نو کلومیٹر لمبی نئی عسکری سرحد کی تعمیر: سیٹلائٹ تصاویر غزہ کی پٹی کے شمال میں نئی یہودی بستیوں کے قیام کی نشاندہی کر رہی ہیں؟
’Uses in Urdu‘ کی جانب سے سیٹلائٹ تصاویر کے تجزیے میں ظاہر ہوا ہے کہ اسرائیل غزہ کی پٹی کے انتہائی شمال میں ایک نئی ’ملٹری ڈیوائڈنگ لائن‘ بنا رہا ہے۔
’ملٹری ڈیوائڈنگ لائن‘ سے مراد دو علاقوں کے درمیان ایک ایسی تقسیم ہے جو یہ واضح کرتی ہے کہ کسی بھی مسلح تصادم یا جنگ کے دوران فریقین کے مابین محاذ کہاں تک تھا۔
شمالی غزہ اسرائیلی فوج کے قبضے میں ہے اور اب اسرائیلی فوج اس علاقے کو کلیئر کر رہی ہے۔ حالیہ سیٹلائٹ تصاویر اور ویڈیوز ظاہر کرتی ہیں کہ اسرائیل کی جانب سے بحیرہ روم اور اسرائیل کی سرحد کے درمیان موجود سینکڑوں عمارتوں کو منہدم کیا جا چکا ہے۔ ان عمارتوں میں سے بیشتر کو دھماکہ خیز مواد کی مدد سے زمین بوس کیا گیا ہے۔
تصاویر میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ اسرائیلی فوجی اور اُن کی گاڑیاں نئی ملٹری ڈیوائڈ لائن کے پار کھڑی ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تصاویر سے لگتا ہے کہ غزہ میں نئے ’زون‘ قائم کیے جا رہے ہیں تاکہ اسے مستقبل میں کنٹرول کرنے میں آسانی رہے۔
اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان نے Uses in Urdu کو بتایا کہ وہ شمالی غزہ میں ’دہشت گردوں اور اُن کے انفراسٹرکچر کو نشانہ بنا رہا ہے۔‘
Uses in Urdu نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے رسی تھنک ٹینک سے منسلک مشرق وسطیٰ کے سکیورٹی امور کے ماہر ڈاکٹر ایچ اے ہیلیر سے بات کی ہے جن کا کہنا ہے کہ بظاہر سیٹیلائٹ تصاویر سے لگتا ہے کہ اسرائیل فلسطینی شہریوں کو شمالی غزہ میں واپس جانے سے روکنے کی تیاری کر رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کے اسرائیل، حماس جنگ کی ابتدا کے بعد سے غزہ کے انتہائی شمال سے ایک لاکھ سے زیادہ لوگ اپنے گھروں سے بیدخل ہوئے ہیں۔
سیٹیلائٹ تصاویر سے ظاہر ہو رہا ہے کہ رواں سال اکتوبر کے آغاز سے ایک خاص ترتیب کے تحت شمالی غزہ کی پٹی میں سڑکوں کے درمیان عمارتوں کو منہدم کیا جا رہا ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں جنگ کے آغاز سے قبل غزہ کے شہری بستے تھے۔
غزہ میں مشرق سے مغرب تک قائم کی گئی یہ نئی ملٹری ڈیوائڈ لائن تقریباً 9 کلومیٹر طویل ہے۔ یہ غزہ شہر اور شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ، بیت حنون اور بیت لاہیہ کے درمیان قائم ہے۔
Uses in Urdu کو بتایا گیا ہے کہ جبالیہ اور غزہ سٹی کے درمیان عسکری اعتبار سے ایک اہم سٹریٹیجک راستہ ہے جو جبالیہ میں حماس کو نشانہ بنانے والی آپریشنل سرگرمیوں کا حصہ ہے۔
اسرائیلی فوج کی طرف سے فلمائی گئی اور آن لائن پوسٹ کی جانے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ رواں برس اکتوبر کے آغاز کے بعد سے اس علاقے میں کئی کثیر منزلہ عمارتوں کو کنٹرولڈ دھماکوں کی مدد سے تباہ کیا گیا ہے۔
نیچے والی تصویر میں آپ عمارتوں کو کنٹرولڈ دھماکوں سے اڑائے جانے کا منظر دیکھ سکتے ہیں۔
اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان نے Uses in Urdu کو بتایا کہ ان کا ایسا کوئی ارادہ نہیں کہ شہریوں کے لیے بنائے گئے انفراسٹرکچر کو تباہ کریں، سوائے تب جب حماس کو ختم کرنے کے لیے ایسا کرنا ’ضروری‘ ہو جائے۔
مزید فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج اپنی ’ہموی‘ گاڑیوں میں سوار اسرائیل سے نکل کر اُن علاقوں سے گزر رہی ہے جہاں عمارتیں زمین بوس کر دی گئی ہیں۔
ہموی گاڑیاں دیگر فوجی گاڑیوں کی طرح بھاری بکتر بند نہیں ہوتیں۔ روسی تھنک ٹینک کے ڈاکٹر ہیلیر نے Uses in Urdu کو بتایا کہ ہموی گاڑیوں کا استعمال تب ہی کیا جاتا ہے جب فوج کو اطمینان ہو کہ انھیں کسی قسم کا خطرہ نہیں ہے۔ ’اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ علاقہ اب اسرائیلی فوج کے قبضے میں ہے۔‘
کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اِن علاقوں میں اسرائیلی فوج کی موجودگی ایک مستقل ملٹری ڈیوائد لائن کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ اس نئی تقسیم کی بدولت اسرائیلی فوج شمالی غزہ اور اس کے باقی علاقوں کے درمیان آنے جانے والوں کو کنٹرول کر سکتی ہے۔
ڈاکٹر ہیلیر نے اسرائیلی فوج کے بارے میں کہا کہ ’وہ طویل مدتی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ مجھے پوری توقع ہے کہ شمال میں ہونے والی تقسیم بالکل نیٹزرم کوریڈور کی طرح ہی قائم ہو گی۔‘
Uses in Urdu نے ماضی میں رپورٹ کیا تھا کہ موجودہ جنگ کے آغاز کے بعد سے غزہ میں کس طرح دو پارٹیشنز (علیحدہ علیحدہ علاقے) بنائے گئے ہیں۔
نیٹزرم کوریڈور غزہ شہر کے جنوب میں ایک علاقے کو تقسیم کرتا ہے جبکہ فلاڈیلفی کوریڈور کی مدد سے اسرائیلی فوج غزہ کی مصر کے ساتھ سرحد کو کنٹرول کرتی ہے۔
شمال میں اب ہونے والی اس نئی تقسیم کے بارے میں Uses in Urdu کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ پچھلے ایک سال کے دوران تعمیر کیے گئے کوریڈورز اسی طرح قائم کیے گئے تھے۔ ان موجودہ اور نئی تعمیر شدہ سڑکوں کو جوڑا گیا اور وقفے وقفے سے ان سڑکوں پر فوج موجود ہوتی ہے۔
عمارتوں اور زرعی اراضی کا صفایہ کیا جاتا ہے تاکہ وہاں پکی سڑکیں اور فوجی انفراسٹرکچر تعمیر کیا جا سکے۔
قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی میں مہارت رکھنے والے اسرائیلی تھنک ٹینک سے منسلک ڈاکٹر یاڈو ایچٹ نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اعداد و شمار کے مطابق ایک نئی جنگ بندی لائن نظر آ رہی ہے لیکن انھیں شبہ ہے کہ آیا یہ مستقل ہو گی یا نہیں۔
غزہ شہر اور غزہ کی پٹی کے شمالی قصبوں کو الگ کرنے کے لیے ایک نیا کوریڈور قائم کیا گیا ہے۔ اس نئے کوریڈور کو قائم کرنے کا مقصد ہے کہ حماس اور دیگر تنظیموں سے مؤثر طریقے سے نمٹا جائے۔ حماس اور دیگر تنظیموں کے جنگجو ان علاقوں میں اپنے حمایتیوں کی موجودگی اور پسپائی اختیار کرنے کی وجہ سے لوٹ آئے ہیں۔
تاہم اسرائیل کی جانب سے ایسے کسی بھی ’جنرل جیورا پلان‘ کی تردید کی گئی ہے۔
یہ منصوبہ سابق جنرل جیورا ایلینڈ نے ترتیب دیا تھا۔ اس منصوبے کے مطابق شہریوں سے کہا گیا کہ وہ شمالی غزہ چھوڑ دیں۔ روزمرہ کی اشیاء کی سپلائی روک دی جائے گی اور یہ علاقہ مکمل طور پر ایک ملٹری زون بن جائے گا۔
تاہم جو لوگ یہ علاقہ نہیں چھوڑیں گے انھیں ’جنگجو‘ سمجھا جائے گا اور ان کے سامنے ’ہتھیار ڈالنے یا بھوک سے مرنے‘ کا مشکل انتخاب ہوگا۔ اس حکمت عملی کا مقصد حماس پر اسرائیلی یرغمالیوں کو آزاد کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا تھا۔
Uses in Urdu کو ایک بیان میں اسرائیلی فوج کے ترجمان نے بتایا کہ ’اسرائیلی فوج ترتیب شدہ فوجی منصوبوں کے مطابق کام کرتی ہے۔ تاہم یہ دعویٰ غلط ہے کہ اسرائیلی فوج اس مخصوص منصوبے پر عمل کر رہی ہے۔‘
لیکن شمالی غزہ کے محصور قصبوں میں رہنے والے ہزاروں فلسطینی شہریوں کی حفاظت کے حوالے سے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
اقوام متحدہ اور امدادی تنظیموں نے غزہ کی شمالی صورتحال پر خاصی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اگرچہ ہزاروں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، لیکن اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 65 ہزار سے زیادہ لوگوں کا ابھی بھی علاقے میں موجودگی کا امکان ہے۔
20 نومبر کو اقوام متحدہ نے یہ بھی بتایا کہ 40 دن ہو گئے ہیں کہ شمالی غزہ کے کچھ حصوں میں ’عملی طور پر کوئی امداد‘ نہیں پہنچ سکی ہے۔
26 نومبر کو اقوام متحدہ کے ایک ترجمان نے کہا کہ فلسطینیوں کو ناکہ بندی کی وجہ سے ’اشیائے ضروریہ کی شدید قلت کے ساتھ ساتھ شدید حفظان صحت کے ناقص حالات‘ کا سامنا ہے۔
نومبر 2024 کے آغاز میں اقوام متحدہ کے حمایت یافتہ ایک جائزے میں کہا گیا کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ شمالی غزہ کے محصور علاقوں میں قحط پڑنے والا ہے۔
Uses in Urdu کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ شمالی غزہ کا تقریباً 90 فیصد حصہ اکتوبر کے آغاز سے انخلا کے احکامات سے مشروط ہے۔
سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز میں نظر آ رہا ہے کہ لوگوں کو نئے پارٹیشن کے جنوب میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ ان کی واپسی کب ہوگی یا اس کا کوئی امکان ہے یا نہیں، لیکن اسرائیل کے وزیر خارجہ نے اصرار کیا ہے کہ جنگ کے بعد شہریوں کو واپس جانے کی اجازت دی جائے گی۔
سیٹلائٹ تصاویر شمالی غزہ میں لوگوں کی نقل مکانی کو ظاہر کرتی ہیں۔
عارضی پناہ گاہ کے طور پر قائم کیے گئے خیموں کے بڑے گروپ غائب ہو رہے ہیں۔ جو علاقے شہریوں نے چھوڑے تھے ان میں اب تباہ شدہ عمارتیں اور فوجی سرگرمیاں نظر آ رہی ہیں۔
بظاہر یہی لگتا ہے کہ اسرائیلی فوج ہلکی بکتر بند گاڑیوں میں سفر کر رہی ہے اور اس کے لیے اسرائیلی فوج کا علاقے میں کافی کنٹرول قائم ہو چکا ہے۔ تاہم اس علاقے میں اسرائیلی فوج کے دستوں اور حماس کے جنگجوؤں کے درمیان شدید لڑائی بھی جاری ہے۔
حماس کے جنگجوؤں کی طرف سے پوسٹ کی گئی ویڈیوز میں جنگ بندی لائن کے ارد گرد کے علاقے میں اسرائیلی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ جھڑپیں دکھائی دے رہی ہیں۔
ماہرین اس بات پر متفق نہیں ہیں کہ نئی تقسیم کتنی دیر تک قائم رہے گی۔
تاہم ڈاکٹر ہیلیر نے تجویز پیش کی ہے کہ یہ فلسطینیوں کو علاقے سے مستقل طور پر بے دخل کرنے کے منصوبے کی بنیاد بن سکتا ہے۔
انھوں نے کہا ’میری ذاتی رائے ہے کہ شاید اگلے 18 مہینوں میں وہ یہودی آباد کاروں کو شمال میں بسانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ انھیں بستیاں (settlments) نہیں کہیں گے۔ شروع میں وہ انھیں چوکی کہیں گے یا جو بھی کہہ لیں، لیکن یہ بستیاں ہی ہوں گی اور پھیلتی چلی جائیں گی۔‘
اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے وزیر خزانہ بیزالیل سموٹریک نے کہا ہے کہ فوجیوں کو غزہ پر قبضہ کرنا چاہیے اور تقریباً نصف فلسطینی شہریوں پر دو سال کے اندر علاقہ چھوڑنے پر ’زور‘ دینا چاہیے۔
لیکن اسرائیلی حکومت اس بات کی تردید کرتی ہے کہ وہ جنگ ختم ہونے کے بعد غزہ میں بستیاں تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ڈاکٹر ہیخت کے مطابق بھی اس طرح کی تجاویز کچھ انتہائی قوم پرست وزرا کے لیے ’خواب‘ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
ڈاکٹر ہیچٹ نے کہا کہ تینوں کوریڈورز (جنوب میں فلاڈیلفی، غزہ شہر کے بالکل جنوب میں نیٹزاریم اور غزہ شہر کے بالکل شمال میں نئی راہداری) صرف کنٹرول کے مقاصد کے لیے تعمیر کی گئی ہیں۔
'ان کے وجود کی مدت کا انحصار اس بات پر ہے کہ جنگ کب ختم ہوتی ہے اور کس انداز میں ختم ہوتی ہے۔'