کراچی کی ہائی سوسائٹی کا سکینڈل: ایک پراسرار موت کا معاملہ

یہ 13 اکتوبر 1970 کی بات ہے۔ آدھی رات کا وقت تھا۔ کراچی کے ٹیلی فون ایکسچینج پر ایک شکایت موصول ہوئی کہ ٹیلی فون نمبر 417935 پر رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہو رہا ہے۔

لائن چیک کرنے کے بعد شکایت کنندہ کو بتایا گیا کہ فون ’انگیجڈ‘ یعنی مصروف ہے۔ جس شخص سے فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی اس کا نام سید مصطفیٰ حسنین زیدی تھا۔

زیدی نے چند روز قبل ہی اپنی 40ویں سالگرہ منائی تھی۔ مصطفیٰ زیدی کے ایک دوست شاہد عابدی بھی فون پر ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے کیونکہ سلیم نامی ایک شخص ان کے گھر آئے ہوئے تھے۔

سلیم کا مسئلہ یہ تھا کہ ان کی بیوی پچھلے چند گھنٹوں سے لاپتہ تھی۔ ان کی عمر 26 سال تھی اور ان کا نام شہناز گل تھا۔

سلیم بدنامی کے ڈر سے شہناز کی گمشدگی کی اطلاع پولیس کو نہیں دینا چاہتے تھے۔ انھیں شک تھا کہ شاید شہناز مصطفیٰ کے ساتھ ہی ہے، اس لیے وہ مصطفیٰ کا پتہ پوچھنے شاہد کے گھر پہنچ گئے تھے۔

سلیم رات کے دو بجے مصطفیٰ کے گھر پہنچے۔ انھوں نے چوکیدار سے پوچھا کہ مصطفیٰ کہاں ہیں؟ چوکیدار نے انھیں بتایا کہ وہ اپنے بیڈ روم میں سو رہے ہیں۔ دروازے پر دستک دی گئی لیکن اندر سے کوئی آواز نہیں آئی۔

باہر سے ایئر کنڈیشنر کے چلنے کی آواز سنائی دے رہی تھی اور مصطفیٰ کی گاڑی گیراج میں ہی کھڑی تھی۔ سلیم یہ دیکھ واپس گھر لوٹ آئے۔

انھوں نے وہ رات بڑی بے چینی میں گزاری۔ اگلے دن صبح ساڑھے سات بجے انھوں نے ایک بار پھر مصطفیٰ کو فون کرنے کی ناکام کوشش کی اور بالآخر پولیس کو اپنی اہلیہ کی گمشدگی کی اطلاع کر دی۔

پولیس مصطفیٰ کے گھر پہنچی اور ان کے گھر کا دروازہ توڑا تو بیڈ پر مصطفیٰ کی لاش خون میں لت پت پڑی تھی، ناک اور منہ سے خون نکل رہا تھا لیکن جسم پر کوئی زخم نہیں تھا۔ ان کا فون نیچے لٹکا ہوا تھا۔

اسی گھر میں پولیس کو ایک کمرے کے باہر دالان میں ایک خاتون بے ہوش پڑی ملیں۔ یہ شہناز گل تھیں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب مشرقی پاکستان علیحدہ ہونے کو تھا۔

اس واقعے کے بعد پاکستان میں شہناز گل کا نام تقریباً دو سال تک اخبارات کی سرخیوں میں رہا۔ ان پر شاعر مصطفیٰ زیدی کے پراسرار قتل کا الزام لگایا گیا۔ لیکن عدالت نے چند سال بعد شہناز کو قتل کے الزام سے بری کر دیا۔

پاکستانی اخبارات کے صفحۂ اول پر چھائی رہنے والی شہناز گل اب اس دنیا میں نہیں لیکن آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ مشہور شاعر، جوش ملیح آبادی کے شاگرد اور فیض احمد فیض کے دوست، مصطفی حسنین زیدی کی وفات کیسے ہوئی۔

شہناز گل کی انٹری

شہناز گل کی انٹری

اس واقعے پر حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’سوسائٹی گرل، اے ٹیل آف سیکس، لائز اینڈ سکینڈل‘ کی مصنفہ طوبیٰ مسعود خان کہتی ہیں کہ ’ان دنوں مصطفیٰ زیدی بہت پریشان تھے اور وہ شہناز گل سے ملنا چاہتے تھے لیکن شہناز انھیں ٹال رہی تھیں۔ ان کے اصرار پر شہناز ان سے ملنے چلی گئیں۔‘

اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ آج بھی ایک معمہ ہے۔

یہ موت کسی عام آدمی کی نہیں تھی۔ کچھ عرصہ پہلے تک مصطفیٰ زیدی لاہور کے ڈپٹی کمشنر ہوا کرتے تھے۔ ان کا شمار پاکستان کے ممتاز شاعروں میں ہوتا تھا اور مشہور شاعر جوش ملیح آبادی ان کے استاد تھے۔

خیر بے ہوش شہناز کو فوری طور پر جناح ہسپتال لے جایا گیا۔ ان کے شوہر سلیم اس وقت ان کے ساتھ تھے۔ جب مصطفیٰ کی لاش ملی تو انھوں نے نیلے رنگ کی قمیض پہن رکھی تھی جو ان کی پتلون میں اڑسی ہوئی تھی۔ ان کا بایاں ہاتھ پیٹ پر تھا اور قمیض کے بٹن کھلے ہوئے تھے۔

مصطفیٰ کے بھتیجے شاہد رضا نے عدالت میں اپنی گواہی میں کہا کہ ’کمرے کا فرنیچر خراب تھا۔ صوفہ الٹا ہوا تھا اور لیمپ گر چکا تھا۔ چار درجن کے قریب نیفتھلین کی گولیاں بستر اور فرش پر بکھری ہوئی تھیں۔ کچھ پیالیاں تھیں جن میں کچھ کافی بچی ہوئی تھی۔ فون کے پاس نیلے رنگ کی تین چھوٹی گولیاں تھیں اور کچھ کاغذات بکھرے ہوئے تھے جن پر مصطفیٰ بظاہر جرمن زبان میں کچھ الفاظ لکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔‘

مصطفیٰ کی وفات کی خبر سن کر معروف شاعر فیض احمد فیض بھی وہاں پہنچ گئے۔ مصطفیٰ کی لاش کا معائنہ کرنے والے ڈاکٹر نے بتایا کہ ان کی موت 18 سے 24 گھنٹے قبل ہوئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ: اسرائیل کو ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنا چاہیے

ہر دل عزیز شاعر اور معطل افسر

ہر دل عزیز شاعر اور معطل افسر

مصطفیٰ زیدی انڈیا کے شہر الہ آباد کے رہنے والے تھے اور پاکستان جانے سے پہلے وہ تیغ الہ آبادی کے تخلص سے شاعری کرتے تھے۔

’سوسائٹی گرل‘ کی شریک مصنفہ صبا امتیاز کہتی ہیں کہ ’ان کا پہلا شعری مجموعہ زنجیریں 1947 میں شائع ہوا، جس کا دیباچہ مشہور شاعر فراق گورکھپوری نے لکھا تھا۔ وہ چھوٹی عمر سے ہی کافی مشہور ہو گئے تھے اور ترقی پسند سوچ رکھتے تھے۔ وہ مارکسزم پر یقین رکھتے تھے۔ انھوں نے الہ آباد کے مشاعروں میں شرکت کرنا شروع کر دی تھی۔‘

انھوں نے تقسیم ہند کے بعد پاکستان آ کر پہلے ایک کالج میں پڑھایا اور پھر سنہ 1954 میں پاکستان سول سروس میں منتخب ہو گئے۔ مصطفیٰ زیدی کو ایک باصلاحیت افسر سمجھا جاتا تھا اور انھیں ’تمغہ قائد اعظم‘ سے بھی نوازا گیا تھا۔

انھوں نے سنہ 1957 میں ایک جرمن خاتون ویرا سے شادی کی جس سے ان کے دو بچے ہوئے۔

صبا امتیاز کہتی ہیں کہ ’دسمبر سنہ 1969 میں حکومت پاکستان نے سول سروس کے 303 افسران کو معطل کر دیا۔ مصطفی زیدی ان میں سے ایک تھے۔ ان پر کرپشن کا الزام تھا لیکن یہ الزام ثابت نہیں ہو سکا تھا۔‘

جناح ہسپتال میں جب شہناز گل کے معدے کی صفائی کی گئی تو معلوم ہوا کہ انھوں نے لائبریئم کی گولیاں کھا رکھی ہیں جو کہ ویلیئم جیسی ہوتی ہیں۔ انھوں نے پولیس کو بتایا کہ انھیں سوائے اس کے کچھ یاد نہیں کہ وہ مصطفیٰ سے ملنے گئی تھیں۔

ہسپتال میں بھی انھوں نے وہی کالے کپڑے پہنے ہوئے تھے جس میں وہ مصطفیٰ کے گھر سے ملی تھیں۔ ان کے بال بکھرے ہوئے تھے اور چہرہ پھولا ہوا تھا۔

ایک دن بعد ان کے شوہر سلیم انھیں ہسپتال سے گھر لے آئے۔

صبا امتیاز کہتی ہیں کہ ’شہناز گل بہت خوبصورت خاتون تھیں۔ اس واقعے کو 54 سال گزرنے کے بعد بھی لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان میں ان جیسی خوبصورت عورت کسی نے نہیں دیکھی۔ ان کے شوہر سلیم ان سے کم از کم 30 سال بڑے تھے۔ سلیم کی پہلی شادی ایک انگریز خاتون سے ہوئی تھی۔ وہ پہلے انڈین فوج میں تھے لیکن تقسیم کے بعد انھوں نے فوج سے استعفیٰ دے دیا تھا۔‘

شہناز سے شادی کے وقت ان کی عمر 46 سال تھی جبکہ شہناز کی عمر صرف 17 سال تھی۔

صبا کہتی ہیں کہ ’شہناز کو کسی حد تک شاعری کا بھی شوق تھا۔ انھیں پارٹیوں میں جانا پسند تھا۔ لوگ ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا پسند کرتے تھے۔ شہناز کی پہلی اولاد 1964 میں ہوئی۔ اسی دوران وہ لاہور سے کراچی میں رہنے چلی آئی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: ملک کے مختلف شہروں میں گرج چمک کے ساتھ بارش کی پیشگوئی

مصطفیٰ اور شہناز کی ملاقات

مصطفیٰ اور شہناز کی ملاقات

مصطفی زیدی جب سرکاری ملازم تھے تو وہ اکثر کراچی جایا کرتے تھے۔ شہناز اور سلیم کی پہلی ملاقات سید مصطفی حسنین زیدی سے سندھ کلب میں ہوئی تھی۔

صبا امتیاز کا مزید کہنا ہے کہ ’مصطفی زیدی نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ وہ شہناز کو بہت پسند کرتے ہیں۔ جب وہ اپنے دوستوں کے ساتھ پکنک پر جاتے تو اکثر شہناز گل اور ان کے شوہر بھی ساتھ ہوتے تھے۔‘

’مصطفیٰ کو ان کے قریبی دوستوں نے سمجھایا کہ شہناز شادی شدہ ہیں ان سے تعلقات استوار کرنے سے پہلے وہ اچھی طرح سوچ لیں، لیکن مصطفیٰ نے کسی کی نہیں سنی۔‘

پھر جب مصطفیٰ لاہور سے کراچی منتقل ہوئے تو وہاں دونوں کے تعلقات مزید گہرے ہوگئے۔

صبا کہتی ہیں کہ 'ہماری تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی بھی مرحلے پر شہناز گل مصطفی زیدی کے لیے اپنی فیملی کو چھوڑنے کا ارادہ نہیں رکھتی تھیں۔'

پہلی ملاقات کے بعد مصطفیٰ اور شہناز اکثر ملنے لگے۔ مصطفیٰ کو جاننے والے لوگ کہتے ہیں کہ انہیں خواتین کے ساتھ فلرٹ کرنے کا شوق تھا۔

صبا کا کہنا ہے کہ 'مصطفیٰ شہناز کو محبت سے لالی کہتے تھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ جب بھی وہ شرماتی تھیں تو ان کے گال بالکل سرخ ہو جاتے تھے۔'

طوبیٰ مسعود کہتی ہیں کہ 'مصطفیٰ کے دوستوں کا کہنا ہے کہ وہ خواتین کے تعلقات کے ذریعے خود کو بہتر محسوس کرتے تھے اور اس سے ان کی انا کو تسکین ملتی تھی۔ انہیں شاید یہ وہم بھی تھا کہ ان کی جرمن بیوی ان کی اس عادت پر ناراض نہیں ہوں گی۔ وہ اپنے دوستوں کو اپنے غیر ازدواجی تعلقات کی منطقی وجوہات بھی بتاتے تھے۔'

فیض احمد فیض کی بیٹی سلیمہ نے صبا کو بتایا کہ مصطفیٰ فرانسیسی ناول نگار François Sagan کے ناول 'Bonzo Tristes' اور اس کے متوازی اخلاقیات سے بہت متاثر تھے۔

اس کیس کی تفتیش کرنے والے ڈی ایس پی عبدالرشید کو مصطفیٰ کی الماری سے ایک بریف کیس ملا جس میں ایک پستول اور 25 گولیاں تھیں۔

اس کے علاوہ اس میں 'کراچی کی کرسٹین کیلر شہناز' کے عنوان سے پمفلٹ موجود تھے۔ ان پمفلٹ میں شہناز کی تصویریں شامل تھیں۔

صبا امتیاز بتاتی ہیں کہ 'مصطفیٰ کی موت سے چند ماہ قبل، شہناز یورپ گئی تھیں۔ اس دوران مصطفیٰ کو لگا کہ شہناز کا ان کے ساتھ رویہ بدل گیا ہے۔ نہ وہ فون پر بات کرتی تھیں اور نہ ہی وہ ان کے کسی خط کا جواب دے رہی تھیں۔ اس کے بعد ان کا رویہ غصے اور انتقام میں بدل گیا۔'

صبا مزید کہتی ہیں کہ 'ان کے پاس شہناز کی کچھ تصویریں تھیں۔ کراچی کے ایک پرنٹنگ پریس میں ان کے چار ہزار پمفلٹ چھاپے گئے، جن میں انہوں نے شہناز کو 'کراچی کی کرسٹین کیلر' کہہ کر پکارتے ہوئے لکھا کہ وہ پاکستان کی ہائی سوسائٹی اور اس کے کرداروں کو بے نقاب کریں گے۔ یہ پمفلٹ وہ پرنٹ کروانے میں تو کامیاب رہے لیکن تقسیم نہیں کیے۔ انہوں نے یہ پمفلٹ اپنے ایک دوست کو دکھائے، لیکن اس نے کہا کہ تم یہ سب چھوڑ دو۔'

کرسٹین کیلر کے 1963 میں برطانوی وزیر جان پروفومو کے ساتھ تعلقات تھے۔ بعد میں انکشاف ہوا کہ کیلر کے لندن میں سوویت نیول اتاشی کے ساتھ بھی تعلقات تھے۔

اس سکینڈل کی وجہ سے پروفومو کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔

کیلر اس وقت کے صدر پاکستان ایوب خان کی دوست بھی تھیں اور اس وقت برطانوی جریدوں کے مطابق دونوں کو پول پارٹی کے دوران ایک ہی سوئمنگ پول میں دیکھا گیا تھا۔

ان دنوں مارننگ نیوز کے نمائندے ایس کے پاشا نے شہناز گل کا انٹرویو کیا تھا۔

پاشا نے لکھا تھا کہ ’ان کا خوبصورت چہرہ زرد پڑ چکا تھا۔ نیند کی گولیوں کے بوجھ تلے ان کی بادامی آنکھیں بوجھل ہو رہی تھیں۔ وہ معصومیت کی مورت نظر آ رہی تھیں۔ وہ سادہ انگریزی میں بات کر رہی تھیں۔ شہناز نے بتایا کہ ان کی اور مصطفیٰ کی تھوڑی سی جان پہچان تھی اور ان کے کبھی جنسی تعلقات نہیں تھے۔‘

انھوں نے انٹرویو میں پولیس کو دیے گئے بیانات پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

مصطفیٰ کی موت کے دو ہفتے بعد پولیس نے پریس کانفرنس کی اور کہا کہ وہ مصطفیٰ زیدی کی موت کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کر رہی ہے۔ لیکن اس دوران کئی سوالات اٹھ رہے تھے۔

کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ اس کیس میں کچھ بھی پیچیدہ نہیں ہے اور یہ دراصل خودکشی ہے جبکہ کچھ کا خیال تھا کہ مصطفیٰ کی موت کے پیچھے شہناز کا ہاتھ تھا۔

پورے پاکستان میں یہ تاثر زور پکڑنے لگا کہ پولیس شہناز کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔

مصطفیٰ کے بھائی ارتضیٰ زیدی نے سوال اٹھایا کہ ’مصطفیٰ نے موت کے وقت ایسے کپڑے پہن رکھے تھے جیسے وہ کہیں جا رہے ہوں۔ اگر یہ خودکشی تھی تو شہناز اور مصطفیٰ نے ایک ہی زہر کیوں نہیں پیا؟‘

دریں اثنا سندھ اور بلوچستان ہائی کورٹ کے سینیئر جج عبدالقادر شیخ نے ایک غیرمتوقع قدم اٹھاتے ہوئے سندھ پولیس کے سربراہ کو اس کیس کی اب تک کی گئی تحقیقاتی رپورٹ اپنے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا۔

نتیجہ یہ ہوا کہ پانچ نومبر 1970 کو مصطفیٰ کے قتل کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ درج ہوئی اور شہناز کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

اسی رات کرائم برانچ کے اہلکار شہناز کو گرفتار کرنے کے لیے ان کے گھر پہنچے۔

مارننگ سٹار نے اپنے سات نومبر 1970 کے شمارے میں لکھا کہ ’جب پولیس شہناز گل کے گھر پہنچی تو وہ سو رہی تھیں۔ جب انھیں بتایا گیا کہ انھیں مصطفی زیدی کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا جا رہا ہے تو وہ بے ہوش ہو گئیں۔‘

دریں اثنا پولیس نے مصطفیٰ کی لاش کو قبر سے نکالنے اور دوسرا پوسٹ مارٹم کروانے کا فیصلہ کیا۔ پولیس شہناز کو جمشید کوارٹر تھانے لے گئی۔ خواتین قیدیوں کے لیے کوئی علیحدہ رہائش نہیں تھی، اس لیے انھیں تھانے کے برآمدے میں رکھا گیا اور ان پر نظر رکھنے کے لیے ایک خاتون پولیس اہلکار کو تعینات کیا گیا۔

پاکستانی اخبارات میں خبریں شائع ہوتی رہیں کہ ’شہناز نے کاٹن پرنٹ شدہ شلوار قمیض پہن رکھی تھی۔ وہ لکڑی کے بینچ پر سونے کے بجائے فرش پر سو رہی تھیں۔ انھیں دو کمبل دیے گئے۔ وہ دن میں پانچ وقت نماز پڑھتی تھیں۔ اگرچہ اس وقت رمضان کا پہلا ہفتہ چل رہا تھا لیکن وہ روزہ نہیں رکھ رہی تھیں۔‘ (جنگ، 14 نومبر 1970)

یہ بھی پڑھیں: کراچی کے فیڈرل بی ایریا میں قتل ہونے والا شخص کون تھا۔۔؟ اہم انکشاف

شہناز گل پر الزامات ثابت نہیں ہوئے

شہناز گل پر الزامات ثابت نہیں ہوئے

مقدمے کی سماعت کے دوران شہناز اپنے بیان پر قائم رہیں کہ ان کا مصطفی زیدی سے گہرا تعلق نہیں تھا اور دونوں کے درمیان جنسی تعلقات نہیں تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ مصطفیٰ کی الماری سے ملنے والی تصاویر ان کی نہیں تھیں۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ مصطفیٰ کے قتل کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔

صرف اس لیے کہ شہناز وہاں موجود تھی یہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ انھوں نے ہی یہ قتل کیا ہے۔

جج کنور ادریس نے کہا کہ میں نے نوٹ کیا ہے کہ مصطفیٰ اپنی موت سے پہلے افسردہ تھے۔ اپنی موت سے پہلے انھوں نے جو الفاظ کہے وہ بتاتے ہیں کہ وہ اپنی جان بھی لے سکتے تھے۔ جج نے کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ صرف وہاں موجود اس وقت کے شواہد سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس کی موت میں شہناز کا ہاتھ تھا۔ استغاثہ ان کے خلاف الزامات ثابت نہیں کر سکا۔‘

طوبیٰ مسعود کہتی ہیں کہ ’فیصلے کے بعد شہناز نے اپنے وکیل ایس ایس شیخ سے بات کی اور جلدی سے کمرے سے باہر چلی گئیں۔ ایک فوٹوگرافر نے ان کی تصویر لینے کی کوشش کی۔ اس بار انھوں نے چادر سے منھ نہیں چھپایا اور نہ ہی زمین کی طرف دیکھا۔ انھوں نے براہ راست کیمرے میں دیکھا اور تصویر بنوائی۔‘

پاکستانی اخبارات میں صرف شہناز گل کی خبریں

پاکستانی اخبارات میں صرف شہناز گل کی خبریں

یہ اس وقت کا سب سے سنسنی خیز کیس تھا۔ اس دوران پاکستان میں بہت کچھ ہو رہا تھا لیکن آئے روز اخبارات میں شہناز گل کی تصاویر شائع ہوتی تھیں اور ہمیشہ ان سے متعلق کوئی نہ کوئی خبر شائع ہوتی تھی۔

ایک دن جنگ اخبار کا رپورٹر تھانے کی دیوار پر چڑھ گیا تاکہ دیکھ سکے کہ شہناز جیل کے اندر کیا کر رہی ہیں۔

ماحول ایسا تھا کہ لوگوں کے گھروں میں اخبارات پر پابندی لگا دی گئی تاکہ بچے وہ خبر نہ پڑھ سکیں۔

شہناز گل کے لیے یہ بہت مشکل وقت تھا۔ وہ تقریباً دو سال تک اخبارات کے صفحۂ اول پر چھائی رہیں۔

طوبیٰ مسعود کہتی ہیں کہ ’پریس نے بہت سنسنی پھیلائی۔ ذرا سوچیے اکتوبر 1970 اور 1972 کے درمیان ان کا چہرہ اخبارات کے صفحہ اول پر تھا۔ اس دوران مشرقی پاکستان الگ ہو گیا لیکن اس کے باوجود شہناز ہمیشہ خبروں میں رہیں۔ ڈان اور شام کے اخبارات میں ان کی جنسی زندگی کے بارے میں باتیں ہوئیں۔ میں نے اپنی زندگی میں کبھی ایسی کوریج نہیں دیکھی۔‘

بری ہونے کے چند روز بعد ہی وہ منظر عام پر آنے لگیں۔

صبا امتیاز کہتی ہیں کہ ’بہت سے لوگ ان سے ہمدردی رکھتے تھے۔ انھیں محسوس ہوتا تھا کہ شہناز کے ساتھ کچھ بہت غلط ہو گیا ہے۔ اس واقعے کے بعد جب بھی وہ کسی پارٹی یا ریسٹورنٹ میں جاتیں یا سڑک پر پھل خریدتی تھیں تو لوگ انھیں رک کر دیکھتے تھے۔ بعد میں انھوں نے مصطفی زیدی کا عوامی سطح پر کبھی ذکر نہیں کیا۔‘

ان کی وفات تقریباً 20 سال قبل گمنامی میں ہوئی۔

ان کی موت کا اخباروں میں ذکر تک نہیں ہوا۔ یہ وہی اخبار تھے جو کسی زمانے میں ان کی ہر چھوٹی سے چھوٹی بات ہر روز صفحۂ اول پر شائع کرتے تھے۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...