پاپا، ہمارے کتنے اور ان کے کتنے افراد جان سے گئے: فرقہ وارانہ لڑائی میں گھیرے میں کرم میں حکومت اتھارٹی قائم کرنے میں ناکام کیوں؟
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں جمعرات کو گاڑیوں کے قافلے پر حملے میں 44 ہلاکتوں کے بعد جمعے کی شب اس کے ردِعمل میں فرقہ وارانہ جھڑپوں میں حکام کے مطابق کم از کم 32 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔
جمعے کی شب سے کرم کے مختلف علاقوں میں توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں اور بعض ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کئی دکانوں اور مکانوں کو نذرِ آتش کیا گیا۔
خیبرپختونخوا کے محکمۂ اطلاعات کے مطابق وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی ہدایت پر صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم ایڈووکیٹ، چیف سیکریٹری خیبرپختونخوا، کمشنر کوہاٹ ڈویژن، ڈی آئی جی کوہاٹ پر مشتمل وفد حالات کا جائزہ لینے اور امن و امان کی بحالی کے لیے جرگے کو دوبارہ فعال کرنے کے لیے کرم روانہ ہوا ہے۔
کرم کے ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ کرم میں امن و امان قائم کرنے کے لیے سکیورٹی فورسز کو تعینات کیا گیا جبکہ قبائلی رہنماؤں سے مدد حاصل کی جا رہی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کرم میں حکومت رٹ قائم کرنے میں ناکام کیوں ہوئی اور اس مسئلے کا مستقل حل کیسے تلاش کیا جا سکتا ہے؟ Uses in Urdu نے ماہرین سے بات کر کے ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔
سکیورٹی کے لیے پولیس کی صرف ایک گاڑی
خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں پچاس سے زیادہ گاڑیوں میں سوار مسافروں کی حفاظت کے لیے صرف ایک گاڑی میں پانچ پولیس اہلکار تعینات کیے گئے تھے جو اس قافلے کے ساتھ حفاظت کے لیے جا رہے تھے۔
پشاور سے پاڑہ چنار اور پھر پاڑہ چنار سے پشاور جانے والے گاڑیوں کی تعداد واضح نہیں لیکن مقامی لوگوں کے مطابق ایک طرف سے 50 یا 60 گاڑیاں اور اسی طرح دوسری طرف بھی 50 یا 60 گاڑیاں تھیں اور دونوں جانب ایک، ایک پولیس کی گاڑی تھی جس میں چار سے پانچ اہلکار تھے جو ان کی حفاظت پر مامور تھے۔
ضلع کرم میں مقامی نمائندوں، ریٹائرڈ پولیس حکام اور عینی شاہدین سے بات کرنے سے معلوم ہوا ہے کہ جس راستے پر حالات کشیدہ ہیں وہاں مسافروں کی حفاظت کے لیے جو وعدے کیے گئے تھے یا جو پروٹوکولز ضروری تھے ان پر کوئی عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: چینی کی قیمت کو کنٹرول کرنے کیلئے بڑا فیصلہ کر لیا گیا
پروٹوکولز کیا ہونے چاہیے؟
پاڑہ چنار سے تعلق رکھنے والے سابق انسپکٹر جنرل پولیس سید ارشاد حسین نے Uses in Urdu کو بتایا کہ جب کسی علاقے سے لوگوں کو گزارنے کے لیے قافلہ تیار کیا جاتا ہے تو اس کے لیے وہ تمام اقدامات ضروری ہوتے ہیں جس سے تمام لوگوں اور ان کی ملکیت کا تحفظ کیا جا سکے۔ اگر اس دوران حملہ یا کوئی نقصان ہوتا ہے تو اس کے ذمہ دار متعلقہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ہوتے ہیں۔
سکیورٹی کے حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے لیے مکمل منصوبہ بندی ضروری ہوتی ہے اور سب سے اہم انٹیلیجنس ہونا ضروری ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ کتنا خطرہ ہو سکتا ہے ۔
سید ارشاد حسین نے بتایا کہ قافلے میں شامل ہر اول دستہ فرنٹ لائن سکیورٹی کہلاتا ہے جو خطرات سے بچنے کے لیے قیادت کرتا ہے۔ اس کے بعد قافلے کے درمیان میں ایک گاڑی ہوتی ہے جو سینٹر روٹ پروٹیکشن کا کام انجام دیتی ہے اور اس میں جوانوں کی مستعدی بہت اہم ہوتی ہے۔ ایک گاڑی یا دستہ آخر میں بھی موجود ہوتا ہے تاکہ پیچھے سے حملے کی کوشش کو ناکام بنایا جا سکے۔
اس کے ساتھ ساتھ فول پروف سکیورٹی کے لیے علاقے کی مکمل جائزہ لینا ضروری ہے، خاص طور پر ان مقامات کو محفوظ بنانا جہاں سے حملے کا خطرہ ہو۔
سید ارشاد حسین نے یہ بھی بتایا کہ یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ راستے میں سکیورٹی اہلکاروں کی تعداد کتنی ہے اور کتنی چیک پوسٹس قائم کی گئی ہیں تاکہ اگر کہیں سے حملے کی کوشش ہوتی ہے تو فوری طور پر جواب دیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ جہاں یہ واقعہ ہوا وہ راستہ 10 یا 12 کلومیٹر سے زیادہ نہیں ہوگا اور اگر قافلہ دو بجے کے درمیان وہاں سے گزر رہا ہے تو اس وقت ایک گھنٹے کے لیے راستہ بند کر دیا جا سکتا تھا تاکہ لوگوں کو کوئی نقصان نہ ہو۔ یہ راستہ ٹل سے مندوری تک کا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ناکافی سکیورٹی کے علاوہ حکومت کی ناکامی بھی ہے اور اس طرح انہوں نے لوگوں کو حملہ آوروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ صرف چار سے پانچ پولیس اہلکار کانویے کے ساتھ روانہ ہوئے، جو ایک سو سے زیادہ گاڑیوں کا تحفظ کیسے کر سکتے تھے؟
یہ بھی پڑھیں: مسلسل تیسرے روز بھی سونے کی قیمت کم ہو گئی
قافلے میں شامل لوگ کیا کہتے ہیں؟
پشاور یا کسی بھی علاقے سے پاڑہ چنار جانا اس وقت انتہائی مشکل سفر ہے، خاص طور پر اہل تشیع کے افراد کے لیے، کیونکہ انہیں اہل سنت آبادی سے گزرنا پڑتا ہے، جہاں حملوں کا خطرہ ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر اہل سنت کے لوگ اہل تشیع کے علاقوں سے گزرتے ہیں تو ان کے لیے بھی صورتحال کشیدہ ہو جاتی ہے۔
اس قافلے میں ایک مسافر گاڑی کے سوار، یوتھ کونسل پاڑا چنار کے چیئر مین دانش طوری، نے بتایا کہ وہ صبح 9 بجے پاڑا چنار سے پشاور کے لیے روانہ ہوئے اور علیزئی کے مقام پر انہیں روکا گیا تاکہ قافلے کی تمام گاڑیاں ایک ساتھ روانہ ہو سکیں۔ دوپہر کے وقت ایف سی کے اہلکاروں نے انہیں کہا کہ راستہ کلیئر ہے، لہذا وہ روانہ ہو سکتے ہیں۔
دانش نے بتایا کہ انہوں نے قافلے کے ساتھ سکیورٹی اہلکاروں کی کسی گاڑی کو نہیں دیکھا، لیکن سابق آئی جی سید ارشاد حسین کے مطابق ایک گاڑی جس میں 4 سے 5 اہلکار سوار تھے، وہ پشاور جانے والے قافلے کے ساتھ روانہ ہوئی تھی۔
دانش طوری نے کہا کہ مندوری کے قریب جب دونوں طرف سے قافلے کی گاڑیاں آئیں، تو اسی وقت حملہ ہوا۔
انہوں نے کہا کہ حملہ آور کافی دیر تک فائرنگ کرتے رہے اور راکٹ لانچر بھی چلاتے رہے، جس کے نتیجے میں لوگوں کی ہلاکت اور زخمی ہونے کے واقعات پیش آئے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان کو جیل میں اچھا کھانا نہیں دیا جارہا ، اسی وجہ سے انکو الٹیاں ہوئیں: عمر ایوب
سکیورٹی کے معاہدے
پاڑہ چنار سے پشاور جانے والی شاہراہ تقریباً ایک ماہ تک بند رہی ہے اور یہ اس وقت ہوا تھا جب 12 اکتوبر کو کرم میں مسافر گاڑی پر حملہ ہوا تھا۔ اس حملے میں مقامی لوگ ہلاک ہو گئے تھے اور اس کے بعد جوابی کارروائیاں شروع ہوئیں اور علاقے میں کشیدگی بڑھ گئی۔
اس کے بعد مقامی سطح پر حالات اس لیے بھی خراب ہو گئے کیونکہ اشیا ضروریہ کی قلت پیدا ہو گئی تھی اور لوگوں نے راستے کھولنے کا مطالبہ کیا تھا۔
سابق رکن قومی اسمبلی ساجد حسین طوری کا کہنا تھا کہ قافلے پر حملہ حکومت کی ناکامی ہے کیونکہ اس کے لیے جو معاہدہ ہوا اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا تھا۔
ساجد حسین طوری نے Uses in Urdu کو بتایا کہ اس علاقے کے مشران اور انتظامیہ کے ساتھ مشاورت کے بعد قافلے میں سفر کرنے کا فیصلہ ہوا تھا اور یہ کہا گیا تھا کہ ہفتے میں چار دن سکیورٹی اہلکاروں کی حفاظت میں مسافر گاڑیوں کو محفوظ طریقے سے ان علاقوں سے گزارا جائے گا۔
’جہاں سے حملے کا خطرہ ہے اور اگر اداروں کو ایسا لگتا ہے کہ کسی دن حالات کشیدہ ہیں اور قافلہ نہیں گزر سکتا تو اس دن قافلے کو نہ لے جایا جائے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ معاہدے کے مطابق ادارے اپنی مکمل تسلی کے بعد قافلے کو روانہ کریں گے لیکن اس بارے میں کوئی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا اور یہ مکمل پولیس انتظامیہ اور سکیورٹی اہلکاروں کی ناکامی ہے۔
اس بارے میں ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ قافلے کی حفاظت کے لیے اس راستے پر 200 کے قریب پولیس اہلکار تعینات کیے گئے تھے جبکہ فرنٹیئر کور اور فوج کو بیک اپ پر رکھا گیا تھا۔
اس بارے میں مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ اگر 200 کے قریب اہلکار تعینات تھے تو پھر حملے کے وقت وہ کہاں تھے اور حملے کے ایک گھنٹے کے بعد اہلکار کیسے پہنچے؟
عینی شاہدین نے بتایا کہ حملے کے بعد 10 سے 12 کلومیٹر تک جگہ جگہ لاشیں اور زخمی پڑے تھے جبکہ بڑی تعداد میں لوگوں نے درختوں اور جھاڑیوں میں چھپ کر جانیں بچائیں۔
Uses in Urdu نے حکومتی مؤقف جاننے کے لیے صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف سے رابطے کی کوشش کی اور انھیں سوالات بھی بھیجے لیکن تاحال ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ کرم کی سطح پر ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود اور ضلعی پولیس افسر احمد شاہ سے بھی بارہا رابطے کی کوشش کی گئی مگر ان کے نمبرز بھی مسلسل بند آ رہے تھے۔
تاہم اس واقعے کے حوالے سے خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انھوں نے صوبائی وزیرِ قانون اور اراکینِ اسمبلی کی سربراہی میں ایک وفد کرُم بھیجا ہے جو جرگے کے ذریعے علاقے میں امن قائم کرنے کی کوشش کرے گا۔
کرم میں وفد کی سرگرمیوں کے بارے میں ترجمان بیرسٹر سیف نے ایک ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کی ہدایت پر حکومتی وفد ضلعی عمائدین سے جرگہ کر رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ 'کشیدگی کے خاتمے کے لیے تمام معاملات خوش اسلوبی سے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔'
بیرسٹر سیف کے مطابق 'آج اہل تشیع کے رہنماؤں سے مفصل ملاقاتیں ہوئیں، مسائل کے حل کے لیے مثبت گفتگو ہوئی۔ اگلے مرحلے میں اہل سنت کے رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کی جائیں گی۔'
ان کے مطابق 'ہماری اولین ترجیح دونوں فریقین کے درمیان سیز فائر کروا کر پائیدار امن قائم کرنا ہے۔'
انھوں نے کہا کہ 'وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کی واضح ہدایات ہیں کہ تمام مسائل بات چیت کے ذریعے حل کیے جائیں۔'
کرم سے تعلق رکھنے والے ایک طالبعلم ریاض چمکنی نے Uses in Urdu کو بتایا کہ یہاں زمین کا تنازع تو انگریز کے دور سے چلا آ رہا ہے مگر سنہ 2007 میں 'مری معاہدے' کے تحت یہاں کے 72 مقامی مشران نے اس کا ایک حل تجویز کیا تھا، جس کے تحت پانچ نکات پر اتفاق ہوا تھا۔
ان کے مطابق ان نکات میں سے ایک اس علاقے سے بے دخل کیے گئے لوگوں کا اپنے اپنے علاقوں میں واپس جانا شامل تھا۔ اس معاہدے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ قبائلی روایات کے مطابق جرگے سے تنازعات حل کریں گے۔
ریاض چمکنی کے مطابق اب مسئلہ یہ ہے کہ ہر کوئی اپنے ترجیحی مسئلے پر جرگے کا مطالبہ کرتا ہے۔
ریاض طوری ایک سیاسی کارکن ہیں۔ انھوں نے Uses in Urdu کو بتایا کہ میری پوری زندگی اس تنازع کو دیکھتے ہوئے گزر گئی۔ ان کے مطابق 'کل رات مجھ سے میرے بچے یہ پوچھ رہے تھے کہ پاپا ہمارے کتنے اور ان کے کتنے (افراد) مارے گئے ہیں۔ میرے لیے اس کا جواب بہت مشکل تھا کیونکہ میں یہ تقسیم بچوں کو نہیں بتانا چاہتا۔'
یہ بھی پڑھیں: ایران نے دوبارہ حملہ کیا تو اسرائیل کو جوابی کارروائی سے نہیں روک سکیں گے: امریکا کی وارننگ
کرم میں قبائلی تنازع حل کیوں نہ کیا جا سکا؟
کرم میں پولیٹکل ایجنٹ رہنے والے ایک حکومتی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ماضی میں بھی ایسے اکّا دکّا واقعات تو ہوتے رہے ہیں مگر یہاں کے مقامی قبائل میں اس مسئلے نے باقاعدہ تنازع کی شکل سنہ 1995 میں اختیار کی اور اس کی بنیادی وجہ زمین کی ملکیت کا مسئلہ تھا۔ اس کے بعد کرم میں سنہ 2007۔08 میں بڑی جنگ ہوئی۔
ماہرین کے مطابق یہاں کے مقامی قبائل کے درمیان مقامی تنازع اب بین الاقوامی تنازع کی شکل اختیار کر گیا ہے اور انھیں مختلف خطوں سے فرقے کی بنیاد پر بھی اعانت ملنا شروع ہوئی جبکہ افغانستان کی جنگ نے اس تنازع کو کبھی ٹھنڈا نہیں ہونے دیا۔
پولیٹکل ایجنٹ کے مطابق کرم میں وقت کے ساتھ ساتھ حکومت کی رٹ کمزور ہوتی چلی گئی۔ ان کے مطابق جب قبائلی علاقوں کا انضمام خیبر پختونخوا صوبے میں ہوا تو اس سے پہلے پولیٹکل ایجنٹ کے بڑے 'آرمز' یہاں کے ملک اور مقامی زعما تھے جو 'سِول افیئرز' کے حل میں بہت مضبوط حیثیت رکھتے تھے۔
ان کے مطابق ان علاقوں میں جب سیاسی ایجنٹ کو ہٹا کر ڈپٹی کمشنر تعینات کیے گئے تو پھر انھیں وہ اختیارات تفویض نہیں کیے گئے جو کہ ان سے پہلے انتظامیہ کے پاس تھے۔ اس کے علاوہ وعدہ خلافی یہ ہوئی کہ صوبوں کے ’ویزیبل پول‘ سے 30 فیصد رقم یہاں ان علاقوں کی ترقی پر خرچ نہیں کیے گئے، جس سے یہاں سماجی معاشی نظام ٹوٹ کر رہ گیا۔
سست رو عدالتی نظام کا قیام
سابق سیاسی ایجنٹ کے مطابق جب یہ قبائلی علاقہ بھی صوبے میں ضم ہو گیا تو پھر یہاں عدالتی نظام قیام عمل میں لایا گیا جو جلد تنازعات کے حل میں ناکام رہا۔
ان کے مطابق چھ برس میں کوئی دس مقدمات بھی ایسے نہیں جن کا عدالتوں سے حتمی فیصلہ آ چکا ہو جبکہ اس سے قبل قبائلی عمائدین، زعما اور مشران کے جرگے میں ایسے کسی بھی تنازع کا حل ایک یا دو دن میں سامنے آتا تھا اور سب اس پر عمل بھی کرتے تھے۔ ان کے مطابق اب یہاں قانونی مقدمات کی بھرمار ہے۔
ان کے مطابق موجودہ تنازع کی فوری وجہ حکومت کی خاموشی کی پالیسی بنی جبکہ یہ سب عیاں تھا کہ آگے چند دنوں میں حالات کیا رخ اختیار کرنے جا رہے ہیں۔
ان کے مطابق پولیس مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے اب حکومت کو فوری طور پر فوج کو طلب کرنا ہوگا اور یہاں رینجرز اور ایف سی کی بھی تعیناتی کرنا ہوگی۔
سیاسی ایجنٹ کے مطابق پاڑا چنار کی 70 سے 80 کلومیٹر روڈ کا تحفظ ایک مشکل کام ہے کیونکہ ساتھ افغانستان کی طویل سرحد بھی ہے تو ایسے میں صورتحال کو قابو میں رکھنے کے لیے حکومت کو خصوصی انتظامات کرنے ہوں گے۔
سابق آئی جی ارشاد علی شاہ کے مطابق افغان جنگ کے دوران یہاں القاعدہ سمیت متعدد جہادی تنظیمیں بھی آئیں جنھوں نے یہاں مقامی قبائلی تنازع کو مزید ہوا دی اور اس میں مذہبی عنصر کو بھی بڑھا دیا۔
ان کے مطابق ان تنظیموں نے یہاں تربیتی کیمپس اور ہتھیاروں کے ڈپو تک قائم کیے، جس سے ان قبائل کے پاس بے تحاشہ اسلحہ آیا۔ ارشاد علی شاہ کے مطابق یہاں کی شیعہ آبادی ایسی تنظیموں کی راہ روکنے کی کوشش کرتی تھی کیونکہ انھیں علم تھا کہ اس کے نتائج کیا نکلیں گے۔
ان کے مطابق جب افغانستان میں تورا بورا کے مقام پر امریکی افواج نے القاعدہ کے سابق رہنما اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی کی تو پھر القاعدہ کے لوگوں نے بھی پاکستان داخل ہونے کے لیے اس راستے کا انتخاب کیا اور یہاں کی شیعہ آبادی سے ان کا تنازع بھی ہوا۔
ارشاد علی شاہ کے مطابق قبائلی تنازعات کا کلچر ہر ایجنسی میں ہے مگر کرم میں خاص طور پر 9/11 کے بعد اس تنازع نے فرقہ وارانہ رنگ اختیار کر لیا جب یہاں جیش محمد اور اس تنظیم کے رہنما مفتی محمد رؤف نے خاصی گڑبڑ کی۔
سابق صوبائی پولیس افسر کے مطابق ’حرکت المجاہدین اور پنجابی طالبان نے بھی اس تنازع میں اپنا حصہ ڈالا اور یہاں کے سماجی نظام کو تباہ کیا۔‘
سابق آئی جی کے مطابق اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ یہاں مشران کے ذریعے جرگہ طلب کیا جائے اور اس معاملے کا حل تلاش کیا جائے۔
انھوں نے کہا کہ اب تک جو ہلاکتیں ہوئی ہیں ان واقعات کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بھی تشکیل دینا چاہیے، جس میں ریونیو کے آزادانہ ماہرین شامل کیے جائیں۔
ان کے مطابق تنازع کے حل تک یہاں چار پانچ پولیس والوں کی بجائے رینجرز کو تعینات رکھا جائے اور فوری طور پر اس علاقے کو شدت پسندی اور اسلحے سے پاک کیا جائے۔