بچیوں میں قبل از وقت ماہواری کی وجوہات: ’مجھے 13 سال کی عمر میں ماہواری شروع ہوئی، میں نے سوچا کہ میری بیٹی بھی اسی عمر میں بالغ ہو جائے گی‘
’میری بیٹی نو سال اور چند مہینے کی تھی جب ایک دن اچانک اُسے پیریڈ شروع ہو گئے۔ جب مجھے پہلی بار ماہواری ہوئی تھی تو میری عمر تقریباً 13 برس تھی اور میں نے سوچا تھا کہ میری بیٹی کو بھی اسی عمر میں ماہواری شروع ہوگی۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ اگر مجھے اندازہ ہوتا تو میں پہلے ہی اسے اس بارے میں کچھ سمجھاتی، لیکن یہ سب اچانک ہوا جس کی وجہ سے میری بیٹی کئی مہینوں تک اپ سیٹ رہی۔‘
یہ کہنا ہے شازیہ کا، جو دو بچیوں کی ماں ہیں اور گھر سنبھالنے کے ساتھ ساتھ گھر پر سلائی کا کام بھی کرتی ہیں۔ ان کی بڑی بیٹی چوتھی جماعت میں تھی جب ایک دن سکول میں کلاس کے دوران اُن کو ماہواری شروع ہو گئی۔
سکول انتظامیہ کی طرف سے کال موصول ہونے کی صورت میں شازیہ اپنی بیٹی کو لینے گئیں تو اُن کے مطابق، اُن کی بیٹی کافی پریشان تھی۔ شازیہ کے مطابق، ان کے پہنچنے سے پہلے ہی ٹیچرز ان کی بیٹی کو ماہواری کے بارے میں بتا رہی تھیں اور پریشان نہ ہونے کا کہہ رہی تھیں، تاہم شازیہ کو افسوس ہوا کہ وہ اپنی بیٹی میں ’نظر آنے والی تبدیلیوں‘ کے باوجود بروقت آگاہی نہیں دے سکیں۔
شازیہ بتاتی ہیں کہ ’میری بیٹی کا قد تیزی سے بڑھ رہا تھا اور جسمانی خدوخال میں بھی معمولی تبدیلیاں واضح ہو رہی تھیں، مگر میرے ذہن میں اُن سنی سنائی باتوں کا اثر تھا کہ ماں اور بچی ایک عمر میں ہی بالغ ہوتی ہیں، اور یہ کہ بیٹی کو ماں کی طرف سے یہ وراثت میں ملتا ہے۔‘
طبی ماہرین کے مطابق بچیوں میں بلوغت کی عمر عموماً 10 سے 13 سال کے درمیان سمجھی جاتی ہے، تاہم حالیہ چند سالوں میں بچیوں کو قبل از وقت ماہواری شروع ہونے کی خبریں پہلے کے مقابلے میں زیادہ عام سنائی دے رہی ہیں۔
حال ہی میں ایسا ہی ایک کیس انڈیا کی ریاست مہاراشٹر سے بھی رپورٹ ہوا جہاں ارچنا (فرضی نام) نامی خاتون کی چھ سالہ بیٹی کو ماہواری شروع ہو گئی۔ شروع میں والدین کا خیال تھا کہ اُن کی بچی دیگر بچوں کے مقابلے میں زیادہ صحت مند ہے، اس لیے اس کا جسم بھر رہا ہے، لیکن ڈاکٹروں کے مطابق دراصل وہ ماہواری کی نشانیاں تھیں۔
اسلام آباد کے شفا ہسپتال میں بچوں کے ماہر ڈاکٹر معصومہ نے Uses in Urdu کو بتایا کہ ’بچیوں میں اپنی ماؤں کے مقابلے میں کم از کم دو سال قبل ماہواری شروع ہونے کا رجحان سامنے آ رہا ہے۔ تاہم بچیوں کو نو سال کی عمر میں ماہواری ہونا نارمل ہے۔‘
اُن کے مطابق ’قبل از وقت ماہواری کے 90 فیصد کیسز میں کسی علاج کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘
بچیوں میں قبل از وقت بلوغت کا رجحان کتنا عام ہو رہا ہے اور اس کی ممکنہ وجوہات کیا ہو سکتی ہیں۔ اس حوالے سے Uses in Urdu نے ڈاکٹرز سے بات کی اور اس رجحان کے نتیجے میں بچیوں کی تولیدی صحت پر پڑنے والے اثرات سمیت دیگر اہم سوالات ان کے سامنے رکھے۔
بریسٹ بڈز کی نشوونما بچیوں میں بلوغت کی پہلی نشانی
پاکستان میں اکثر گھرانوں میں جب خواتین سے آٹھ، نو سال کی بچیوں کو ماہواری سے متعلق آگاہی دینے کے بارے میں بات کی جاتی ہے تو عموماً جواب ملتا ہے کہ ’مجھے تو 12، 13 سال کی عمر میں پیریڈ شروع ہوئے تھے اور میری امی مجھے بھی یہی بتاتی تھیں۔ اسی لیے میری بچی کا وقت ابھی دور ہے۔‘
تاہم ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ جب بھی بچی کے جسمانی خدوخال میں تبدیلی دیکھیں، جس میں سینے کے ابھار کا نمایاں ہونا سر فہرست ہے، تو سمجھ جائیں کہ بچی بلوغت کے قریب ہے۔
ڈاکٹر معصومہ کہتی ہیں کہ 'بچیوں میں بلوغت یا ماہواری عام طور پر 10 سے 12 سال کی عمر میں ہوتی ہے۔ ماہواری سے قبل پہلی نشانی بچی کے بریسٹ بڈز کی نشوونما ہے۔ اس کے بعد ان کے پیوبک ایریا (زیر ناف) پر بال آنا شروع ہوتے ہیں اور اس کے تقریباً ایک سال کے عرصے میں ماہواری شروع ہو جاتی ہے۔ بعض اوقات یہ وقفہ کچھ ماہ کم یا زیادہ ہو سکتا ہے۔'
'تاہم اب دیکھنے میں آ رہا ہے کہ اگر کسی لڑکی کو 12 سال کی عمر میں ماہواری شروع ہوئی تھی تو اس کی بیٹی کو 10 سال کی عمر میں ماہواری شروع ہو رہی ہے۔ یعنی ماؤں کے مقابلے میں بچیوں میں دو سال جلدی ماہواری ہونے کا رجحان بڑھ رہا ہے، تاہم یہ عمر نارمل ہے۔'
یہ بھی پڑھیں: رانا نوید الحسن کو افغانستان انڈر 19 ٹیم کا بولنگ کوچ مقرر کردیا گیا
قبل از وقت بلوغت کی وجوہات
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ قبل از وقت بلوغت کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں اور کسی ایک چیز کو اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیونکہ اس بارے میں مطالعات اور تحقیق ابھی جاری ہے۔
ڈاکٹر معصومہ قبل از وقت بلوغت (precocious puberty) کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کا جواب کچھ یوں دیتی ہیں: 'بچیوں میں اگر آٹھ سال سے قبل اور بچوں میں نو سال کی عمر سے پہلے اگر بلوغت کے آثار دکھنے شروع ہو جائیں تو اس کو قبل از بلوغت کہا جاتا ہے۔ بچیوں میں اس کا علاج اسی وقت کیا جاتا ہے اگر ماہواری آٹھ سال کی عمر یا اس سے پہلے ہو۔'
اُن کے مطابق لڑکیوں میں وقت سے پہلے بلوغت کی عموماً کوئی خاص وجہ نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر معصومہ کا کہنا ہے کہ ہارمونل ایشو یا دماغ میں چھوٹے ٹیومرز کے باعث قبل از وقت ماہواری کے کیسز بہت کم ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر معصومہ نے کہا کہ پاکستان میں کوئی ایسا ڈیٹا میسر نہیں جس سے یہ پتہ لگ سکے کہ قبل از وقت بلوغت کا تناسب کتنا ہے، تاہم بین الاقوامی سطح پر ہر پانچ سے دس ہزار بچیوں میں سے ایک کو قبل از وقت بلوغت ہو رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی کے سوا باقی ملک کیلئے بجلی سستی کردی گئی
'قبل از وقت ماہواری کی ایک بڑی وجہ جسم میں اضافی چربی'
ڈاکٹر معصومہ بچوں میں موٹاپے کو قبل از وقت بلوغت کی ایک وجہ قرار دیتی ہیں۔
ان کے مطابق 'اگر جسم میں باڈی فیٹ زیادہ ہو تو اس سے ماہواری جلدی ہو سکتی ہے۔' جسم میں باڈی فیٹ یا چربی زیادہ ہونے کی اس صورتحال کو ایڈیوپوسیٹی (Adiposity) کہتے ہیں۔
ڈاکٹر معصومہ بتاتی ہیں کہ 'ایڈیپوسٹ ٹشو ہارمونز ریگولیٹ کرتے ہیں اور وہ جلد ماہواری کا سبب بن سکتے ہیں۔'
'اسی طرح اگر جسم بہت دبلا پتلا ہے یا اگر جیسے کوئی ایتھلیٹ ہے تو اس کی بلوغت تاخیر کا شکار ہو سکتی ہے۔'
اُن کے مطابق، اس کے علاوہ بلوغت جلدی شروع ہونے کی دیگر وجوہات میں طرز زندگی میں ہونے والی تبدیلیاں بھی شامل ہو سکتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: منی مزدا ٹرانسپورٹرز کی محکمہ ایکسائز کے خلاف ملک گیر پہیہ جام ہڑتال
مویشیوں کو لگائے جانے والے ہارمونز اور پھل سبزیوں پر دواؤں کا استعمال بچیوں کی جلد بلوغت کا سبب؟
انڈیا سے تعلق رکھنے والی والدہ ارچنا نے ڈاکٹروں کو بتایا کہ اُن کے گھر میں کیڑے مار دوا کے پانچ کلو کے دو کنستروں کی موجودگی ہے اور اُن کی بیٹی ان کنستروں کے آس پاس کھیلتی رہتی ہے۔
ڈاکٹر پرشانت پاٹل، جو ممبئی میں لڑکیوں میں قبل از وقت بلوغت کے حوالے سے کام کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ ارچنا کی چھ سالہ بیٹی میں زہریلے کیڑے مار ادویات ہارمونل تبدیلیوں کا سبب بنی ہو سکتی ہیں، جو قبل از وقت بلوغت کا باعث بنتی ہیں۔
انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق صدر ڈاکٹر اویناش بھونڈوے کہتے ہیں کہ فصلوں کو بچانے کے لیے کئی طرح کی کیڑے مار ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے، جو ناک اور منہ کے ذریعے ہمارے جسم میں داخل ہو سکتی ہیں۔
اُن کے مطابق، کیڑے مار ادویات کھانے کے ذریعے بھی جسم میں داخل ہوتی ہیں اور ان کا اثر دماغ میں موجود ان غدود پر پڑتا ہے جو ہارمونز کو کنٹرول کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 'سبزیوں کو جلدی اگانے اور گائے، بھینسوں سے زیادہ دودھ لینے کے لیے بھی ہارمونز کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسے اجزا کے استعمال سے جسم پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔'
یہ بھی پڑھیں: ویسٹ انڈیز نے سکاٹ لینڈ کو آئی سی سی ویمنز ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں شکست دے دی
سکرین ٹائم میں اضافے سے جنسی ہارمونز میں عدم توازن
نوعمر بچوں میں ہارمونل عوارض کا علاج کرنے والی ماہر امراض اطفال اور اینڈوکرائنولوجسٹ ڈاکٹر ویشاکھی راستیگی کہتی ہیں کہ پچھلے دو تین سالوں سے ان کے پاس روزانہ لڑکیوں میں قبل از وقت ماہواری کے پانچ سے چھ کیس آتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ 'میں ایسے کیسز بھی دیکھتی ہوں جہاں مائیں مجھے بتاتی ہیں کہ انہوں نے اپریل میں بچیوں میں جسمانی تبدیلیاں محسوس کیں اور جون، جولائی میں لڑکیوں کو ماہواری شروع ہوگئی۔ اب لڑکوں کے بھی ایسے کیسز سامنے آنے لگے ہیں۔'
وہ کہتی ہیں کہ سکرین ٹائم بالواسطہ طور پر قبل از وقت بلوغت کو متاثر کرتا ہے۔
اُن کے مطابق 'دماغ سے خارج ہونے والا میلاٹونن ہارمون ہمیں سونے میں مدد دیتا ہے، لیکن سکرین کا وقت بڑھنے کے ساتھ نیند کے سائیکل میں خلل پڑتا ہے، کیونکہ سکرین سے آنے والی روشنی اس کا توازن بگاڑ دیتی ہے۔ یہ ہارمون ہمارے جنسی ہارمونز کو دبانے میں مدد کرتا ہے، لیکن میلاٹونن کے عدم توازن کی وجہ سے جنسی ہارمونز جلد خارج ہوتے ہیں۔'
اس کے ساتھ ہی سینیٹائزر میں موجود کیمیکلز خون کے راستے جلد میں داخل ہو جاتے ہیں اور یہ ہارمونز کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر ایس این باسو کا کہنا ہے کہ ہمارے جسم میں “کسسپپٹن” نامی ہارمون موجود ہے جو وقت سے پہلے بلوغت کو بڑھانے میں مدد کرتا ہے۔
ان تمام وجوہات کا مطالعہ اب کیا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کے شراب خانوں میں 50 سال پہلے ہونے والے دھماکوں کا حل نہ ہونے والا معمہ
بلوغت کے بعد بڑھتے قد کا رُکنا
ڈاکٹر معصومہ بتاتی ہیں کہ بچیوں میں قبل از وقت ماہواری کی تشخیص کے لیے کچھ ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔
ان کے مطابق 90 فیصد بچیوں میں اس کی کوئی خاص وجہ نہیں ہوتی، لیکن 10 فیصد میں کسی ایڈرینل گلائینڈ یا ہارمونل مسئلے کا امکان ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر کچھ وجوہات سامنے آئیں تو ان کا علاج کیا جاتا ہے۔
‘آٹھ سال سے کم عمر بچیوں میں ہارمونل مسئلے کا سامنا ہونے پر انھیں ادویات دی جاتی ہیں۔ نو سال یا اس سے اوپر کی عمر میں ماہواری کی صورت میں ہم کچھ علاج تجویز نہیں کرتے۔’
قبل از وقت ماہواری طبی لحاظ سے بچیوں کی عمودی نشوونما کو متاثر کرنے والی ایک منفی صورت حال ہے۔
ڈاکٹر معصومہ کے مطابق ‘عام طور پر جب بچی کو ماہواری شروع ہوتی ہے تو اس کا قد بڑھنا رُک جاتا ہے۔ چھ سات سال کی عمر میں ماہواری ہونے سے یہی ایک پیچیدگی ہوتی ہے اور اسی وجہ سے علاج کیا جاتا ہے۔’
یہ بھی پڑھیں: پنجاب میں روڈ سیفٹی کو مزید بہتر بنا رہے ہیں تاکہ کسی کے گھر کا چراغ نہ بجھے:مریم نواز
کھیل کود کی عمر میں سوشل اور سائیکولوجیکل دباؤ
چھ یا سات سال کی عمر کھیل کود اور بے فکری کی ہوتی ہے، تاہم اس عمر میں جب بچی کو پیریڈز ہوتے ہیں یا بلوغت کے دوران اس کا سینہ بڑھتا ہے تو ان غیر متوقع جسمانی تبدیلیوں کا اس کی شخصیت پر سوشل اثر پڑتا ہے۔
ڈاکٹر معصومہ بھی اس خیال سے متفق ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘اگر آٹھ سال سے پہلے ماہواری آ رہی ہے تو اس سے عموماً طبی پیچیدگیاں نہیں ہوتیں، البتہ بچیوں پر سوشل اور سائیکولوجیکل پریشر ہوتا ہے۔’
ان کے مطابق طبی لحاظ سے جلد ماہواری شروع ہونے سے بچیوں کی تولیدی صحت متاثر نہیں ہوتی اور وہ ماں بننے کے لیے طبی طور پر عموماً صحت مند اور نارمل ہوتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ملک کے بیشتر علاقوں میں موبائل ڈیٹا پر انٹرنیٹ سروس جزوی معطل
بچیوں کو متوازن غذا کی ضرورت
ڈاکٹر معصومہ کہتی ہیں کہ اگر بچیاں متوازن غذا لے رہی ہیں جس میں آئرن، کیلشیئم، وٹامن ڈی شامل ہیں تو ان کو کسی دوا کی ضرورت نہیں ہوتی البتہ اگر کسی بچی میں آئرن کی کمی ہو تو اس کو دوا تجویز کرتے ہیں تاکہ وہ صحت مند رہیں اور ان کا ہیموگلوبن درست سطح پر ہو۔
انہوں نے واضح کیا کہ ’ماہواری کی صورت میں اخراج ہونے والے خون سے ہیموگلوبن نیچے نہیں جاتا بلکہ یہ قدرتی طور پر ایک سائیکل ہے جس میں خون کی سطح جسم میں برقرار رہتی ہے۔‘
گھر میں ماہواری کے متعلق آگاہی دینا کیوں ضروری ہے؟
سکول جانے اور کھیل کود کی عمر میں ماہواری بچیوں کے لیے اس وقت ذہنی تناؤ کا سبب بن جاتی ہے جب انہیں اس کے حوالے سے گھر والوں خصوصاً ماؤں کی طرف سے آگاہی نہیں دی گئی ہو۔
مکمل لاعلمی کی صورت میں بچیاں کس قدر گھبراہٹ کا شکار ہو جاتی ہیں اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہم نے رجوع کیا یاسمین ناز سے جو تقریباً 20 سال سے تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔
انہوں نے اپنے تجربے کے حوالے سے بتایا کہ ’بچیوں کی عمر 10 سے 12 سال ہوتی ہے جب ان کو ماہواری شروع ہوتی ہے۔ مسئلہ اس وقت ہوتا ہے جب ان کو اس بارے میں کسی قسم کی معلومات نہیں ہوتیں۔ ایک تو بچیاں کم عمر ہوتی ہیں اور اگر انہیں گھر سے آگاہی نہیں ملی ہوتی تو ظاہر ہے وہ گھبرا جاتی ہیں اور پریشان ہو جاتی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سکول میں جب کسی بچی کو پہلی بار پیریڈز ہوتے ہیں تو ہم نے اس کے لیے انتظام کیا ہوتا ہے تاہم کچھ چھوٹی بچیاں سہم جاتی ہیں۔‘
اُن کا کہنا ہے کہ بچی کو ماہواری سے متعلق کہیں باہر سے معلومات ملیں اس سے بہتر ہے کہ انہیں گھر ہی میں ذہنی طور پر اس بارے میں آہستہ آہستہ تیار کیا جائے۔
وہ کہتی ہیں کہ ماؤں کو چاہیے کہ بچیوں کو خود آگاہی دیں تاکہ بچیاں اس قدرتی اور فطری عمل سے گھبرائیں نہیں۔ ’بے شک اب بچوں کے پاس معلومات کے دیگر ذرائع بھی ہیں لیکن بہتر ہے کہ والدین خود ان کی رہنمائی کریں تاکہ بچیوں کا اعتماد برقرار رہے۔‘
یاسمین ناز دعویٰ کرتی ہیں کہ آج سے 20 سال پہلے تک بھی بچیاں چھٹی، ساتویں جماعت میں ہوتی تھیں تو ان کو ماہواری شروع ہوتی تھی۔ ان کے مطابق اب پانچویں جماعت کی بچیاں جن کی عمر 10 سال ہوتی ہے کو ماہواری شروع ہو جاتی ہے۔