علم، شعور اور اخلاق، سنگھار سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے

کہاوت کا مفہوم
"جو عورت اپنے سنگھار کے پیسوں سے کتابیں خریدتی ہے اور پڑھتی ہے وہ معاشرے میں عظیم لوگوں کو جنم دیتی ہے"۔
اس کہاوت کا مفہوم یہ ہے کہ وہ عورت جو اپنی ذات کو سنوارنے اور ظاہری خوبصورتی پر خرچ کرنے کے بجائے علم و شعور کے حصول کو ترجیح دیتی ہے، درحقیقت ایک مہذب، علم دوست اور باصلاحیت نسل کی پرورش کرتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی سے لاہور جانے والی گرین لائن ایکسپریس بڑے حادثے سے بال بال بچ گئی
تعلیم کا کردار
یہ کہاوت اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ عورت کا کردار کسی معاشرے کی تعمیر میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر وہ خود تعلیم یافتہ ہو اور علم کو اپنی زندگی کا حصہ بنائے، تو وہ اپنے بچوں کو بھی علم و شعور کے راستے پر گامزن کرے گی۔
یہ بھی پڑھیں: تحریک انصاف کے اندر اختلافات سے متعلق شوکت یوسفزئی کا بیان
مثالی نسل کی تخلیق
ایسی عورتیں معاشرے میں ان افراد کو جنم دیتی ہیں جو آگے چل کر قوم اور انسانیت کے لیے مثال بن جاتے ہیں۔ کہاوت میں یہ پیغام بھی دیا گیا ہے کہ اندرونی خوبصورتی، یعنی علم، شعور اور اخلاق، ظاہری سنگھار سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور دیرپا اثرات مرتب کرتا ہے۔
انتخاب
انتخاب : سلیم خان