خیبرپختونخوا سے ڈی چوک کیلئے پی ٹی آئی کا ہجوم نکلا تو ابتدائی طور پر ہی سب کے ہاتھ پائوں پھول گئے تھے کیونکہ ۔ ۔ ۔‘ سینئر صحافی نے اندر کی بات بتادی

لاک ڈاؤن کے باوجود پی ٹی آئی کارکنان کا دارالحکومت پہنچنا
اسلام آباد (ویب ڈیسک) ملک کو کئی روز کیلئے لاک کیے جانے کے باوجود پی ٹی آئی کے کارکنان کسی نہ کسی طرح وفاقی دارالحکومت پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ جہاں سے متضاد دعوے سامنے آئے، اب سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے بھی اس پر روشنی ڈالی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سپورٹس بورڈ پنجاب کے زیراہتمام کھیلتا پنجاب گیمز کے دلچسپ مقابلے جاری
سہیل وڑائچ کا تجزیہ
روزنامہ جنگ میں چھپنے والے اپنے کالم میں سہیل وڑائچ نے لکھا کہ 'پختونخوامیں لوگوں کا اکٹھ ہوا مارچ چلنا شروع ہوا تو اہل اقتدار کے فوراً کان کھڑے ہوگئے۔ دو چیزیں ان کی نظر میں بہت خطرناک تھیں: ایک تو 35 ہزار افراد کا پرجوش ہجوم جو زیادہ تر نوجوان تھے اور دوسری طرف بشریٰ بی بی کی جلوس میں موجودگی۔ بشریٰ بی بی کا اہل اقتدار کے پاس نہ کنٹرول تھا اور نہ اس کا کوئی اندازہ تھا کہ وہ کیا کرڈالے گی۔
یہ بھی پڑھیں: محکمہ داخلہ میں اہم اجلاس، کیڈٹ کالج عیسیٰ خیل میانوالی کی سیکیورٹی کیلئے رینجرز کی تعیناتی کی منظوری
ریاست کی تیاری اور حکمت عملی
ریاست کے پاس ایسے جدید آلات آگئے ہیں کہ وہ فضا سے یہ جائزہ لے سکتے ہیں کہ ہجوم کا سائز کتنا ہے۔ جب 35 ہزار کے جلوس کی اطلاع ملی تو ابتدائی طور پر سب کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ جلوس والے حکومت اور مقتدرہ کو تگنی کا ناچ نچانا چاہتے تھے جبکہ مقتدرہ انہیں جال میں پھنسانا چاہتی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: بارشوں کے نئے سلسلے کی پیشگوئی: وسطی و جنوبی پنجاب اور دیگر علاقوں میں کیا ہونے والا ہے؟
ڈی چوک کا ہجوم اور سرپرائز
یہاں تحریک انصاف اور بشریٰ بی بی نے ریاست کو ایک زبردست سرپرائز دیا۔ ریاست کی تیاری یہ تھی کہ جلوس ایک دن بعد ڈی چوک پہنچے گا مگر مظاہرین نے شدید دباؤ ڈالا اور حکومت کی توقعات کے برخلاف ایک دن پہلے ہی ڈی چوک پہنچ گئے۔
یہ بھی پڑھیں: سونے کی فی تولہ قیمت 2100 روپے کا اضافہ
مظاہرین کے حوصلے اور حکومتی منصوبہ بندی
اسلام آباد میں داخل ہوتے ہی بشریٰ بی بی اور مظاہرین کے حوصلے بلند ہوگئے۔ ہم میڈیا والے یہ تاثر دے رہے تھے کہ جذبہ، جنون جیت گیا ناکے اور پابندیاں ہار گئیں۔
یہ بھی پڑھیں: ننکانہ صاحب میں 15 نومبر کو ضلع بھر میں عام تعطیل کا اعلان
آخری لمحات میں فیصلہ سازی
دیگر ایجنڈوں کے ساتھ ساتھ رات 9 بجے فضا میں اڑنے والے ہیلی کاپٹر نے اطلاع دی کہ مجمع چھٹنا شروع ہو گیا ہے اور اب یہ تعداد 35 ہزار سے کم ہو کر 15 ہزار رہ چکی ہے۔ فوری طور پر آپریشن کی تیاری شروع کر دی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: چیئر مین ایف بی آر کیلئے بڑا سیٹ بیک ،کسٹمز میں کی جانے والی بڑی تبدیلیوں کا فیصلہ 10 روز بعد ہی واپس
آپریشن کا آغاز
آپریشن کا آغاز آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں سے کیا گیا، فیصلہ یہ تھا کہ مظاہرین کو بھاگنے کا موقع دیا جائے گا۔ جب سامنے سے 3 ہزار اہلکاروں پر مشتمل تازہ دم دستے نے حملہ کیا، تو بھوکے اور تھکے ہوئے لوگوں کے پاس سوائے پیچھے کو بھاگنے کا کوئی راستہ نہ تھا۔
یہ بھی پڑھیں: موت زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے: ڈاکٹر حسین قادری کا دعائیہ تقریب سے خطاب
انسانی جانوں کا ضیاع
ڈی چوک آپریشن کے حوالے سے سب سے زیادہ زیر بحث موضوع انسانی جانوں کا ضیاع ہے۔ انسانی جان تو ایک بھی جائے تو ناقابل تلافی نقصان ہے مگر پی ٹی آئی اور اس کے حامی یوٹیوبرز نے تواتر کے ساتھ اس قدر جھوٹ بولے ہیں کہ ان کے دعووں پر یقین کرنا مشکل ہے۔
کمیشن کا قیام
لاشیں تو ابھی 6 ملی ہیں جن کو جاننے کیلئے تحریک انصاف کے چیئرمین گوہر علی کی سربراہی میں کمیشن بنا دیا جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔