میری بیٹی آپ کو انکل سمجھتی تھی، آپ نے اسے کھلونے کی طرح استعمال کیا: آسٹریلیا میں درجنوں بچیوں کے ریپ کا مجرم عمر قید کی سزا یافتہ
آسٹریلیا کی ایک عدالت نے ایک 47 سالہ سابق چائلڈ کیئر ورکر کو چھ درجن سے زیادہ بچیوں کا ریپ اور جنسی استحصال کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزا سُنا دی ہے۔
ایشلے پال گریفتھ کو ملک کی تاریخ کا 'بدترین پیڈوفائل' قرار دیا گیا ہے اور انھیں تقریباً 70 بچیوں کا ریپ کرنے اور ان پر جنسی تشدد کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ جن بچیوں کو انھوں نے نشانہ بنایا ان کی عمریں ایک سال سے سات سال کے درمیان تھیں۔
ایشلے گریفتھ بطور چائلڈ کیئر ورکر کوئنزلینڈ کے متعدد چائلد کیئر سینٹرز (بچوں کی نگہداشت کے لیے قائم مراکز) میں کام کرتے رہے ہیں، جبکہ سنہ 2022 اور سنہ 2023 کے دوران انھوں نے بیرون ملک بھی کام کیا ہے۔
انھوں نے عدالت میں 307 جرائم کے ارتکاب کا اقرار کیا تھا۔
جمعے کو برسبین ڈسٹرکٹ کورٹ میں مقدمے کی سماعت کے دوران جج سمتھ جج پال سمتھ نے مجرم کو عمر قید کی سزا سناتے ہوئے کہا کہ جرائم کا پیمانہ اور نوعیت اتنی 'خوفناک' ہے کہ اس سے لوگوں کے 'اعتماد کی دھجیاں اڑ گئی ہیں۔'
Uses in Urdu کی معلومات کے مطابق اس کیس کے علاوہ ایشلے گریفتھ پر آسٹریلیا کی ریاست نیو ساؤتھ ویلز اور اٹلی میں بھی دو درجن سے زائد بچوں پر جنسی تشدد کے الگ الزامات ہیں۔
سماعت کے دوران بتایا گیا کہ ایشلے گریفتھ کو 'پیڈوفیلک ڈس آرڈر' یعنی بچوں کا ریپ اور جنسی تشدد کرنے کی ذہنی بیماری ہے۔
جج سمتھ نے کہا کہ عین ممکن ہے کہ ایشلے دوبارہ یہ جرم کریں۔ اس پس منظر میں انھیں کم از کم 27 سال قید میں گزارنے ہوں گے جس کے بعد ہی انھیں پیرول کے لیے درخواست دینے کی اجازت ہو گی۔
ایشلے گریفتھ کو پہلی بار اگست 2022 میں آسٹریلیا کی وفاقی پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ ایک سال بعد ان پر ایک ہزار 600 سے زیادہ بچوں کو جنسی جرائم کا نشانہ بنانے کا الزام بھی لگا تھا۔ تاہم بعد میں ان میں سے زیادہ تر الزامات کو بالآخر ختم کر دیا گیا تھا۔
انتباہ: تحریر میں شامل تفصیلات بعض قارئین کے لیے پریشانی کا سبب بن سکتی ہیں
تفتیش کاروں کو ایشلے گریفتھ کے پاس بچیوں پر کیے گئے تشدد کی ایسی ہزاروں تصاویر اور ویڈیوز ملی تھیں جو کیمرے میں انھوں نے خود نظر بند کی تھیں اور پھر انھیں ڈارک ویب پر اپ لوڈ کیا تھا۔
اگرچہ فوٹیج میں بچیوں کے چہرے نظر نہیں آ رہے تھے لیکن کچھ ویڈیوز میں بستر پر بچھی چادروں کے سبب تفتیش کار ایشلے گریفتھ کا سراغ لگانے میں کامیاب ہوئے۔
یہ چادریں کوئنزلینڈ کے چائلڈ کیئر سینٹرز کو فروخت کی گئی تھیں۔
ایشلے گریفتھ نے اعتراف جرم کرتے ہوئے ریپ کے 28 الزامات کو قبول کیا تھا۔ اس کے علاوہ انھوں نے تقریباً 200 ایسے الزامات بھی قبول کیے جن کے مطابق وہ بچوں کے ساتھ بدسلوکی سے پیش آئے۔
اُن کی بنائی ہوئی ویڈیوز میں نظر آنے والی چار لڑکیاں اٹلی کے شہر پیسا کے ایک چائلڈ کیئر سینٹر میں موجود تھیں جبکہ انھوں نے برسبین کے 11 مقامات پر 65 متاثرین کو اپنے جرائم کا نشانہ بنایا۔
عدالت نے ایشلے گریفتھ کے جرائم سے متاثر ہونے والی بچیوں اور ان کے والدین میں سے کچھ کے بیانات سنے۔ تاہم قانونی وجوہات کی بنا پر ان والدین اور بچیوں کی شناخت ظاہر نہیں کی جا سکتی ہے۔
متاثرین میں دو بہنیں بھی شامل ہیں جو اُس وقت کنڈرگارٹن میں تھیں اور ان میں سے ایک بچی ایشلے گریفتھ کو اپنا پسندیدہ استاد مانتی تھی۔
دی کورئیر میل اخبار کے مطابق ان میں سے ایک بہن نے عدالت کو بتایا کہ 'یہ جاننا کہ اُس وقت (ایشلے) کیا کر رہے تھے میرے لیے بہت تباہ کن تھا۔۔۔ مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آ رہا کہ میں اس صدمے سے کیسے باہر آؤں۔ مجھے جو یاد ہے اور جو حقیقت میں ہوا اس میں بہت تضاد ہے۔'
ایک اور خاتون نے بتایا کہ کس طرح ایشلے کے اعمال نے اُن سے ان کا بچپن چھین لیا اور کس طرح وہ برسوں سے ذہنی بیماری کا شکار ہیں۔
دی گارڈین آسٹریلیا کی رپورٹ کے مطابق انھوں نے عدالت کو بتایا کہ 'میں کبھی نہیں جان پاؤں گی کہ میری زندگی کیسی ہوتی اگر میرے ساتھ یہ سب نہ ہوا ہوتا۔'
'مجھے کبھی پتا نہیں چلے گا کہ لوگوں سے بے خوف رہ کر بڑا ہونا کیسا ہوتا ہے۔'
والدین نے بھی عدالت کو سماعت کے دوران اپنی تکلیف کے بارے میں بتایا کہ ان پر کیا گزری جب انھیں اپنے بچوں کے ساتھ ہوئے ان مظالم کے بارے میں علم ہوا۔
ان میں سے کئی والدین نے کہا کہ ایشلے گریفتھ پر اعتماد کرنے پر وہ خود کو کبھی معاف نہیں کر پائیں گے۔
نیوز کور آسٹریلیا کی رپورٹ کے مطابق والدین میں سے ایک نے عدالت کو بتایا کہ '(میری بیٹی) آپ (ایشلے) کو اپنے انکل کی طرح سمجھتی تھی اور آپ نے اسے کھلونے کی طرح استعمال کیا۔'
والدین میں سے ایک اور فرد نے کہا کہ وہ اپنی بیٹی پر ہونے والے تشدد کے بوجھ سے اسے بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گی۔
کوریئر میل کے مطابق، انہوں نے کہا کہ 'آپ نے میری بیٹی کے جسم کے ساتھ جو کچھ کیا، اس تکلیف سے تو میں اب اسے محفوظ نہیں رکھ سکتی، لیکن اس کے ذہن کو کسی بھی نقصان سے بچانے کے لیے آخری حد تک کوشش کروں گی۔'
متاثرہ بچیوں کے والدین نے مطالبہ کیا کہ آسٹریلیا میں چائلڈ کیئر سینٹرز اور بچوں کی نگہداشت کے نظام کی بھی تحقیقات کی جائیں، جس میں ایشلے گریفیتھ نے طویل عرصے تک بغیر کسی کی نظروں میں یہ کام کیا۔
ایک متاثرہ بچی کے والد نے رپورٹرز سے کہا کہ 'آج بھی والدین اس غلط فہمی کے ساتھ اپنے بچوں کو چائلڈ کیئر سینٹرز میں چھوڑ رہے ہیں کہ وہ یہاں محفوظ رہیں گے۔'