حملے کے تین گھنٹے بعد بھی دھماکے: روس کا پراسرار ‘اوریشنِک’ میزائل جو معما بن گیا ہے
رواں ہفتے جمعرات کو یوکرین کے شہر دنیپرو میں ہونے والا ایک روسی فضائی حملہ گذشتہ حملوں سے شدت کے اعتبار سے تھوڑا مختلف تھا اور عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ فضائی حملے کے بعد تقریباً تین گھنٹے تک دھماکے سنے جاتے رہے ہیں۔
اس فضائی حملے میں استعمال ہونے والا میزائل اتنا طاقتور تھا کہ اس کے بعد یوکرینی حکام نے کہا کہ اس میزائل میں بین البراعظمی میزائل والی ساری خصوصیات موجود تھیں۔
تاہم مغربی حکام نے یوکرینی حکام کے دعوے کی فوراً ہی تردید کر دی اور کہا کہ بین البراعظمی میزائل حملے کے نتیجے میں امریکہ میں فوراً نیوکلئیر آلرٹ جاری ہو جاتا۔
اس حملے کے کچھ گھنٹوں بعد روسی صدر ولادیمیر پوتن نے اپنے ایک خطاب میں کہا کہ روس نے یوکرین پر حملے میں ایک نئے ’درمیانی رینج‘ کے میزائل کا استعمال کیا تھا جس کا کوڈ نیم ’اوریشنِک‘ ہے۔ روسی زبان میں ’اوریشنِک‘ کا لفظ ہیزل کے درخت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
صدر پوتن کا کہنا تھا کہ یہ ہتھیار تین کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے اپنے ہدف تک پہنچا تھا اور ’فی الحال اسے روکنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ روسی حملے میں دنیپرو میں عسکری صنعتی جگہ کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ انھوں نے اس میزائل حملے کو ایک ’کامیاب‘ تجربہ قرار دیا کیونکہ ان کا ’ہدف پورا‘ ہو گیا ہے۔
اپنی تقریر کے ایک دن بعد دفاعی حکام سے بات کرتے ہوئے صدر پوتن نے مزید کہا تھا کہ اس میزائل کے تجربے جاری رہیں گے ’بشمول جنگی صورتحال میں۔’
پوتن نے اس ہتھیار کی وضاحت تو دی ہے لیکن کسی کو یہ نہیں معلوم کہ آخر یہ ہتھیار ہے کیا۔
یوکرینی انٹیلیجنس حکام کا ماننا ہے کہ یہ بین البراعظمی ’سیڈر‘ میزائل کی ایک قسم ہے، جس نے یوکرین میں اپنے ہدف تک پہنچنے میں 15 منٹ لیے۔
یوکرین کا شہر دنیپرو میزائل فائر کیے جانے والے مقام سے ایک ہزار سے زیادہ کلومیٹر دور ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس میزائل میں چھ وارہیڈز نصب تھے۔
Uses in Urdu نے فضائی حملے کی ویڈیو کا معائنہ کیا ہے اور ان کی تحقیق یوکرینی حکام کے اندازے سے مطابقت رکھتی ہے۔
جس مقام پر روسی فضائی حملہ ہوا وہ دنیپرو شہر کے جنوب مشرق میں واقع ایک صنعتی علاقہ ہے۔
میزائل کی رفتار اہم کیوں ہوتی ہے؟
اگر صدر پوتن کی بتائی گئی میزائل کی خصوصیات درست ہیں تو ’اوریشنِک‘ میزائل کو ہائپرسونک میزائلوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔
کسی بھی میزائل کی رفتار اس لیے اہم ہوتی ہے کیونکہ جتنی تیز اس کی رفتار ہوگی اتنی ہی جلدی وہ اپنے ہدف تک پہنچ جائے گا۔ اگر میزائل برق رفتاری سے اپنے ہدف تک پہنچے گا تو مخالف عسکری قوت کے پاس اس کا ردِعمل دینے کے لیے کم وقت ہوگا۔
ایک بیلسٹک میزائل اپنے ہدف کی طرف نیچے سے اوپر اور پھر اوپر سے نیچے کی سمت میں بڑھتا ہے۔ لیکن جب یہ نیچے کی طرف جا رہا ہوتا ہے تو اس کی رفتار میں تیزی آتی ہے اور یہ اپنے دفاع کرتے ہوئے ہدف کی طرف بڑھتا ہے۔
اسی سبب، میزائل کو مخالف نظام کے لیے ہوا میں ہی تباہ کرنا تھوڑا مشکل ہو جاتا ہے۔
تاہم، ان خطرات سے بچاؤ کا طریقہ نکالنا فوجوں کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن میزائل کی رفتار جتنی زیادہ ہوگی، اس کو روکنا اتنا ہی مشکل ہوگا۔
اس لیے صدر پوتن نے اس میزائل کے بارے میں معلومات دیتے ہوئے خاص طور پر اس کی رفتار پر زور دیا تھا۔
ایک اندازے کے مطابق، روس کی جانب سے فائر کیے گئے تقریباً 80 فیصد میزائل اب تک یوکرین نے روکے ہیں۔
تاہم، روس کی جانب سے فائر کیا جانے والا نیا میزائل اپنی برق رفتاری کی وجہ سے یوکرین کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: چینی کی قیمت کو کنٹرول کرنے کیلئے بڑا فیصلہ کر لیا گیا
اس نئے میزائل کی رینج کیا ہے؟
روس سے تعلق رکھنے والے ایک ماہرِ عسکری امور نے روسی حکومت کے حامی ایک اخبار کو بتایا کہ ’اوریشنِک‘ ممکنہ طور پر وہ نیا میزائل ہوسکتا ہے جس کو انتہائی خفیہ طریقے سے بنایا گیا تھا اور یہ ایک درمیانی فاصلے تک مار کرنے والا میزائل ہوسکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ممکنہ طور پر یہ (اوریشنِک) درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے روسی میزائلوں کی نئی نسل کا حصہ ہے جس کی رینج ڈھائی ہزار سے تین ہزار کلومیٹر تک ہو سکتی ہے یا پھر اس رینج کو تین سے بڑھا کر پانچ ہزار کلومیٹر بھی کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ بین الابراعظمی میزائل نہیں ہے۔‘
یعنی یہ میزائل یورپ تک پہنچنے کی صلاحیت تو رکھتا ہے لیکن امریکہ تک پہنچنے کی نہیں۔
ان کا ماننا ہے کہ ’اوریشنِک‘ میزائل ’یارس ایم کمپلیکس‘ بین الابراعظمی میزائل کا نچلا ورژن ہے۔
اس سے قبل یہ اطلاعات بھی سامنے آئیں تھیں کہ روس ایسے نئے میزائلوں پر کام کر رہا ہے۔
عسکری امور کے ایک ماہر دمتری کورنو نے روسی اخبار کو بتایا کہ ’اوریشنِک‘ بنانے کی بنیاد مختصر فاصلے تک مار کرنے والے اسکندر میزائل ہو سکتا ہے۔
اسکندر کا انجن بڑا ہوتا ہے اور اس کا تجربہ جنوبی روس میں گذشتہ موسمِ بہار میں کیا گیا تھا۔ دمتری کہتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ ’اوریشنِک‘ وہی میزائل ہو۔
’اوریشنِک‘ میزائل کتنا کامیاب ہے؟
عسکری امور کے ماہر ولادیسلاو شوریگن نے روسی اخبار کو بتایا کہ ’اوریشنِک‘ میزائل کسی بھی جدید میزائل ڈیفینس سسٹم کو چکما دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ان کے مطابق نیوکلیئر وارہیڈ کا استعمال کیے بغیر ’اوریشنِک‘ میزائل کسی بھی محفوظ بنکر کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ایک اور روسی تجزیہ کار ایگور کوروچینکو نے طاس نیوز ایجنسی کو بتایا کہ ’اوریشنِک‘ میزائل متعدد وارہیڈز لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ’یہ تمام وارہیڈز ایک وقت میں اپنے ہدف کی طرف لپکتے ہیں‘ اور اسی لیے یہ میزائل انتہائی کامیاب ہتھیار ہے۔
سبلائن نامی کمپنی کے سی ای او جسٹن کرمپ نے Uses in Urdu کی ویریفائی کو بتایا کہ یہ میزائل یوکرین کے دفاعی نظام کو چیلنج کرسکتا ہے۔
ان کے مطابق ’روس کے مختصر فاصلے تک مارنے کرنے والے میزائل اس تنازع میں یوکرین کے لیے ایک خطرہ بنے ہوئے ہیں۔‘
’برق رفتار اور مزید جدید ہتھیار یوکرین کے لیے ان خطرات کی شدت کو بڑھا دیں گے۔‘