سیکسٹنگ: والدین بچوں کو جنسی پیغامات کے تبادلے کے خطرات سے کیسے آگاہ کریں؟
ہم کس طرح کے ذاتی و سماجی تعلقات قائم کرتے ہیں اس میں ٹیکنالوجی کے باعث کافی تبدیلیاں آئی ہیں۔ ان تبدیلیوں میں سیکس سے متعلق کسی میں احساسات اجاگر کرنا شامل ہے۔
ویسے تو یہ عمل تب ہی شروع ہو گیا تھا جب ایس ایم ایس میسجز کا تبادلہ شروع ہوا تاہم نو عمروں میں سیکس کے لیے جسم میں پہلی بار اس احساس کا پیدا ہونا اکثر اوقات اب ٹیکسٹ میسجز کے ذریعے ہو رہا ہے۔ یہ رجحان جوان یا بالغ لوگوں میں عام ہے تاہم نوعمر بچوں میں بھی مقبول ہو رہا ہے۔
اس عمل کے لیے ’سیکسٹنگ‘ کی اصطلاح نے جنم لیا جس کے معنی ہیں جنسی نوعیت تعلقات قائم کرنے کے لیے میسیجز کے ذریعے وہ گفتگو اور خیالات کا تبادلہ کرنا جو سیکس کے دوران کی جاتی ہے۔
مشہور سائنسی جریدے ’جاما پیڈیاٹرکس‘ کی ایک تحقیق کے مطابق 12 سے 17 سال کے عمر کے ہر تین میں سے ایک بچے کو اپنے موبائل فون پر جنسی طور پر واضح پیغام موصول ہوا ہے۔
امریکن ایسوسی ایشن آف پیڈیاٹرکس کی ترجمان ڈاکٹر کورین کروس جیسے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس عمل سے کئی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں جیسے کہ ان جنسی طور پر واضح پیغامات کا غلط ہاتھوں میں پہنچ جانا۔
اس لیے والدین کا کردار بہت اہم ہے۔
چائلڈ مائنڈ انسٹی ٹیوٹ کے ایک مضمون میں طبی ماہر نفسیات کیرول ایسپیہو کہتی ہیں کہ ’بطور والدین یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اپنے بچوں کو وہ غلطیاں کرنے سے بچائیں جو ان کے لیے سنگین بد قسمتی کا باعث بن سکتی ہیں۔ موبائل فون پر میسیجز کے ذریعے سیکس کرنا ان چیزوں میں شامل ہے۔ بچوں کی نیت میں کھوٹ نہ بھی ہو تب بھی اس کے نتائج درد ناک ہو سکتے ہیں۔‘
ڈاکٹر کورین کروس نے مزید کہا کہ چونکہ نوبالغ افراد کے دماغ کا فرنٹل لوب یعنی سامنے والا حصہ مکمل طور پر تیار نہیں ہوا ہوتا، اس لیے نو بالغ اپنے اعمال کے نتائج کے بارے میں اچھی طرح نہیں سوچ پاتے۔
’ہمیں ان کی مدد کرنی ہو گی تاکہ وہ اس عمل کے نتائج سمجھ سکیں اور جب انھیں ان حالات کا سامنا تو انھیں ہماری اُن سے اس بارے میں کی ہوئی گفتگو یاد آ جائے۔‘
تاہم کئی والدین کے لیے اپنے بچوں کے ساتھ سیکس سے متعلق بات چیت کرنا اکثر مشکل ہوتا ہے اور وہ اس میں کافی جھجک محسوس کرتے ہیں۔ لیکن بچوں کو آگاہی دینا بھی ضروری ہے تاکہ وہ خود کو محفوظ رکھ سکیں۔
Uses in Urdu نے ماہرین سے بات کی جنھوں نے چار اہم عوامل کا ذکر کیا جو والدین کی اپنے بچوں سے اس بارے میں بات کرنے میں مدد کر سکتے ہیں:
بچوں سے یہ گفتگو قبل از وقت کریں
امریکن ایسوسی ایشن آف پیڈیاٹرکس کی ترجمان ڈاکٹر کورین کروس کہتی ہیں کہ والدین کی سب سے عام غلطیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں سے اس موضوع پر بات کرنے کو ٹالتے رہتے ہیں۔
بعض بچے 12 سال کی عمر سے سیکسٹنگ شروع کر سکتے ہیں جب وہ دوسروں میں جنسی اور جذباتی دلچسپیاں لینا شروع کر دیتے ہیں۔
ڈاکٹر کروس کے مطابق یہ عمر کا وہ حصہ ہوتا ہے جب بچے والدین کی ہر بات پر غور کر رہے ہوتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’ایسا بہت کم ہوتا ہے جب بچے خود سے اپنے والدین کو یہ بتاتے ہیں کہ ان سے کسی نے جنسی تصویر طلب کی ہے۔‘
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا لاس اینجیلس کی ڈاکٹر یولانڈا ریڈ کہتی ہیں کہ ’یہ ایک حقیقت ہے کہ بچوں کو سیکسٹنگ کے بارے میں کسی بھی لمحے پتہ چل سکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ والدین اپنے بچوں کے ساتھ اس موضوع پر جلد بات کر لیں تاکہ جب اُن کے پاس سیکسٹنگ کے بارے میں تمام معلومات موجود ہوں۔‘
ڈاکٹر ریڈ کے مطابق بچوں کو سیکسٹنگ کے بارے میں تب ہی آگاہ کر دینا چاہیے جب انھیں سیل فون دیا جائے۔
گفتگو کا آغاز کرنے کا ایک بہتر طریقہ یہ ہے کہ بچوں سے پوچھا جائے کہ وہ اس بارے میں کیا جانتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’یہ جاننا ضروری ہے کہ بچے کے پاس اس موضوع پر کیا معلومات ہیں اور پھر بچے کی عمر کے حساب سے اسے آگاہ کریں۔‘
مثال کے طور پر ڈاکٹر ریڈ کے مطابق وہ بچے جو ابھی تک سیکس کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے ہیں انھیں بتانا چاہیے کہ ان کی چیٹس میں کبھی بھی ایسی تصاویر یا ویڈیوز نہیں ہونی چاہیے ہیں جن میں کوئی برہنہ ہو یا اپنے جنسی اعضا کو چھو رہا ہو یا اس کا بوہسہ لے رہا ہو۔
دوسری جانب ڈاکٹر ریڈ نوعمروں کے ساتھ اس موضوع پر گفتگو میں سیکسٹنگ کی اصطلاح کو شامل کر کے ان سے خاص طور پر یہ پوچھنے کی تجویز کرتی ہیں کہ کیا مکمل یا نیم برہنہ لوگوں کی تصاویر اُن کے سامنے آئی ہیں۔
ڈاکٹر کروس نے مزید کہا کہ ان موضوعات پر کسی بھی گفتگو کو موثر بنانے کے لیے اسے بار بار کرنا چاہیے بجائے اس کے کہ صرف ایک بار بات کر کے موضوع کو دوبارہ نہ چھیڑا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں ‘ٹیسلا کِلر’ کے ساتھ سن روف والے رکشے کی آمد
خود کو بچوں کی جگہ رکھ کر سوچیں
والدین کی ایک اور غلطی اکثر یہ ہوتی ہے کہ وہ سیکسٹنگ کو مکمل طور پر ’ممنوع‘ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ڈاکٹر کروس کہتی ہیں کہ اکثر والدین اپنے بچوں سے یہ کہتے ہیں کہ 'اگر کوئی ایسی تصاویر کا مطالبہ کرے تو وہ شخص برا ہے۔ اس سے بات مت کرو۔'
'حقیقت یہ ہے کہ بچے اس مشورے پر عمل نہیں کرتے کیونکہ ہم خود کو ان کی جگہ رکھ کر نہیں سوچتے۔ یہ ایک ایسا شخص بھی ہو سکتا ہے جس میں بچے کو دلچسپی ہو۔ بچوں کے لیے ایسے شخص کو انکار کرنا مشکل ہے جس میں وہ رومانوی طور پر دلچسپی رکھتے ہوں اور ان کے ساتھ اٹھکھیلیاں کر رہے ہوں۔'
ماہر نفسیات کیرل ایسپیہو بتاتی ہیں کہ بات چیت کا آغاز اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے ہونا چاہیے کہ جنسی طور پر واضح پیغامات بھیجنا ایک تفریحی عمل بھی ہو سکتا ہے اور یہ کہ 'سیکسی یا من چاہا محسوس کرنے کی خواہش میں کوئی حرج نہیں ہے۔'
کیرل ایسپیہو کہتی ہیں کہ اپنے بارے میں ذاتی تفصیلات کا تبادلہ کرنے سے ہی قربتیں بڑھتی ہیں جو 'بلوغت کا ایک اہم حصہ ہے۔'
ماہر اطفال ڈاکٹر کروس نے بتایا کہ ان کے کلینک میں آنے والے نابالغ بچوں سے وہ کہتی ہیں کہ 'کسی میں دلچسپی رکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ ہمیشہ وہی کریں جو وہ چاہتے ہیں۔'
تاہم، وہ والدین کو بتاتی ہیں کہ اپنے بچوں سے کہیں کہ 'ہر اچھے تعلق میں ایک دوسرے کی حدود کا لحاظ ہوتا ہے۔ بعض چیزوں میں آپ کو ہچکچاہٹ محسوس ہو گی اور بعض میں نہیں۔ کسی بھی تعلق میں جانے سے پہلے آپ کو یہ چیزیں پہلے سے واضح کرنی ہوتی ہیں۔'
'اگر یہ شخص اس قابل ہے کہ اس کے ساتھ رومانوی تعلق قائم کیا جا سکتا ہے تو جب آپ اسے اپنی حدود کے بارے میں بتائیں گے تو یہ ان کا لحاظ کرے گا۔'
انھوں نے کہا کہ بچوں اور نو عمروں کے لیے یہ نصیحت زیادہ موثر ثابت ہوتی ہے بجائے اس کے کہ انھیں کوئی چیز بغیر کسی وجہ کے کرنے سے روک دیا جائے۔
انھوں نے کہا کہ بچے خود کو بالغ تعلقات قائم کرنے کے قابل محسوس کرنا چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر کروس کہتی ہیں کہ جب بچوں کو کوئی برہنہ تصویر ملتی ہے تو انھیں ایک طرح کا وقار محسوس ہوتا ہے کہ 'دیکھو! اسے میں کتنا پسند ہوں۔ اس نے مجھے اپنی ایسی تصویر بھیجی۔'
انھوں نے کہا کہ 'میں ہمیشہ بچوں سے کہتی ہوں کہ آپ کا تعلق تو ختم ہو جائے گا لیکن اس کے پاس آپ کی برہنہ تصاویر پڑی ہوں گی۔'
ڈاکٹر یولانڈا ریڈ کہتی ہیں کہ والدین کے لیے مفید ہے کہ وہ اس طرح کی خبروں سے آگاہ رہیں جن میں سیکسٹنگ کے انجام کے بارے میں بتایا جا رہا ہو اور اپنے بچوں سے ایسی خبروں کے بارے میں بات کریں۔
انھوں نے کہا کہ یہ مشق کرنے کا ایک بہانہ بن سکتا ہے کہ جب بچوں کی مرضی کے بغیر انھیں سیکسٹنگ کے لیے کہا جا رہا ہو تو وہ کیا کر سکتے ہیں۔
مزید یہ کہ کئی ممالک میں سیکسٹنگ کو چائلڈ پورنографی میں شمار کیا جاتا ہے اور یہ غیر قانونی ہے۔
ایسپیہو کہتی ہیں کہ 'اپنے بچوں کو یاد دلائیں کہ ایسے قوانین موجود ہیں جو ان کے اعمال کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اگر وہ پکڑے گئے تو سنگین نتائج بھگت سکتے ہیں۔ اور یہ لوگوں کے ساتھ ہو چکا ہے۔'
یہ بھی پڑھیں: اداکار گوہررشید نے اپنی زندگی میں کسی خاص لڑکی کا اعتراف کر لیا
گفتگو میں سیکسٹنگ کے انجام پر توجہ دیں
ماہر نفسیات کیرل ایسپیہو کہتی ہیں کہ یہ ضروری ہے کہ گفتگو کا مرکز یہ بحث نہ ہو کہ سیکسٹنگ اچھی چیز ہے یا بری۔ تاہم تبصرہ اس بات پر ہونا چاہیے کہ اس کے کم عرصے اور طویل عرصے پر کیا اثرات ہوتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ 'اپنے بچوں کے ساتھ اس قسم کی گفتگو کرتے وقت آپ خیال رکھیں کہ انھیں ایسا محسوس نہ ہو کہ انھیں ڈانٹا جا رہا تھا۔'
ماہرین کے مطابق بچوں اور نو عمروں پر زور دیا جائے کہ ایک بار جب وہ تصویر بھیج دیتے ہیں تو وہ ہمیشہ کے لیے انٹرنیٹ پر رہتی ہے۔
ڈاکٹر کروس نے کہا کہ بچوں کو بتائیں کہ 'اگر وہ کوئی ایسی تصویر بھیجنے جا رہے ہیں جسے دیکھ کر انھیں شرم آئے گی یا اگر ان کے والدین، ان کے استاد یا مستقبل میں ان کی اولاد اسے دیکھ لے تو شاید انھیں یہ تصویر نہیں بھیجنی چاہیے۔'
جاما پیڈیاٹرکس میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق 12 سے 17 سال کے درمیان کے 14.5 فیصد بچوں نے بغیر رضامندی کے ایسے میسجیز بھیجے ہیں۔
اکثر جس طرح ایک بچہ ایک برہنہ تصویر بھیجنے کے لیے کسی دوسرے پر بھروسہ کرتا ہے اسی طرح دوسرا بچہ اپنے قریبی دوست پر بھروسہ کر سکتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ اسے شیئر کرنا ٹھیک ہے۔
انھوں نے بتایا کہ بچوں کی ہمیشہ بری نیت نہیں ہوتی لیکن پھر بھی اس کے برے انجام بھگتنے پڑ سکتے ہیں۔
بچوں کو دباؤ کا مقابلہ کرنا سکھائیں
بہت سے نوعمروں کے مطابق، ان کے ایسے میسیجز بھیجنے سے پہلے ان سے کئی بار ایسی تصاویر کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔ لہذا، ماہرین کا کہنا ہے کہ والدین کی ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ بچوں کو دباؤ کے خلاف مزاحمت کرنا سکھائیں۔
ڈاکٹر کروس کہتی ہیں کہ 'بچوں کو بتائیں کہ اصل زندگی اور آن لائن دنیا دونوں میں کسی بھی عزت سے بھرپور تعلق میں 'نہ' کا مطلب 'نہ' ہوتا ہے۔'
ڈاکٹر یولانڈا ریڈ کہتی ہیں کہ بچوں کو ڈیجیٹل دنیا کا ذمہ دار شہری بنانا ہوگا۔ انھیں سمجھانا ہوگا کہ کسی پر دباؤ ڈال کر ان سے کوئی برہنہ تصاویر یا مواد حاصل کرنا غلط ہے۔
تاہم حقیقت یہی ہے کہ کتنی بھی آگاہی پھیلا دی جائے، پھر بھی بچوں کو ان مسائل کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔
ایسے میں بچوں کو یہ بتانا ضروری ہے کہ اگرچہ انھیں شرمندگی محسوس ہو رہی ہے یا ایسا لگ رہا ہے کہ انھیں بے عزت کیا جا رہا ہے، ایسا نہیں ہے اور وہ پُر وقار ہیں۔ ان میں کوئی کمی نہیں ہے۔'