ڈی چوک میں بیٹھنے کی ایک قیمت ہے, ان کیساتھ “تھوڑا بہت ہنسی مذاق” ہونا چاہیے: رانا ثناء اللہ
رانا ثنا اللہ کا بیان
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) وزیر اعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ ڈی چوک میں بیٹھنے کی ایک قیمت ہے، ان کیساتھ "تھوڑا بہت ہنسی مذاق" ہونا چاہیے۔ پی ٹی آئی کو جو تجویز دی گئی تھی، اگر وہ عمل ہوتی تو ان کے لیے بہتر تھا۔ وزیراعظم نے 4 ہفتے قبل مذاکرات کی پیشکش کی، وہ واپس تو نہیں لی۔
یہ بھی پڑھیں: امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کی دوڑ میں کون آگے ہے؟
پی ٹی آئی کا موقف
"جیو نیوز" کے پروگرام 'آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ' میں گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ (ن) لیگ نے ہمیشہ مذاکرات پر یقین رکھا ہے۔ اگر یہ تجویز پر رک جاتے تو ایک عمل شروع ہوجاتا، باقی چیزیں بھی لائی جاسکتی تھیں۔ وزیراعظم نے 4 ہفتے قبل غیرمشروط مذاکرات کی پیشکش کی، مذاکرات کا فیصلہ پارٹی لیڈر یا وزیراعظم نے کرنا ہے، وزیراعظم نے 4 ہفتے قبل مذاکرات کی پیشکش کی، وہ واپس تو نہیں لی۔
یہ بھی پڑھیں: کیا مجھے ریویو لینا چاہئیے ؟، رضوان اور زیمپا کی گفتگو سوشل میڈیا پر وائرل
ڈی چوک میں بیٹھنے کا اثر
بانی پی ٹی آئی کی جانب سے ہمیشہ مذاکرات سے انکار کیا گیا ہے۔ ٹھیک ہے، وہ ڈی چوک پہنچ گئے ہیں، اس سے پہلے بھی 126 دن وہاں بیٹھے رہے ہیں۔ ڈی چوک میں بیٹھنے کی ایک قیمت ہے، زیادہ دیر اس تعداد میں نہیں بیٹھ سکتے۔
یہ بھی پڑھیں: آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے روسی نائب وزیر دفاع کی اہم ملاقات
حکومت کی ذمہ داری
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا کام ہے کہ ان کو دھرنے کے لیے لاشوں کی صورت میں ایندھن نہ ملے۔ یہ بھی نہیں ہونا چاہیے کہ سمجھیں کہ آرام سے ڈی چوک آگئے، تھوڑا بہت ہنسی مذاق ہونا چاہیے۔ ان کا ایک ٹارگٹ ڈی چوک پہنچنا تھا، دوسرا لاشوں کا ہے جس میں ہمیں محتاط رہنا چاہیے۔
آگے کا لائحہ عمل
ایک سوال کے جواب میں رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ بعض اوقات کوشش کے باوجود چیزیں اس طرح نہیں ہوپاتیں جیسے سوچا گیا۔ اب یہ آکر بیٹھ گئے ہیں تو ان کو یہاں پوری طرح الجھانا اور تھکانا بھی چاہیے۔ یہ ڈی چوک پہنچ گئے تو اب آگے کیا، اب یہاں بیٹھنے سے کیا حاصل ہوگا؟ بانی پی ٹی آئی تو حکومت سے بات کرنے کو تیار نہیں۔ عمران خان کو کیا ڈی سی نے نظربند کیا جو وزیراعظم رہا کریں؟ عمران خان پر مقدمات ہیں، عدالت نے ضمانت منظور کرنی ہے۔