افغانستان کا دریائے آمو: تیل اور گیس کی تلاش میں چین اور روس کی سرگرمیاں
خطے کے دو طاقتور ترین ممالک روس اور چین ان دنوں افغانستان میں طالبان حکومت کے ساتھ سرمایہ کاری اور معاشی سرگرمیوں میں تعاون کے لیے مصروف عمل دکھائی دے رہے ہیں، جس کی تازہ ترین مثال ان دونوں ممالک کے سرمایہ کاروں کا حال ہی میں افغانستان کا دورہ ہے۔
چند روز قبل روسی سرمایہ کاروں کے ایک وفد نے کابل کا دورہ کر کے حکام سے ملاقاتیں کی ہیں اور اس دوران افغانستان میں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
Uses in Urdu کی مانیٹرنگ کے مطابق طالبان کے زیرِ انتطام افغانستان کے سرکاری ٹی وی چینل نے 17 نومبر کو ایک رپورٹ میں کہا کہ ’نائب وزیر اعظم برائے اقتصادی امور ملا عبدالغنی برادر نے کابل میں روسی اور افغان سرمایہ کاروں کے ایک گروہ سے ملاقات کی ہے۔
روسی سرمایہ کاروں نے ملا عبدالغنی برادر سے ملاقات میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ روس مختلف شعبوں میں افغانستان میں نہ صرف سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے بلکہ اپنے تجربات بھی ان کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہے۔
روسی سرمایہ کاروں نے توانائی، صنعت، تجارت، نقل و حمل، زراعت، ریلوے اور صحت سمیت بنیادی شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
افغانستان کے سرکاری ٹی وی چینل کی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’اجلاس میں روسی تاجروں کی جانب سے انفراسٹرکچر، صنعت، تجارت، ٹرانسپورٹ، زراعت، ریلوے اور صحت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی خواہش کا اظہار کیا گیا۔‘
رپورٹ کے مطابق عبدالغنی برادر نے کہا کہ طالبان حکومت روسی سرمایہ کاروں کے ساتھ مکمل تعاون کرے گی اور ملک میں پُرامن ماحول ان کی سرگرمیوں کے لیے سازگار ثابت ہو گا۔
یاد رہے کہ افغانستان میں چین کی کمپنی افچین کی جانب سے دریائے آمو کے بیسن (طاس) میں تیل کے مزید 18 کنوؤں کی کھدائی اور گیس کی تلاش کا کام بھی شروع کیا جا چکا ہے۔
افغانستان میں روسی سرمایہ کاری
ایک ایسے وقت میں جب ایک چینی کمپنی کی مدد سے شمالی افغانستان میں خام تیل نکالنے کا کام جاری ہے، چین کی طرح روس بھی اس بات کا خواہاں ہے کہ افغانستان میں گیس، تیل اور توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کی جائے۔
روس نے اس مد میں ذرائع نقل و حمل، زراعت اور صنعت کے شعبوں اور افغانستان میں سابق سوویت یونین کے منصوبوں میں سرمایہ کاری میں بھی اپنی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔
ان منصوبوں سے یہ بات عیاں ہو رہی ہے کہ روس افغانستان کے ساتھ اقتصادی شراکت دار اور جغرافیائی سیاسی اتحادی دونوں کی طرز پر تعلقات کو وسعت دینے پر آمادہ ہے۔