نئے انتخابات میں نواز شریف پھر وزیراعظم بن گئے، انہوں نے بڑے سیاسی قرینے سے بے نظیر بھٹو کو ہم خیال بنایا اور آئین سے 58ٹو بی کا خاتمہ کر دیا.
تحریک اور انتخابات کا پس منظر
مصنف: جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد
قسط: 91
1993ء میں ہونے والے نئے انتخابات کے تحت پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو اکثریت حاصل کر کے وزیراعظم بن گئیں۔ انہوں نے وزیراعظم منتخب ہوتے ہی سپریم کورٹ کا چیف جسٹس اپنی پسند کے مطابق بنانے کا فیصلہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: بشریٰ بی بی کے سیاست سے تعلق پر وزیر اطلاعات پنجاب عظمٰی بخاری کا “تبصرہ”
بے نظیر بھٹو کی حکمت عملی
اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لئے انہوں نے دیگر اہم اقدامات بھی کئے جن میں عہدۂ صدارت پر اپنے ایک پرانے ساتھی سردار فاروق خان لغاری کو متمکن کر دیا مگر اس دوران صدر فاروق لغاری، بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف زرداری کے درمیان بہت سے تنازعات اُٹھ کھڑے ہوئے۔ بے نظیر وزیراعظم تھیں مگر ان کا سگا بھائی کراچی میں اپنے گھر کے باہر پولیس کے ہاتھوں قتل ہو گیا۔ حالات بہت خراب ہو گئے۔
یہ بھی پڑھیں: تحریک انصاف کی بغاوت کو ایک بار پھر ناکام بنا دیا: عظمیٰ بخاری
صدارتی اختیارات کا استعمال
اسی ہنگامہ میں سردار فاروق خان لغاری نے صدارتی اختیارات استعمال کرتے ہوئے 5 نومبر 1995ء کو بے نظیر حکومت اور اسمبلیاں برطرف کر دیں اور نئے انتخابات کے لئے فروری 1997ء کی تاریخ مقرر کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: دنیا کے سب سے آلودہ شہروں کی فہرست شائع ہوئی، لاہور کا دوسرا مقام
نواز شریف کی واپسی
نئے انتخابات کے نتیجے میں نواز شریف ایک بار پھر وزیراعظم بن گئے اور انہوں نے بڑے سیاسی قرینے سے بے نظیر بھٹو کو ہم خیال بنایا اور آئین میں سے دفعہ 58-2B کا خاتمہ کر دیا۔ جس سے صدر کے اختیارات میں واضح طور پر کمی واقع ہو گئی۔
یہ بھی پڑھیں: دریائے سوات کنارے سے نوجوان کی ذبح شدہ لاش برآمد
آئینی تصادم کی کیفیت
1997ء اور 1999ء کے عرصہ میں پاکستانی عدالتوں کو ایک اور آئینی تصادم کا سامنا کرنا پڑا۔ ہوا یہ کہ کسی ایشو پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس سجاد علی شاہ اور وزیراعظم کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے۔ جسٹس سجاد علی شاہ کو بے نظیر نے سنیارٹی کے اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چیف جسٹس سپریم کورٹ بنایا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس یحییٰ آفریدی کا بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ میں پہلا دن، سوا گھنٹے میں 30 مقدمات کی سماعت کی
عدلیہ اور حکومت میں تنازعات
بے نظیر نے اس بات کی تحسین کی تھی کہ جب سابق چیف جسٹس مسٹر جسٹس نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف کی حکومت کو بحال کیا تھا اس وقت جسٹس سجاد علی شاہ نے اپنا اختلافی نوٹ لکھا تھا۔ ان کے درمیان اس تنازع کے باعث ججوں کے درمیان سنیارٹی کے مسئلے پر شدید اختلافات پیدا ہو گئے۔ سجاد علی شاہ اپنے عہدہ سے مستعفی ہونے پر مجبور کر دیئے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: محسن نقوی کی بطور چیئرمین پی سی بی تعیناتی کے خلاف دائر درخواست سماعت کیلئے مقرر
نواز شریف کی حکومت کی حالت
اس سے قبل میاں نواز شریف صدر فاروق لغاری کو عہدۂ صدارت سے الگ کر چکے تھے۔ بعد میں انہیں مسٹر جسٹس سجاد علی شاہ کو ریٹائر کرنے میں بھی کامیابی ہو گئی۔ انہوں نے چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل جہانگیر کرامت کو بھی ناپسندیدگی کی وجہ سے ریٹائر ہونے پر مجبور کر دیا مگر یہ کامیابیاں زیادہ عرصہ چل نہیں سکیں۔
یہ بھی پڑھیں: کھاد، بیج اور بجلی کی قیمتوں میں ابھی تک کمی نہیں آئی، لیگی رہنما سائرہ افضل تارڑ کھل کر بول پڑیں
جنرل پرویز مشرف کی تقرری
انہوں نے نئے عہدوں پر سنیارٹی کے اصول کی حمایت کی تھی مگر وہ خود اس پر کاربند نہیں رہ سکے۔ انہوں نے اپنے اس اصول کو پس پشت ڈال کر جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف بنایا تھا مگر اس کے بعد وہ جنرل پرویز مشرف سے بھی مطمئن نہ ہو سکے، جنہیں دو تین سینئر جرنیلوں کو نظرانداز کر کے منتخب کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: بولڈ ویڈیو پر سوشل میڈیا صارفین کی تنقید، اداکارہ علیزے شاہ نے درعمل دے دیا
حکومت کا خاتمہ
وہ اُنہیں ہٹانے کی کارروائی کر رہے تھے کہ فوج کے حکام نے اُن کے خلاف کارروائی کر دی اور نواز شریف کی حکومت دوسری بار ختم کر دی گئی۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔