے۔‘ اس نے خلیفہ کو نمدوں میں لپیٹ کر اس کے اوپر گھوڑے دوڑا دیے تاکہ زمین پر خون نہ بہے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ منگولوں کی جانب سے دی جانے والی ایک عزت دارانہ موت تھی کیوں کہ ان کا ماننا تھا کہ بلند رتبے کے لوگوں کو ان کا خون بہائے بغیر قتل کرنا چاہیے۔
عباسی خلیفہ تو ہلاک ہوئے لیکن خلافت قائم دائم رہی۔ اس وقت کی بڑی طاقت، مملوکوں، نے عباسی خاندان کے اراکین کو خلیفہ کا رتبہ دیا لیکن مصر کی مملوک سلطنت میں یہ نام کے ہی خلیفہ تھے اور طاقت کہیں اور تھی۔ تاہم ان افراد کی وجہ سے خلافت کا تصور ضرور زندہ رہا۔
لیکن بغداد سے مسلمانوں کی اس طاقت کے مرکز کا خاتمہ ہوا اور بعد میں 16ویں صدی کے دوران سلطنت عثمانیہ نے خلافت حاصل کر لی۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان اسمبلی کے اقلیتی رکن ایس ایم پیٹرک انتقال کرگئے
سلطنت عثمانیہ کا حصہ
منگول حملے کے بعد بغداد ایک علاقائی دارالحکومت ضرور رہا لیکن سنہ 1400 ایک میں ایک بار پھر تباہی اس کا مقدر بنی جب تیمور نے حملہ کیا۔
1508 میں بغداد صفوی شاہ اسماعیل اول کے زیر اثر چلا گیا لیکن 1534 میں سلطان سلیمان اول نے قبضہ کیا تو یہ سلطنت عثمانیہ کا حصہ بن گیا۔
متعدد ایرانی حملوں کے باوجود بغداد پہلی عالمی جنگ تک سلطنت عثمانیہ میں ہی رہا۔ اس دوران صرف ایک بار ایرانی اس پر مختصر وقت کے لیے قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔
19ویں صدی میں بغداد میں بھی یورپی رنگ نظر آنے لگا جب تجارت میں اضافہ ہوا۔ سنہ 1800 کے قریب برطانیہ نے اپنا سفارتی مشن بغداد میں قائم کر لیا تو تیزی سے انھوں نے طاقت اور اثرورسوخ حاصل کیا حتی کہ برطانویوں کا درجہ گورنر کے بعد ہونے لگا۔
اسی دوران بغداد کی ترقی کا نیا دور شروع ہوا جب سٹیم انجن کی مدد سے دریا پر سفر کا آغاز ہوا اور دوسری جانب عثمانی خلفا نے شہر میں ترقیاتی کام کروائے۔
گرینڈ وزیر احمد شفیق مدحت پاشا نے اپنے دور میں شہر کی دیواریں گرا کر انتظامیہ کو مضبوط کیا، جدید پرنٹنگ پریس لگوایا اور ہسپتال، سکول، فوجی فیکٹریاں بنوائیں۔
یہ بھی پڑھیں: نواز شریف آئی ٹی سٹی میں عالمی اداروں اور بین الاقوامی یونی یونیورسٹیوں کے کیمپس قائم کیے جائیں گے: وزیر اعلیٰ پنجاب
ایک ہاشمی بادشاہ اور برطانیہ سے آزاد عراق
1920 میں بغداد ایک بار پھر عراق کا دارالحکومت بن گیا، لیکن یہ ہوا کیسے؟ انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا کے مطابق برطانیہ نے پہلی عالمی جنگ کے دوران بصرہ، بغداد اور موصل پر قبضہ کر لیا تھا، جو سلطنت عثمانیہ سے چھینے گئے تھے۔
تاہم مئی 1920 میں برطانوی تسلط کے خلاف مقامی بغاوت ہوئی، تو ایک لاکھ برطانوی اور انڈین فوجی تعینات کر دیے گئے۔ پورے ملک میں پھیل جانے والی بغاوت پر مشکل سے قابو پایا گیا، جس کے دوران ہزاروں عراقی مارے گئے اور برطانیہ کے سینکڑوں فوجی بھی۔
ایسے میں برطانیہ کو عراق میں نئے نظام کی ضرورت محسوس ہوئی، اور ایک وقت میں حالات اس نہج پر پہنچے کہ مقامی برطانوی کمانڈر نے زہریلی گیس کی فراہمی کی درخواست کی۔ فضائیہ کا بے دریغ استعمال ہوا، اور 1921 میں برطانیہ نے فیصل بن حسین کو عراق کا نمائندہ بنانے کا فیصلہ کیا۔
فیصل عراق پہنچے تو ان کا والہانہ استقبال ہوا، اور اگست میں انھیں عراق اور شام کا حکمران تسلیم کر لیا گیا۔ حقیقت میں فیصل کو بطور عرب رہنما پذیرائی ملی، اگرچہ کہ ان کا عراق سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ دوسری جانب برطانیہ سے ان کے تعلق کے باوجود انھیں عرب قوم پرست اپنا رہنما تسلیم کر رہے تھے۔
یوں بصرہ، بغداد اور موصل کی تین ریاستیں ایک ہاشمی بادشاہ یعنی شاہ فیصل کے تحت متحد ہو گئیں، جو حجاز سے آئے تھے۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا کے مطابق فیصل نے برطانیہ سے معاہدے کیے، جن کے تحت 1932 تک عراق کو آزادی اور لیگ آف نیشنز کی رکنیت مل گئی۔
تاہم بہت سے عراقیوں کا ماننا تھا کہ ملک کے حقیقی حکمران برطانوی ہی تھے۔ فیصل 1933 میں اپنی موت تک عراق کے حکمران رہے۔
1958 تک بادشاہت چلتی رہی جب شاہ فیصل دوم کو ایک بغاوت میں مار دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل: مقدمے کی جلد سماعت کیلئے درخواست سپریم کورٹ میں دائر
بادشاہت کا خاتمہ، فوجی بغاوتیں اور تباہی کا نیا دور
سنہ 1958 تک عراق برطانوی تسلط سے مکمل طور پر آزاد نہیں ہوا تھا، تاہم پھر ہاشمی خاندان کو ایک فوجی بغاوت کے نتیجے میں تخت سے ہٹا دیا گیا۔
یوں ایک سیاسی عدم استحکام کا دور شروع ہوا، جس کے دوران متعدد فوجی حکومتیں آئیں۔ سنہ 1968 میں عرب سوشلسٹ جماعت حزب البعث اقتدار میں آئی، جو اپنے ساتھ استحکام لے کر آئی۔
سنہ 1973 میں تیل کی قیمت میں اضافے کے بعد حکومت کی آمدن اور لوگوں کے معیار زندگی میں بہتری آئی، اور بغداد نے ترقی اور وسعت پائی۔ تاہم 1980 کی دہائی میں ایران سے ہونے والی جنگ کے دوران ایک بار پھر زوال کا سامنا کرنا پڑا۔
صدام حسین کے دور میں کویت پر حملے کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے بغداد کو بھاری بمباری کا نشانہ بنایا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے پابندیوں کی وجہ سے شہر میں ترقی مشکل ہو گئی۔ اگرچہ بہت سے عمارات اور پل 1990 کے اواخر میں دوبارہ بنائے گئے، تاہم بڑے پیمانے پر بغداد پرانی شکل میں واپس نہ آ سکا۔
عراق کی تیل کی برآمدات پر پابندی لگی اور درآمدات محدود ہو گئیں تو بجلی، پانی اور سیوریج کی سہولیات کی تعمیر نو کے لیے درکار ضروری سامان بھی ناپید ہو گیا۔ تعلیمی اور طبی ادارے بھی مخدوش حالت میں پہنچے اور بیماری، غذائی قلت اور ناخواندگی میں اضافہ ہوا۔
ایک اور امریکی حملہ
امریکی اور عراقی حکومت کے درمیان تناؤ کے بیچ 2003 کی جنگ شروع ہو گئی۔ اسی سال اپریل میں امریکی فوج بغداد میں داخل ہو چکی تھی۔
نئی امریکی انتظامیہ کا بنیادی مقصد شہر میں امن قائم کرنا اور بنیادی سہولیات کو بحال کرنا تھا لیکن پھر فرقہ ورانہ خانہ جنگی کے ساتھ ساتھ امریکی فوج سے جھڑپوں کی وجہ سے شہر مزید تباہ ہو گیا اور ایک بار پھر ہزاروں ہلاکتیں ہوئیں۔
دسمبر 2011 میں انخلا کا یہ عمل سرکاری طور پر مکمل کر لیا گیا لیکن بغداد میں، عراق کے باقی شہروں کی طرح، پرتشدد کارروائیاں ختم نہیں ہو سکیں۔ سرحد کے پار شام میں ہونے والی خانہ جنگی بڑھی تو تربیت یافتہ جنگجو اور اسلحہ کی تعداد اور سرحد پار آمد بھی بڑھ گئی۔
القاعدہ اور اس کے بعد نام نہاد دولت اسلامیہ نے بغداد میں بہت سے حملے کیے۔ حالات اتنے خراب ہوئے کہ 2019 میں بغداد کی گلیوں میں مظاہرین نے معاشی تنزلی، مبینہ حکومتی کرپشن کے خلاف مظاہرہ کیا۔ اسی سال دسمبر میں مقامی غصہ بڑھا جب امریکہ نے عراق میں ایرانی حمایت یافتہ نیم عسکری تنظیم پر فضائی حملہ کیا۔ دو دن بعد مظاہرین نے بغداد میں امریکی سفارت خانے پر ہلہ بول دیا۔
امریکی کارروائیاں اس کے بعد بھی ہوتی رہیں۔ ان میں جنوری 2020 میں قاسم سلیمانی کو نشانہ بنانے والا امریکی حملہ بھی شامل ہے۔