جنوبی کوریا میں منگل کی رات مارشل لا کا اعلان: پارلیمنٹ کی چھت پر ہیلی کاپٹر، باڑیں پھلانگتے اراکین اسمبلی اور ’میرے ہم وطنو‘ کا معاملہ کیا تھا؟
جنوبی کوریا کے صدر نے پورے ملک کو اس وقت حیران کر دیا جب منگل کی رات اچانک ہی انھوں نے اس ایشیائی جمہوریت میں تقریبا 50 سال بعد پہلی بار مارشل لا لگانے کا اعلان کیا۔
یون سوک یول کا یہ انتہائی اقدام، جس کا اعلان رات دیر گئے ٹی وی پر نشر کیا گیا، بظاہر ریاست مخالف قوتوں اور شمالی کوریا کے خطرے کے پیش نظر اٹھایا گیا، تاہم جلد ہی یہ واضح ہو گیا کہ اس کی اصل وجہ بیرونی خطرات نہیں بلکہ ان کی اپنی سیاسی مشکلات تھیں۔
تاہم اس اعلان کے بعد ہزاروں لوگ پارلیمنٹ کے باہر احتجاج کے لیے جمع ہو گئے اور اپوزیشن کے اراکین اسمبلی مارشل لا ختم کروانے کے لیے ایمرجنسی ووٹ دینے پہنچے۔
چند ہی گھنٹوں کے اندر شکست خوردہ صدر نے پارلیمنٹ کے ووٹ کو تسلیم کرتے ہوئے مارشل لا ختم کرنے کا حکم جاری کر دیا۔
یہ سب ہوا کیسے؟
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جنوبی کوریا کے موجودہ صدر کا برتاؤ ایک ایسے سربراہ جیسا تھا جو سمجھتے ہیں کہ ان کا محاصرہ کیا جا چکا ہے۔
منگل کی رات کو خطاب میں انھوں نے اپوزیشن کی جانب سے حکومت مخالف رویے کا ذکر کیا اور پھر کہا کہ وہ مارشل لا نافذ کر رہے ہیں تاکہ ’تباہی پھیلانے والے ریاست مخالف عناصر کو کچلا جا سکے۔‘
ان کے اعلان کے تحت فوج کو اختیارات سونپ دیے گئے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار، بشمول فوج اور پولیس، قومی اسمبلی کی عمارت کے باہر تعینات کر دیے گئے جس کی چھت پر ہیلی کاپٹروں کو اترتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔
مقامی میڈیا نے دکھایا کہ اسلحہ بردار فوجی اہلکار ماسک پہنے اسمبلی کی عمارت میں داخل ہوئے تو اسمبلی کے عملے نے آگ بھجانے والے آلات کی مدد سے ان کو روکنے کی کوشش کی۔
منگل کی رات تقریباً 11 بجے فوج نے مظاہروں، پارلیمنٹ اور سیاسی گروہوں کی حرکت پر پابندی اور میڈیا کو حکومتی کنٹرول میں دینے کا حکم جاری کیا۔
لیکن جنوبی کوریا کے سیاست دانوں نے فوری طور پر صدر کے اعلان کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیا۔ خود صدر کی اپنی سیاسی جماعت، کنزرویٹیو پاور پارٹی، کے سربراہ نے ان کے عمل کو ’غلط‘ قرار دیا۔
ملک کی سب سے بڑی حزب اختلاف جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ، لی جائی میونگ، نے اراکین اسمبلی کو پارلیمان پہنچنے کی درخواست کی تاکہ مارشل لا کے خلاف ووٹ ڈالا جائے اور انھوں نے عام شہریوں سے بھی التجا کی کہ وہ پارلیمان پہنچ کر احتجاج کریں۔
انھوں نے کہا کہ ’ٹینک، بکتر بند گاڑیاں اور بندوقوں سے لیس فوجی ملک پر حکومت کریں گے، میرے ہم وطنو، قومی اسمبلی پہنچو۔‘
ان کے پیغام پر ہزاروں لوگ پارلیمنٹ پہنچے جہاں اسلحہ بردار فوجی پہرہ دے رہے تھے۔ مظاہرین نے نعرے لگائے ’آمریت ہٹاؤ‘، ’کوئی مارشل لا نہیں۔‘
مقامی میڈیا نے پارلیمنٹ کے دروازے پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان ہونے والی چند جھڑپیں بھی دکھائیں۔ تاہم فوج کی موجودگی کے باوجود تناؤ تشدد میں نہیں بدلا۔
اراکین اسمبلی رکاوٹوں کے باوجود اندر جانے میں کامیاب رہے، چند نے باڑ پھلانگی اور چیمبر تک جا پہنچے۔
رات ایک بجے کے قریب 300 میں سے 190 اراکین اسمبلی پہنچ چکے تھے جنھوں نے مارشل لا کے خلاف ووٹ دیا اور یوں جنوبی کوریا کا مارشل لا ناکام ہو گیا اور قانونی طور پر غیر موثر ہو گیا۔
یہ بھی پڑھیں: گھر کی چھت گرنے سے ایک ہی خاندان کے 5افراد جاں بحق
مارشل لا کتنا اہم ہوتا ہے؟
مارشل لا ایمرجنسی کے اوقات میں فوجی حکام کے عارضی اقتدار کا نام ہوتا ہے وہ بھی ایسے وقت میں جب سول حکام موثر طور پر کام نہ کر سکیں۔
آخری بار جنوبی کوریا میں مارشل لا 1979 میں نافذ کیا گیا تھا جب ملک کے فوجی آمر پارک چنگ ہی کو قتل کر دیا گیا تھا۔ 1987 میں پارلیمانی جمہوریت بن جانے کے بعد سے مارشل لا نہیں لگا۔
تاہم منگل کی رات صدر نے اس روایت کو پھر سے زندہ کیا جب انھوں نے قوم سے خطاب میں کہا کہ وہ ملک کو ریاست مخالف طاقتوں سے بچانے کے لیے ایسا کر رہے ہیں۔
صدر یون نے شمالی کوریا کے خلاف کافی سخت موقف اپنایا ہے اور اپوزیشن کو ’شمالی کوریا کے ہمدرد‘ کے نام سے بھی پکارا ہے تاہم انھوں نے اس کا کوئی ثبوت نہیں دیا۔
جنوبی کوریا میں مارشل لا کے تحت فوج کو غیر معمولی اختیار سونپے جاتے ہیں اور شہریوں کے سول حقوق معطل کر دیے جاتے ہیں۔
ایسے میں فوج کی جانب سے سیاسی سرگرمیوں اور میڈیا پر پابندی کے باوجود سیاست دانوں اور مظاہرین نے احکامات کو نظر انداز کیا اور حکومت کی جانب سے میڈیا پر کنٹرول کے شواہد بھی دکھائی نہیں دیے کیوں کہ تمام میڈیا گروپ عام حالات کی طرح ہی کام کرتے دکھائی دیے۔
یہ بھی پڑھیں: گینگ آف کالا چورز کے پارٹنر کارکنوں میں “مظلوم بچہ” بننے کی ناکام کوشش: عظمیٰ بخاری
جنوبی کوریا کے صدر پر کیا دباؤ تھا؟
صدر یون مئی 2022 میں برسر اقتدار آئے تھے اور انھیں سخت گیر قدامت پسند سمجھا جاتا ہے۔ تاہم اپریل میں اپوزیشن کی انتخابات میں کامیابی کے بعد سے ان کی صدارت کمزور ہو چکی تھی۔
حکومت اپنی مرضی سے قانون سازی کرنے میں ناکام رہی اور لبرل اپوزیشن کی جانب سے منظور کردہ بلوں کو ویٹو کی طاقت سے رد کرتی رہی۔
صدر کی عوامی حمایت میں بھی کمی آئی جو 17 فیصد کے قریب پہنچ گئی۔ رواں سال صدر یون متعدد کرپشن سکینڈل کی زد میں بھی رہے جن میں سے ایک میں الزام تھا کہ ان کی اہلیہ نے ایک مہنگا بیگ بطور تحفہ وصول کیا جبکہ ایک اور سکینڈل سٹاک میں ہیرا پھیری کا بھی ہے۔
گزشتہ ماہ صدر نے سرکاری ٹی وی پر معافی مانگی تھی اور کہا تھا کہ وہ اپنی اہلیہ اور خاتون اول کے فرائض پر نظر رکھنے کے لیے ایک دفتر قائم کر رہے ہیں۔ تاہم انھوں نے اپوزیشن کی جانب سے تفتیش کے مطالبے کو رد کر دیا۔
رواں ہفتے اپوزیشن نے حکومت کے ایک اہم بجٹ بل میں کٹوتی کی تجاویز دی تھیں اور ساتھ ہی کابینہ اراکین کے مواخذے کی بھی کوشش کی۔
اب کیا ہو گا؟
صدر کی جانب سے مارشل لا کے اعلان نے بہت سے لوگوں کو حیرت زدہ کر دیا اور تقریبا چھ گھنٹے تک عام شہری اس بات پر پریشان تھے کہ مارشل کا مطلب کیا ہے۔
تاہم اپوزیشن نے فوری ردعمل دیا اور اپنے اراکین کی مدد سے مارشل لا نافذ کرنے کے حکم کو غیر موثر کر دیا۔ فوج اور پولیس کی بھری نفری کی تعیناتی کے باوجود یہ مارشل لا نافذ نہیں ہو سکا۔
جنوبی کوریا کے قانون کے تحت اگر پارلیمان کی اکثریت ایک ووٹ کی مدد سے مطالبہ کرے تو حکومت کو مارشل لا ہٹانا پڑتا ہے۔ اس قانون کے تحت مارشل لا حکومت اراکین اسمبلی کو گرفتار بھی نہیں کر سکتی۔
اس وقت یہ واضح نہیں کہ کیا ہو گا اور صدر کا مستقبل کیا ہو گا۔ منگل کی رات پارلیمنٹ کی عمارت کے باہر جمع ہونے والے چند مظاہرین صدر کی گرفتاری کا مطالبہ بھی کر رہے تھے۔
تاہم اس عمل نے ملک کو واضح طور پر سکتے کی کیفیت سے دوچار کر دیا ہے جسے ایک جدید اور ترقی یافتہ جمہوریت سمجھا جاتا ہے۔ حالیہ مارشل لا دہائیوں بعد ملک کی جمہوریت کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن کر ابھرا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مارشل کا ملک کی جمہوریت کے لیے کافی نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ سیول یونیورسٹی کے لیف ایرک کا کہنا ہے کہ ’صدر کا اعلان ایک سیاسی غلطی نظر آتا ہے جس نے غیر ضروری طور پر ملک کی معیشت اور سکیورٹی کو خطرے سے دوچار کیا۔‘
’ایسا لگ رہا تھا کہ وہ محاصرے میں ہیں، بڑھتے ہوئے سکینڈلز کے خلاف حرکت کر رہے ہیں کیوں کہ ان کو ہٹانے کے مطالبات ہو رہے ہیں، اور اب یہ سب اور زیادہ ہو گا۔‘