اسرائیلی وزیراعظم اور سابق وزیر دفاع کے خلاف وارنٹ گرفتاری کا کیا مطلب ہے؟
عالمی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کی جانب سے اسرائیل کے موجودہ وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو اور سابق اسرائیلی وزیر دفاع یواو گیلنٹ کے وارنٹ گرفتاری کے اجرا کے اعلان کے بعد اسرائیل کے سیاستدانوں کی جانب سے شدید ردِعمل سامنے آ رہا ہے۔
اگرچہ نتن یاہو اور یواو گیلنٹ کے ساتھ ساتھ حماس کے فوجی کمانڈر محمد دیف کی گرفتاری کے وارنٹ بھی جاری کیے گئے ہیں تاہم عالمی فوجداری عدالت کے اس فیصلے کو حماس، فلسطینی اسلامی جہاد اور غزہ کے عام شہریوں کی جانب سے سراہا گیا ہے۔
اسرائیلی صدر آئزیک ہرزوگ نے آئی سی سی کے اس فیصلے پر غصے کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’انصاف اور انسانیت کے لیے ایک سیاہ دن‘ قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ اِس فیصلے نے ’جمہوریت اور آزادی پر دہشت گردی اور برائی کو ترجیح دی ہے۔‘
اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر کی جانب سے جاری کردہ بیان میں اسے ’ایک یہود مخالف فیصلہ‘ قرار دیا گیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل ’ان نہایت جھوٹے اور عجیب الزامات کو مسترد کرتا ہے۔‘ بیان میں عالمی فوجداری عدالت کو ’ایک متعصب اور امتیاز برتنے والا سیاسی ادارہ‘ کہا گیا ہے۔
نیسٹ کی خارجہ امور اور دفاعی کمیٹی کے چیئرمین یولی ایڈلسٹین نے اسے ’اسلام پسند مفادات کے اسیر سیاسی ادارے کا شرمناک فیصلہ‘ قرار دیا جبکہ اسرائیل کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ آئی سی سی اپنی ساکھ کھو چکی ہے۔
تاہم حماس نے اپنے فوجی کمانڈر محمد دیف کے وارنٹ کے اجرا پر تبصرہ کیے بغیر اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔
ایک بیان میں حماس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ’ہم دنیا کے تمام ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ صہیونی جنگی مجرموں، نتن یاہو اور گیلنٹ کو عدالت میں لانے کے آئی سی سی کے ساتھ تعاون کریں اور غزہ کی پٹی میں شہریوں کے خلاف نسل کشی کے جرائم کو فوری طور پر روکنے کے لیے کام کریں۔‘
غزہ سے تعلق رکھنے والے عام فلسطینی شہریوں نے بھی اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔
غزہ شہر سے بے گھر ہونے والے اور اس وقت دیر البلاح کے مرکزی علاقے میں رہنے والے 40 سالہ محمد علی نے کہا کہ ’ہمیں دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ہمیں بھوکا رکھا گیا ہے۔ ہمارے گھر تباہ کر دیے گئے ہیں۔ ہم نے اپنی اولادیں، اپنے بیٹے اور اپنے پیارے کھو دیے ہیں۔ ہم اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں اور ظاہر ہے، ہم امید کرتے ہیں کہ آئی سی سی کے فیصلے پر عمل کیا جائے گا۔‘
منیرہ الشامی، جن کی بہن گذشتہ ماہ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں ماری گئی تھیں، نے کہا کہ آئی سی سی کا یہ فیصلہ ان کی ’بہن وفا سمیت دسیوں ہزار متاثرین کے لیے انصاف‘ کی طرف اشارہ ہے۔
تاہم دوسری جانب کچھ اسرائیلی شہریوں نے کہا کہ گرفتاریوں کے وارنٹ اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کے خلاف ہیں۔
ایک شہری رون ایکرمین نے کہا کہ وہ آئی سی سی کے فیصلے پر حیران نہیں ہیں کیونکہ ان کے نزدیک آئی سی سی ’یہود مخالف ہے اور انھیں نظر نہیں آتا کہ اسرائیل کے آس پاس کیا ہو رہا ہے۔ یہ صرف اسرائیل کو ہی دیکھتے ہیں۔‘
یروشلم سے ہیلن کیریو کہتی ہیں کہ ’جب میں نے پہلی بار یہ (فیصلہ) سنا تو میں نے کہا ’میرے خدا، انھیں اسرائیل کی ریاست کے وزیر اعظم اور اس کے چیف آف سٹاف کو گرفتار کرنے کا خیال کہاں سے آ گیا؟‘... ہم اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔‘
ان گرفتاری وارنٹس کا کیا اثر ہو گا؟
برطانیہ سمیت کل 124 ممالک آئی سی سی کے دستخط کنندگان ہیں تاہم ان میں امریکہ، روس، چین اور اسرائیل شامل نہیں ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ تکنیکی اعتبار سے اگر نتن یاہو یا گیلنٹ آئی سی سی کے دستخط کنندگان ممالک میں سے کسی بھی ملک میں قدم رکھتے ہیں تو انھیں وہاں سے گرفتار کر کے عدالت کے حوالے کیا جانا چاہیے۔
تاہم بین الاقوامی سطح پر وکلا نے شک کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ گرفتاری وارنٹ میں نامزد دونوں شخصیات میں سے کسی کو بھی مقدمے کے لیے دی ہیگ میں پیش کیا جائے گا۔
آخری بار جب نتن یاہو ملک سے باہر گئے تھے تو انھوں نے امریکہ کا دورہ کیا تھا جہاں انھیں مکمل استثنیٰ حاصل ہے۔
تاہم گذشتہ سال انھوں نے برطانیہ سمیت کئی ممالک کا دورہ کیا تھا جن میں سے کئی آئی سی سی کے دستخط کنندگان میں شامل ہیں۔
لیکن کہا جا رہا ہے کہ اس کے امکانات کافی کم ہیں کہ نتن یاہو دوبارہ ان ممالک جا کر اس قسم کا خطرہ مول لیں گے۔ اس کے علاوہ دستخط کنندگان ممالک بھی یہ نہیں چاہیں گے کہ اس طرح کی صورتحال پیدا ہو جہاں انھیں نتن یاہو کو گرفتار کرنا پڑے۔
دوسری جانب حماس کو اپنے کمانڈر ابراہیم المصری عرف محمد دیف کے گرفتار ہونے کا کوئی خاص خدشہ نہیں ہے۔ اسرائیل کا ماننا ہے کہ وہ پچھلے سال مارے گئے تھے حالانکہ حماس نے آج تک ان کی موت کی تصدیق نہیں کی ہے۔
ان کو گرفتار کرنے کے علاوہ آئی سی سی کا ارادہ تھا کہ حماس کے دو رہنما یحییٰ سنوار اور اسماعیل ہنیہ کے خلاف کارروائی کریں تاہم ان کی موت کی تصدیق پہلے ہی ہو چکی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جمعرات کا یہ فیصلہ اسرائیل کی بین الاقوامی حیثیت کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ ان دو شخصیات اور خاص طور پر اسرائیل کی جانب سے غزہ میں اپنی فوجی مہم کو اچھائی اور برائی کے درمیان لڑائی کے طور پر پیش کرنے کی جاری کوششوں کے لیے بھی۔
اسرائیلی شہریوں کو سخت صدمہ ہے کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ دنیا ان کے ساتھ گذشتہ سال 7 اکتوبر کو حماس کے مظالم کو بھول چکی ہے یا نظر انداز کر چکی ہے۔
لیکن فلسطینیوں کو، خاص طور پر ان شہریوں کو جن کا غزہ سے تعلق ہے، یہ احساس ہو رہا ہے کہ وہ صحیح ثابت ہو رہے ہیں کیونکہ اب ایک بین الاقوامی ادارے نے بھی اسرائیل کے جنگی جرائم کے الزامات میں کچھ وزن دیکھا ہے۔