ہڈی ٹوٹنے کے بارے میں عام غلط فہمیاں جو آپ کو غلط معلومات فراہم کرتی ہیں
کسی بھی حادثے یا چوٹ لگنے کی صورت میں دل کو ہولانے والا پہلا خیال عموماً یہی آتا ہے کہ کہیں ہڈی فریکچرنہ ہو گئی ہو اور پھر شدید درد نہ ہو تو بعض اوقات ہم اس اطمینان میں آ جاتے ہیں کہ جوڑ ہڈی سب سلامت ہیں۔
تاہم یاد رکھیں کہ فریکچر بعض اوقات اذیت ناک درد کا سبب نہیں بن سکتے اور ممکن ہے کہ بعض فریکچر آپ کو حرکت کرنے سے بھی نہ روکیں۔
تو پھر ہمیں کسی بھی چوٹ لگنے کی صورت میں فریکچر سے متعلق کن علامات کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔
اس تحریر میں ہم ہڈیوں کے ٹوٹنے سے متعلق کچھ غلط فہمیوں پر بات کریں گے۔
پہلی غلط فہمی: اگر متاثرہ حصے کو حرکت دے سکیں تو ہڈی سلامت ہے
فرض کریں کہ آپ سیڑھیاں چڑھتے، کھیلتے کودتے، یا بائیک پر سے گرنے کی وجہ سے اپنے پاؤں، ہاتھ یا بازو پر شدید چوٹ لگاتے ہیں اور آپ درد سے کراہ رہے ہوتے ہیں۔ تو پہلا سوال جو آپ سے پوچھا جائے گا وہ یہ ہوگا کہ کیا آپ اسے (چوٹ کی جگہ کو) حرکت دے سکتے ہیں؟ اگر آپ اسے حرکت دے سکتے ہیں تو یہ سمجھا جائے گا کہ ہڈی نہیں ٹوٹی۔
لیکن حقیقت اس کے برعکس بھی ہو سکتی ہے اور آپ کبھی کبھی ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کو حرکت دینے کے قابل ہو سکتے ہیں۔
اس لیے شدید چوٹ کی جگہ کو (درد کے باوجود) حرکت دینا فریکچر نہ ہونے کی ضمانت نہیں ہے۔
فریکچر کی تین اہم ترین علامات یہ ہیں:
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہڈیوں کا تقریباً 90 ڈگری تک پھیل جانا یا جلد میں گھسنا ایسی علامات ہیں جو فریکچر کی تصدیق کرتی ہیں۔ ایک اور نشانی یہ ہے کہ فریکچر کے دوران اسے ہلانے سے ایسی آوازیں صاف سنائی دیتی ہیں جیسے انگلیوں کے چٹخانے کی صورت میں مخصوص آواز ہم سنتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: آدمی بیوی کو بچانے کیلئے خطرناک قطبی ریچھ پر جھپٹ پڑا
غلط فہمی نمبر 2: اگر فریکچر ہوتا تو نا قابل برداشت درد ہوتا
کیا آپ نے کچھ لوگوں سے سنا ہے کہ وہ اپنا توازن کھو بیٹھے، زمین پر گر پڑے اور پھر اسی دن سکیٹنگ، چہل قدمی، یا یہاں تک کہ اپنے ڈانس جیسی معمول کی سرگرمیاں کیں، اور ان کو سمجھ نہیں آئی کہ ان کو فریکچر ہو گیا ہے؟ آپ کو یہ بات شاید کہانی لگ رہی ہو، لیکن ایسا بھی ہوتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ فریکچر عام طور پر شدید درد کا باعث بنتا ہے، اور بعض اوقات یہ تکلیف دہ بھی ہو سکتا ہے، لیکن اگر فریکچر معمولی ہے یا ہیئرلائن ہے تو ہو سکتا ہے کہ آپ کو اس کا احساس نہ ہو۔
لیکن اگر آپ کو فریکچر ہونے کا شبہ ہو تو آپ کو فوراً ماہر ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے، تاکہ وہ ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کو مناسب سپلنٹ (لکڑی کی پٹی) کے ساتھ ان کی درست جگہ پر بٹھا سکے۔
یہاں تک کہ وہ ٹھیک ہو جائیں۔ دوسری جانب انفیکشن جیسی پیچیدگیوں سے بھی بچا جا سکے، بصورت دیگر فریکچر کی جگہ پر ہڈیوں کا مستقل بگاڑ بھی ہو سکتا ہے۔
تاہم، فریکچر اور درد کے درمیان ایک اور عجیب تعلق بھی ہے۔
آپ کو فریکچر کے دوران درد محسوس نہیں ہو سکتا، تاہم کئی افراد ایسے بھی ہیں جن کو فریکچر کے مقام پر کئی سالوں تک درد رہا۔
2015 میں، ساوتھمپٹن یونیورسٹی کے محققین نے بائیو بینک چیریٹیبل فاؤنڈیشن کے ذریعے تقریباً پانچ لاکھ ایسے بالغ افراد کا ڈیٹا جمع کیا جن کے بازو، ٹانگ، ریڑھ یا کولہوں کی ہڈی میں ماضی میں فریکچر ہوا تھا۔
ان میں سے کئی افراد کو دیگر افراد کے مقابلے میں کئی دہائیوں تک جسم میں دائمی درد کی شکایت کا سامنا رہا۔ لیکن گھبرائیے نہیں، خوش قسمتی سے اس قسم کا درد عام نہیں ہوتا۔
یہ بھی پڑھیں: سورج سے نکلنے والے ایک کھرب کلوگرام وزنی ‘آگ کے گولوں’ کی تحقیق: بھارت کے شمسی مشن سے حاصل کردہ معلومات کی اہمیت کیا ہے؟
تیسری غلط فہمی: صرف بزرگ خواتین آسٹیوپوروسس کی وجہ سے فریکچر سے محتاط رہیں
یہ درست ہے کہ بڑی عمر کی خواتین کو نوجوان خواتین کے مقابلے میں فریکچر کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے کیونکہ وہ ہارمونل تبدیلیوں سے گزر رہی ہوتی ہیں اور مینو پاز کے باعث ان کی ہڈیاں متاثر ہو رہی ہوتی ہیں۔ آسٹیوپوروسس بار بار ہونے والے فریکچر کا باعث بنتا ہے۔
امریکن سینٹرز فار میڈیکیئر (Medicare) کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سفید فام خواتین میں کولہوں کی ہڈی ٹوٹنے کے واقعات سیاہ فام خواتین کے مقابلے میں دو گنا زیادہ ہیں۔
محققین نے سیاہ فام خواتین کی ہڈیوں کی مضبوطی کو کئی عوامل سے منسوب کیا ہے۔
ان میں سے ایک یہ ہے کہ سیاہ فام خواتین میں بچپن میں ہڈیوں کا وزن زیادہ ہوتا ہے، اس کے علاوہ سیاہ فام خواتین میں ہڈیوں کے ٹوٹنے اور بننے کی شرح کم ہوتی ہے، اور ہڈیوں کو تبدیل کرنے اور دوبارہ پیدا کرنے کی زیادہ صلاحیت نے عمر کے ساتھ ہڈیوں کے بڑے پیمانے پر نقصان کے عمل کو سست کرنے میں کردار ادا کیا ہے۔
تاہم، سیاہ فام خواتین بھی آسٹیوپوروسس سے محفوظ نہیں ہیں، وہ اس بیماری کے لیے کم حساس ہوتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پچاس سال سے زائد سیاہ فام خواتین میں سے پانچ فیصد آسٹیوپوروسس کا شکار ہیں۔
اور اس تعداد نے کچھ لوگوں کو سیاہ فام خواتین میں ہڈیوں کی کثافت کی پیمائش کے لیے مزید درست ٹیسٹ کرانے پر توجہ مبذول کروائی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر تعلیم نے طلباء کو تھیلیسیمیا مریضوں کیلیے 1 لاکھ بلڈ ڈونیشن بیگز کا ہدف دیدیا
غلط فہمی نمبر چار: پیر ٹوٹ جائے تو ڈاکٹر کے پاس جانا بیکار ہے
یاد رکھیں اگر آپ کا پیر ٹوٹ گیا ہے تو آپ کو ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے، چاہے وہ فریکچر والی جگہ پر پلاسٹر لگانا ضروری نہ بھی سمجھے۔
طبی ٹیم کو فریکچر کی نوعیت اور جگہ کا تعین کرنا چاہیے تاکہ طویل مدت میں درد کے تسلسل یا پاؤں میں ایسی خرابی پیدا ہونے سے بچا جا سکے جو بعد میں جوتے پہننے کو تکلیف دہ بنا سکتی ہے یا ہڈیوں کے آسانی سے فیوز نہ ہونے سے ہو سکتا ہے جو عمر کے ساتھ گٹھیا کا باعث بنتا ہے۔
اگر فریکچر کے بعد پیر کو غلط زاویہ پر جھکایا جاتا ہے تو اسے مسلسل علاج یا سرجری کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
پیر ٹوٹنے کی زیادہ تر صورتوں میں ایک چپکنے والا مخصوص ٹیپ رکھا جاتا ہے جو ٹوٹے ہوئے پیر کو دائیں یا بائیں جانب اس کے ساتھ والے پیر سے جوڑتا ہے، اور اسے سٹیل کے ایک خاص جوتے میں رکھا جاتا ہے۔ فریکچر کو ٹھیک ہونے میں عام طور پر چار سے چھ ہفتے لگتے ہیں۔
پاؤں کے انگوٹھے کا فریکچر دوسری انگلیوں کے مقابلے زیادہ سنگین ہوتا ہے اور بعض اوقات متاثرہ انگلی کو حرکت سے روکنے کے لیے مخصوص پٹی (سپلنٹ) کی ضرورت پڑسکتی ہے جسے ٹانگ کے پٹھوں تک پھیلا کر ایک چپکنے والی ٹیپ لگائی جاتی ہے۔ اور دو یا تین ہفتوں تک اس کو ایسے ہی رکھا جاتا ہے۔
خوش قسمتی سے انگوٹھے کی ہڈی ٹوٹنے کا امکان دوسری انگلیوں کے مقابلے میں آدھا ہوتا ہے۔
اگر پیر کے پنجے کی ہڈیوں کے اس حصے میں فریکچر ہو جو انگلیوں کے بالکل نیچے ہوتا ہے تو یہ ہڈیاں ایک دوسرے میں دھنس سکتی ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ یہ ہڈیاں ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہوتی ہیں۔
مگر 80 فیصد واقعات میں یہ ٹوٹنے کے بعد بھی اپنی جگہ پر رہتی ہیں اور پنجے کا جالا بنا رہتا ہے۔
تاہم اگر ایسے زخم ہوں جو کمپاؤنڈ فریکچر کی نشاندہی کرتے ہوں یا ہڈیوں کو ان کی صحیح جگہ پر واپس لانا مشکل ہو، جیسا کہ اکثر انگوٹھے کے نیچے میٹاٹرسل ہڈیوں میں ہوتا ہے تو معالج کے پاس فوری جانا ضروری ہے۔
چھوٹی انگلی کے نیچے میٹاٹرسل فریکچر میں بعض اوقات سرجری یا سپلنٹ کی ضرورت پڑسکتی ہے۔
باریکیوں میں جائے بغیر یہ یاد رکھیں کہ چاہے آپ کو مرہم پٹی یا پلاستر کی ضرورت ہو یا نہ ہو، اگر آپ کا پیر ٹوٹا ہے تو ڈاکٹر سے ملنا ضروری ہے۔ اگر ڈاکٹر سمجھے کہ پاؤں میں کوئی سنگین فریکچر نہیں ہے تو وہ ٹوٹے ہوئے پیر کو جگہ پر رکھنے کے لیے پٹی باندھ سکتی ہے۔
غلط فہمی نمبر پانچ: ٹھیک ہونے کے بعد ہڈیاں پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جاتی ہیں
کم از کم طویل مدت کے دورانیے میں اس مفروضے کو مبالغہ آرائی پر مبنی اور ایسا بیان سمجھا جا سکتا ہے جس پر یقین کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ تاہم مختصر مدت میں اس میں کچھ سچائی ہوسکتی ہے۔
شفا یابی کے مرحلے کے دوران اس کی حفاظت کے لیے فریکچر ایریا کے گرد ہڈیوں کے بہت سخت ٹشو بنتے ہیں۔ لہذا شفا یابی کے عمل کے آغاز کے چند ہفتوں بعد فریکچر کی جگہ ہڈیاں ان ہڈیوں سے زیادہ مضبوط ہوتی ہیں جو ٹوٹی نہیں تھیں۔
لیکن چند سالوں کے بعد ہڈیوں کا یہ ٹھوس ٹشو غائب ہو جاتا ہے، اور اس کی جگہ نئی ہڈی لے لی جاتی ہے، لیکن یہ اردگرد کی ہڈیوں سے زیادہ مضبوط نہیں ہوتیں۔