سورج سے نکلنے والے ایک کھرب کلوگرام وزنی ‘آگ کے گولوں’ کی تحقیق: بھارت کے شمسی مشن سے حاصل کردہ معلومات کی اہمیت کیا ہے؟

گذشتہ برس بھارت نے سورج کے رازوں کی کھوج کے لیے ’آدتیہ-ایل ون‘ نامی ایک سولر مشن خلا میں کامیابی کے ساتھ بھیجا تھا۔ یہ خلا میں بھارت کا پہلا شمسی مشن تھا اور ملک کے سائنسدانوں کے مطابق اس مشن سے حاصل ہونے والی تفصیلات نے اب ’اہم نتائج‘ پیش کیے ہیں۔

سورج سے نکلنے والے ایک کھرب کلوگرام وزنی 'آگ کے گولوں' کی تحقیق: بھارت کے شمسی مشن سے حاصل کردہ معلومات کی اہمیت کیا ہے؟

آدتیہ خلائی جہاز میں سات خاص آلات موجود ہیں، جن میں سے ایک کو ’وِزِبل ایمیشن لائن کورونا گراف‘ یا ’ویلک‘ کہتے ہیں۔ ’ویلک‘ کی مدد سے سائنسدانوں کو ایسی معلومات ملیں ہیں جن سے سورج سے ’کورونل ماس ایجیکشن‘ کے اخراج کا درست وقت معلوم کیا جا سکتا ہے۔

’کورونل ماس ایجیکشن‘ (سی ایم ای) سورج کی سب سے اوپر کی سطح سے خارج ہونے والے بڑے بڑے آگ کے گولوں کو کہتے ہیں۔ اِن پر تحقیق کرنا بھارت کے اس شمسی مشن کے اہم سائنسی مقاصد میں سے ایک ہے۔

انڈین انسٹیٹیوٹ آف ایسٹرو فزکس کے پروفیسر آر رمیش نے ‘ویلک‘ کو ڈیزائن کیا ہے۔ انھوں نے Uses in Urdu کو بتایا کہ ’توانائی کے ذرات سے بنے ایک سی ایم ای (سورج سے نکلنے والے آگ کے گولے) کا وزن ایک کھرب کلوگرام تک ہو سکتا ہے اور یہ تین کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار حاصل کر سکتا ہے۔ یہ زمین سمیت کسی بھی سمت میں نکل سکتا ہے۔‘

وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’اب تصور کریں کہ ایک ایسا آگ کا گولہ زمین کی طرف بڑھ رہا ہے جو اپنی انتہائی تیز رفتار حاصل کر چکا ہے۔ تو اُسے سورج سے زمین تک کا 15 کروڑ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے لیے صرف 15 گھنٹے درکار ہوں گے۔‘

حال ہی میں ’ویلک‘ سے جو آگ کے گولے کا اخراج ہوا تھا، اُس کا سورج سے اخراج 16 جولائی کو 13:08 (جی ایم ٹی) پر ہوا تھا۔

پروفیسر رمیش نے کہا کہ اس آگ کے گولے کی ابتدا زمین کی ایک طرف سے ہوئی تھی۔

’لیکن زمین کی جانب بڑھتے ہوئے سفر کے آدھے گھنٹے کے اندر ہی اس نے ایک مختلف سمت اختیار کر لی اور سورج کے عقبی جانب چلا گیا۔ چونکہ یہ کافی فاصلے پر تھا، چنانچہ اِس کی وجہ سے زمین کا موسم متاثر نہیں ہوا۔‘

تاہم عام دنوں میں آنے والے شمسی طوفان، شمسی شعلے اور سورج سے خارج ہونے والے گولے زمین کے موسم کو معمول کے مطابق متاثر کرتے رہتے ہیں۔ وہ خلا کے موسم پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں، جہاں دنیا کے مختلف ممالک اور کمپنیوں کی جانب سے بھیجی گئی تقریباً 7800 سیٹلائٹس بھی موجود ہیں۔

’سپیس ڈاٹ کام‘ کے مطابق یہ آگ کے گولے شاذ و نادر ہی انسانی زندگی کے لیے براہ راست خطرہ بنتے ہیں تاہم یہ خارج از امکان نہیں کہ یہ گولے زمین کی مقناطیسی فیلڈ میں مداخلت کر کے زمین پر تباہی پھیلا سکتے ہیں۔

اِن کا اثر قطب شمالی اور جنوبی قطب کے قریب جگہوں پر خوبصورت ’ارورہ‘ کی شکل میں نظر آتا ہے۔

'ارورہ' نامی یہ منظر اس وقت تخلیق ہوتا ہے جب سورج کی سطح پر ہونے والے دھماکے (جنہیں 'سولر فلیئرز' کہا جاتا ہے) زمین کی فضا میں موجود گیسوں سے ٹکراتے ہیں اور آسمان میں سرخ، سبز اور جامنی رنگ کے چمکتے ہوئے دھارے بناتے ہیں۔

آگ کا گولہ جتنا طاقتور ہوگا، 'ارورہ' کی روشنیاں اتنی ہی دور تک آسمانوں میں نظر آئیں گی جیسا کہ رواں برس مئی میں لندن اور اکتوبر میں فرانس میں دیکھا گیا۔

لیکن خلا میں ان آگ کے گولوں کا اثر زمین پر نظر آنے والے اثر سے کہیں زیادہ سنگین ہوتا ہے۔ خلا میں ان شمسی گولوں سے خارج ہونے والے ذرات سیٹلائٹس کو تباہ کر سکتے ہیں، پاور گرڈز میں خلل ڈال سکتے ہیں اور موسم اور مواصلاتی سیٹلائٹس بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔

پروفیسر رمیش کا کہنا ہے کہ 'آج ہماری زندگی مکمل طور پر کمیونیکیشن سیٹلائٹس پر منحصر ہے، اور یہ سی ایم ای (شمسی گولے) ہمارے انٹرنیٹ، فون لائنز اور ریڈیو کمیونیکیشن کو بند کر سکتے ہیں۔ سی ایم ای کی وجہ سے زمین پر مکمل افرا تفری کی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔'

ریکارڈ شدہ تاریخ کا سب سے طاقتور شمسی طوفان 1859 میں آیا تھا۔ 'کیرنگٹن ایونٹ' نامی اس شمسی طوفان نے ارورہ کے شدید لائٹ شوز کو متحرک کیا اور پوری دنیا میں ٹیلی گراف کی لائنوں کو متاثر کیا تھا۔

ناسا کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ 2012 میں اسی نوعیت کا شمسی طوفان زمین کی جانب رخ کر رہا تھا اور ہم 'بال بال بچے تھے۔'

انہوں نے کہا کہ 23 جولائی کو ایک طاقتور 'سی ایم ای' زمین کے مدار میں داخل ہوا تھا لیکن ہم 'بہت زیادہ خوش قسمت' تھے کہ یہ زمین سے ٹکرانے کے بجائے خلا میں ناسا کی سولر آبزرویٹری سٹیریو-اے سے ٹکرا گیا۔

1989 میں ایک 'سی ایم ای' نے کینیڈا کے صوبے کیوبیک کے پاور گرڈ کے کچھ حصے کو نو گھنٹے کے لیے غیر فعال کر دیا تھا جس سے 60 لاکھ لوگ بجلی سے محروم رہے۔

4 نومبر 2015 کو شمسی سرگرمی نے سویڈن اور کچھ دوسرے یورپی ایئر پورٹس پر فضائی ٹریفک کنٹرول میں خلل پیدا کیا جس سے سفر کے نظام گھنٹوں متاثر رہا۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر ہمیں یہ نظر آ جائے کہ سورج پر کیا ہو رہا ہے اور ہم حقیقی وقت میں شمسی طوفان یا سی ایم ای کو دیکھنے اور اس کی رفتار معلوم کرنے کے قابل ہو جائیں تو ہم بروقت پاور گرڈز اور سیٹلائٹس بند کر سکتے ہیں۔

سورج سے نکلنے والے ایک کھرب کلوگرام وزنی 'آگ کے گولوں' کی تحقیق: بھارت کے شمسی مشن سے حاصل کردہ معلومات کی اہمیت کیا ہے؟

امریکی اور یورپی خلا کی ایجنسیاں، اور جاپان اور چین کئی دہائیوں سے اپنے خلا کے شمسی مشنز کے ذریعے سورج کی مشاہدہ اور تحقیق کر رہے ہیں۔ انڈین خلائی ایجنسی 'اسرو' کے ذریعے خلا میں بھیجے گئے آدتیا ایل-ون کے بعد بھارت بھی اس فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔

خلا میں جہاں آدتیا ایل-ون موجود ہے، وہاں سے سورج مسلسل نظر آتا ہے۔ چاند گرہن کے دوران یا کسی بھی خلائی شے کے سورج اور زمین کے درمیان سے گزرتے وقت بھی آدتیا ایل-ون سے سورج دکھائی دیتا رہتا ہے اور منظر بلاک نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے جاری سائنسی تحقیق میں خلل پیدا نہیں ہوتا۔

پروفیسر رمیش نے Uses in Urdu کو بتایا کہ ’جب ہم زمین سے سورج کو دیکھتے ہیں تو ہمیں آگ کا ایک نارنجی رنگ کا گولہ نظر آتا ہے جسے ’فوٹو سفیئر‘ کہتے ہیں۔ ’فوٹو سفیئر‘ سے مراد سورج کی سطح یا ستارے کے سب سے روشن حصے سے ہے۔‘

تاہم شمسی کورونا یا سورج کی سب سے اوپری سطح ہمیں صرف تب نظر آتی ہے جب مکمل چاند گرہن ہوتا ہے۔ اس میں چاند زمین اور سورج کے درمیان سے گزر کر سورج کے فوٹو سفیئر کو مکمل طور پر ڈھانپ لیتا ہے۔

سورج سے نکلنے والے ایک کھرب کلوگرام وزنی 'آگ کے گولوں' کی تحقیق: بھارت کے شمسی مشن سے حاصل کردہ معلومات کی اہمیت کیا ہے؟

پروفیسر رمیش کا کہنا ہے کہ انڈیا کے کورونا گراف کو ناسا اور ای ایس اے کی مشترکہ سولر آبزرویٹری پر تھوڑی برتری حاصل ہے۔

’ہمارے طیارے کا سائز چاند کے برابر ہے۔ جس طرح چاند گرہن ہوتا ہے اسی طرح آدتیہ ایل-ون سورج کے فوٹو سفیر کو مصنوعی طور پر چھپا سکتا ہے۔ اس وجہ سے ہمیں سال کے 365 دن اور دن کے 24 گھنٹے سورج کا کورونا بلاتعطل نظر آتا رہتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ناسا اور ای ایس اے کے مشن کا کورونا گراف آدتیا ایل-ون سے بڑا ہے جس کی وجہ سے یہ سورج کے فوٹو سفیئر سمیت اس کے کورونا کے کچھ حصے کو بھی چھپا دیتا ہے۔ اس لیے ان کے کورونا گراف سے یہ معلوم نہیں کیا جا سکتا کہ سورج پر سی ایم ای کا آخراج کس جگہ سے ہوا ہے۔

سورج سے نکلنے والے ایک کھرب کلوگرام وزنی 'آگ کے گولوں' کی تحقیق: بھارت کے شمسی مشن سے حاصل کردہ معلومات کی اہمیت کیا ہے؟

’لیکن ویلک کی مدد سے ہم صحیح اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سی ایم ای کا اخراج کب اور کہاں سے ہوا ہے اور اس کا رخ کس طرف ہے۔‘

سورج کو دیکھنے کے لیے انڈیا کے پاس خلائی طیارے کے علاوہ زمینی بنیاد پر تین آبزرویٹریز بھی ہیں۔ یہ آبزرویٹریز کوڈائی کنال، جنوب میں گوری بیڈانور اور شمال مغرب میں ادے پور میں واقع ہیں۔

پروفیسر رمیش کا کہنا ہے کہ اگر ہم ان آبزرویٹریز کے نتائج کا آدتیہ ایل-ون کے نتائج کے ساتھ مطالعہ کریں تو ہم سورج کے بارے میں اپنی سمجھ کو مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...