عالمی یوم معذوراں اور ہمارا طرز عمل

اسلام اور انسانی حقوق
اسلام وہ دین ہے جو رنگ و نسل، ملت و تہذیب کی تفریق کیے بغیر انسانیت کی تکریم کا درس دیتا ہے۔ متقی لوگ ہی بلاشبہ اسلام کے نزدیک بہتر ہیں۔ اسلام ہی وہ دین ہے جس میں معذوروں پر کوئی معاشی بوجھ نہیں ڈالا گیا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کی گئی ہے۔ دنیا کے باقی ممالک کی طرح ہر سال پاکستان میں بھی خصوصی افراد کا دن 3 دسمبر کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد تجدید عہد ہے کہ خصوصی افراد کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ معاشرے کے مفید رکن بن سکیں۔
یہ بھی پڑھیں: ون وے کی خلاف ورزی پر کے ایم سی کا 15 ہزار روپے جرمانہ عائد کرنے کا فیصلہ
خصوصی افراد کی شناخت
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 14 اکتوبر 1992 کو منظور ہونے والی قرارداد 3/47 کے تحت اس دن کو منایا جاتا ہے۔ خصوصی افراد معاشرے کے باقی نارمل افراد سے بعض جسمانی حالات کے پیش نظر، زندگی کے افعال ادا کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ جسمانی معذوری کی تین اقسام ہیں:
- Disability (ناقصیت): جسم کے کسی حصے کا غیر فعال ہونا.
- Handicap (معذوری): جسم کے کسی حصے میں کمزوری یا معذوری کی وجہ سے افعال سر انجام دینے سے قاصر ہونا.
- Impairment: جسم کے کسی حصے میں بگاڑ کا پیدا ہو جانا.
یہ بھی پڑھیں: آل پارٹیز کانفرنس ایوان صدر میں: فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار
خصوصی افراد کی نگہداشت
اس لیے وہ تمام افراد خصوصی افراد کہلاتے ہیں جن میں حواس خمسہ میں سے کوئی حس متاثر ہو، سوچ سمجھ کی صلاحیت کم ہو، اور دوسرے افراد کے ساتھ معاشرتی تعلقات استوار کرنے کی صلاحیت کسی حد تک مفقود ہو۔ خصوصی افراد کا خصوصی خیال رکھنے کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ معاشرے کا مفید رکن بنانے کے لیے ارد گرد کے نارمل لوگ ہی بہتر اقدامات کر سکتے ہیں۔ ضروری ہے کہ وہ خصوصی افراد جو تھوڑے سے مسائل کا شکار ہوتے ہیں، ان کی بہتری کے لیے معاشرتی رویے میں تبدیلی لائی جائے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی میں سوٹ کیس سے لاش برآمدگی کیس میں اہم پیش رفت،متوفی کی شناخت ہوگئی
پاکستان کی آبادی اور خصوصی افراد
ادارہ شماریات کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 24 کروڑ 14 لاکھ نوے ہزار ہے۔ یہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے جہاں دیہی آبادی 61 فیصد اور شہری آبادی 39 فیصد ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ہر دس افراد میں سے ایک فرد خصوصی ہوتا ہے۔ دیہی آبادی کے افراد کے لیے خصوصی اداروں کی عدم دستیابی کا مسئلہ موجود ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ ریلوے اسٹیشن دھماکے میں شہید افراد کی نماز جنازہ ، آرمی چیف کی شرکت
تعلیم اور تربیت کی ضرورت
مجھے خاص طور پر یہ ذکر کرنا چاہیے کہ پنجاب میں 171 سپیشل ایجوکیشن سنٹرز ہیں، لیکن یہ سنٹرز دور دراز دیہی علاقوں میں رہنے والے خصوصی بچوں کی پہنچ سے دور ہیں۔ ان سنٹرز کا قیام یونین کونسل کی سطح پر کرنا چاہیئے تاکہ خصوصی بچوں کو بہتر تعلیم مل سکے۔
معاشرتی رویے میں تبدیلی
معاشرے کے نارمل افراد کو چاہیے کہ وہ خصوصی افراد کے ساتھ تعاون کریں۔ معذور لوگوں کی بہتری کے لیے زیادہ فعال اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ قانونی لحاظ سے خصوصی افراد کے حقوق موجود ہیں، مگر ان کا نفاذ ایک چیلنج ہے۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’[email protected]‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔