90 سال قبل قتل ہونے والی خواتین کے لواحقین کی تلاش: سائنسی بنیادوں پر کی جانے والی تفتیش جس نے قاتل شوہر کو پکڑنے میں مدد کی

برطانیہ کی ایک یونیورسٹی کے سٹور روم سے 90 سال قبل قتل ہونے والی دو خواتین کی کھوپڑیوں کی دریافت کے بعد مقتولہ خواتین کے لواحقین کی تلاش کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔

90 سال قبل قتل ہونے والی خواتین کے لواحقین کی تلاش: سائنسی بنیادوں پر کی جانے والی تفتیش جس نے قاتل شوہر کو پکڑنے میں مدد کی

ازابیلا رکسٹن اور میری راجرسن نامی خواتین کو سنہ 1935 میں قتل کیا گیا تھا اور اُن کے جسم کے مختلف حصے برطانیہ کے موفاٹ، ڈمفریز اور گیلووے نامی علاقوں سے ملے تھے۔ اُس زمانے میں اِس واقعے کو کافی شہرت ملی تھی اور اس ضمن میں شہ سرخیاں اخبارات میں شائع ہوئی تھیں۔

گذشتہ صدی کی چوتھی دہائی میں سامنے آنے والے اس کیس نے برطانیہ میں فرانزک سائنس کے شعبے کو اُس وقت ایک نئی بنیاد فراہم کی تھی جب ایڈنبرگ یونیورسٹی نے خواتین کے جسموں کے ٹکڑوں پر کی گئی تفتیش کی مدد سے ڈاکٹر بک رکسٹن کے خلاف ناقابل تردید شواہد حاصل کیے جن کی بنیاد پر انھیں پھانسی دی گئی تھی۔

ڈاکٹر بک رکسٹن دراصل قتل ہونے والی ایک خاتون ازابیلا رکسٹن کے شوہر تھے جنھیں شبہ تھا کہ اُن کی اہلیہ کے دیگر مردوں کے ساتھ تعلقات تھے۔

90 سال قبل پیش آنے والے اس واقعے میں اب پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ ایڈنبرگ یونیورسٹی نے اپنے آرکائیوز سے ان قتل ہونے والی دونوں خواتین کی کھوپڑیاں اور باقی ہڈیاں دریافت کی ہیں جس کے بعد اب وہ ان خواتین کے رشتہ داروں کو ڈھونڈنے کی کوشش میں ہیں تاکہ ان سے پوچھا جا سکے کہ آیا وہ ان خواتین کی باقیات کو حاصل کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔

یونیورسٹی سے منسلک اناٹومی کے پروفیسر ٹام گلنگ واٹر نے کہا ہے کہ ’اگر مناسب ہوا تو ہم (باقیات) اُن کے اہل خانہ کو واپس کر دیں گے تاکہ انھیں سپرد خاک کیا جا سکے۔‘

یونیورسٹی نے قتل ہونے والی خواتین کے اہلخانہ سے نجی طور پر رابطہ کرنے کے بجائے Uses in Urdu کے ذریعے عوامی سطح پر اپیل جاری کی ہے، کیونکہ حکام کو یہ معلوم نہیں ہے کہ ازابیلا کے تین یتیم بچوں کو کبھی بتایا گیا تھا کہ اُن کے والد (ڈاکٹر بک رکسٹن) کو اُن کی ماں کے قتل کے الزام میں پھانسی دی گئی تھی۔

ستمبر 1935 میں پیش آنے والے اس واقعے کو ’جکسا مرڈرز ‘کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کی تفصیلات اس وقت سامنے آنا شروع ہوئیں جب موفات نامی علاقے کے قریب واقع ایک پُل کے نیچے سے مسخ شدہ انسانی لاشیں دریافت ہوئی تھیں، یہ خبر پھیلتے ہی اس علاقے میں اخباری رپورٹرز کا ہجوم لگ گیا تھا۔

جسم کی باقیات کو ایڈنبرگ یونیورسٹی بھیجا گیا جہاں فرانزک سائنس دانوں اور گلاسگو یونیورسٹی سے منسلک اہلکاروں نے قتل ہونے والی خواتین کے جسموں کے اعضا کو اکٹھا کیا۔ اور جب وہ یہ کام سرانجام دے رہے تھے، عین اُسی وقت لنکاسٹر میں ایک اور تفتیش جاری تھی۔

ڈاکٹر بک رکسٹن کی اہلیہ ازابیلا اور اُن کی نرس میری راجرسن گم ہو چکے تھے اور ڈاکٹر حکام کو اُن کی گمشدگی کی مختلف وضاحتیں دے رہے تھے۔

90 سال قبل قتل ہونے والی خواتین کے لواحقین کی تلاش: سائنسی بنیادوں پر کی جانے والی تفتیش جس نے قاتل شوہر کو پکڑنے میں مدد کی

ڈاکٹر کو شک تھا کہ ان کی اہلیہ ازابیلا کی دوسرے مردوں کے ساتھ دوستی ہے۔

ازابیلا نے غائب ہونے سے قبل اپنے شوہر یعنی ڈاکٹر بک پر گھریلو تشدد کے الزامات عائد کیے تھے تاہم مقامی پولیس نے ان پر کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔

ڈاکٹر رکسٹن کے بجائے میری اور ازابیلا کی گمشدگی کی اطلاع مریم کے خاندان نے دی تھی۔ بعدازاں تفتیش کے دوران سکاٹ لینڈ میں تفتیش کاروں نے دونوں خواتین اور مضافات کے قریب سے ملنے والی انسانی باقیات کے درمیان تعلق قائم کیا۔

90 سال قبل قتل ہونے والی خواتین کے لواحقین کی تلاش: سائنسی بنیادوں پر کی جانے والی تفتیش جس نے قاتل شوہر کو پکڑنے میں مدد کی

تاہم اب بھی لاشوں کی شناخت کرنا باقی تھا جبکہ دوسری جانب ان دونوں خواتین کے قاتل ایک پیشہ ور ڈاکٹر تھے جو سرجری میں مہارت حاصل کیے ہوئے تھے، چنانچہ انھوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ ان کی اہلیہ اور دوسری خاتون کی شناخت ممکن نہ ہو۔

اس واقعے کی تفتیش کے دوران، تفتیش کاروں نے فرانزک تکنیکوں کا استعمال کیا اور ڈاکٹر رکسٹن کی پولیس سے بچنے اور حکام کو چکمہ دینے کی کوششوں کو ناکام بنادیا، اور آخرکار یہ ثابت ہو گیا کہ انسانی باقیات دراصل ازابیلا اور میری کی ہیں۔

اس دور کے اخباروں میں اس عدالتی کیس کو 'صدی کے سب سے بڑے ٹرائل' کا نام دیا گیا۔

لاشوں کے ملنے کے پانچ ماہ بعد ڈاکٹر رکسٹن کو مانچسٹر کی عدالت میں پیش کیا گیا۔

عدالت میں موجود جیوری کو ازابیلا کی کھوپڑی کی ایکس رے تصاویر دکھائی گئیں، اس نوعیت کے شواہد پہلی بار عدالت کے سامنے بطور ثبوت پیش کیے جا رہے تھے۔

مقدمے کی سماعت کے دوران استغاثہ نے یہ بھی بتایا کہ میری کی شناخت کے لیے فنگر پرنٹس کا تجزیہ کرنے کی ایک نئی تکنیک استعمال کی گئی ہے۔ اس کیس پر کام کرنے والے سائنسدانوں نے لاشوں پر پائے جانے والے کیڑوں کا بھی مطالعہ کیا تاکہ موت کی اصل تاریخ معلوم کی جا سکے۔

بالآخر ڈاکٹر رکسٹن کو دونوں خواتین کے قتل کا قصوروار قرار دیا گیا اور دو ماہ بعد انھیں پھانسی دے دی گئی۔ جب جیل میں انھیں پھانسی دی جا رہی تھی تو جیل کے باہر عوام کا جم غفیر اکھٹا تھا۔

سابق اسسٹنٹ چیف کانسٹیبل ٹام ووڈ نے اس کیس پر ایک کتاب ’دی فرسٹ ماڈرن مرڈر‘ لکھی ہے۔

انھوں نے لکھا کہ ’یہ 20 ویں صدی میں ہونے والی اہم مجرمانہ تحقیقات میں سے ایک تھی۔ اور یہ اس وجہ سے نہیں تھا کہ لاشیں ٹکڑوں میں بٹی ہوئی تھیں بلکہ اس کیس کو حل کرنے میں فرانزک سائنس استعمال ہوئی تھی۔‘

’سادہ الفاظ میں کہا جائے تو اس کیس سے قبل تفتیش کی تاریخ قدیم تھی، مگر رکسٹن کیس کے بعد جو کچھ بھی ہے وہ جدید، مربوط، فرانزک سائنس کی زیر قیادت تحقیقات ہیں۔‘

اس کے بعد کی دہائیوں میں، ان خواتین کی ہڈیوں کو ایڈنبرگ یونیورسٹی میں محفوظ کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ شاید ان ہڈیوں اور باقیات کو مزید طبی تحقیق کے لیے یہاں رکھا گیا تھا۔

پروفیسر گلنگ واٹر اور ٹام ووڈ دونوں کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کو اس وقت کے اخلاقی معیارات کی نظر سے دیکھا جانا چاہیے۔ پروفیسر گلنگ واٹر نے کہا کہ 'اگر آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا میں اپنے 21ویں صدی کے نظریے کے ساتھ ایسا ہی کرتا تو بالکل نہیں۔ لیکن اس وقت ان سائنسدانوں نے اس تحقیق میں جو کیا وہ قابل ذکر اور انقلابی تھا۔'

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...