انسان ہی کرۂ ارض کی جان ہے، سبھی الہامی کتابیں انسان دوستی کا درس دیتی ہیں، زمانہ آپ کو یوں بدل کر رکھ دیتا ہے جیسے کبھی آپ تھے ہی نہیں

مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 8
یہ بھی پڑھیں: کیرم کی عالمی چیمپیئن کاظمہ: “جیت کے بعد باتیں کرنے والے مبارکباد دے رہے ہیں”
انسانیت
دیکھا جائے تو انسان ہی کُرہئ ارض کی جان ہے۔ سبھی الہامی کتابیں انسان دوستی کا درس دیتی ہیں۔ انسان کی دو بنیادی ذمہ داریاں ہیں: حقوق العباد اور حقوق اللہ۔ حقوق العباد پامال کرنے والوں کی بخشش کے بارے میں اللہ نے اپنا اقتدار و اختیار اپنے بندوں کو بخش دیا ہے۔ اب جب تک مظلوم اپنے ظالم کو معاف نہیں کرے گا، اسے بخشا نہیں جائے گا۔ حقوق اللہ کے حوالے سے اللہ غفور الرحیم ہے۔ وہ اپنے بندے کو بخش ہی دے گا۔ بقول خیام؛ ”معافی گناہگاروں کے لئے ہی ہے۔“
انسان دوستی کی ضرورت
دوستو، انسان دوستی یا انسانیت کوئی کھیل نہیں۔ من مارنا پڑتا ہے اپنا۔ جب کسی مفلس کے گھر چولہا نہ جلے اور تمھارے سینے سے دھواں اٹھنے لگے، جب کسی یتیم کی نظر آتی پسلیاں تمھاری اپنی ہڈیوں میں چبھنے لگیں، جب کسی کے رونے کی آواز سے تمھاری آنکھوں میں بھی نمی اتر آئے، جب کسی کو بھوکا دیکھ کر تمھیں اپنی بھوک کا احساس ہو، جب کسی کی بے بسی دیکھ کر تم بے بسی کے خلاف جہاد کرنے لگو تو سمجھ لینا تم انسان دوست ہو۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب کابینہ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے امور قانون سازی و نجکاری کا اہم اجلاس، 20 سفارشات پر بحث
بچپن اور جوانی کی کہانی
بچپن بے خبری اور جوانی بے صبری سے گزری۔ بہت کوشش کی کہ سیدھی راہ پر رہے لیکن بالآخر اسے بے راہ روی کے حوالے کرنا پڑا۔ اب بڑھاپا اس عظیم نقصان کا ازالہ کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ بڑھاپا گزرے ہوئے وقتوں، ساعتوں اور سماعتوں کی محض اتران ہے۔ زمانہ آپ کو یوں بدل کر رکھ دیتا ہے جیسے کبھی آپ تھے ہی نہیں۔
اپنی شناخت
میں اپنے والدین کا پرنس آف ویلز ہوں۔ کوئٹہ جیسے سرد علاقے میں پیدا ہوا، بلوچستان کے پہاڑوں جیسا خشک، روکھا، کچھ شرمیلا، من موجی، سادہ، تابعدار بیٹا، جان نثار دوست، وفادار شوہر، مخلص باپ، ذمہ دار شہری، رحم دل افسر، وقت کا پابند، سیاحت کا دلدادہ، خود دار، ایماندار مگر دل پھینک انسان ہوں۔ یہ سطریں پڑھ کر شاید میری یہ حماقتیں اور صداقتیں آپ کو کچھ اور اچھی لگیں۔
یہ بھی پڑھیں: وزرائے اعظم کے ساتھ زیادتی کا رونا رویا جاتا ہے کیا عمران خان وزیر اعظم نہیں رہے؟ علی محمدخان
کہانی کی تقسیم
میں نے اس کہانی کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ہر حصہ خود میں ایک مکمل داستان لئے ہوئے ہے۔ کہیں کوئی حماقت ہے مگر ہے سچی اور حقیقی۔ صداقتوں اور حماقتوں کی یہ کہانی مجھ جیسے اوروں کی بھی ہو سکتی ہے۔
دوست مشہود شورش کی یاد
بقول میرے دوست مشہود شورش میں ایسا ہوں؛ اپنے چہرے مہرے سے عہد محبت کی تصنیف لگتے ہیں۔ آنکھیں کبھی قیامت تھیں اب علامت ہیں۔ انہیں دور سے دیکھنے سے بہتر ہے غور سے دیکھا جائے۔ سرکاری ملازم ہونے کے باوجود سرکاری نہیں لگتے۔ کھیل سے گہرا لگاؤ ہے، وہ کرکٹ کا کھیل ہو یا عشق کا میدان، حریف کو شکست سے دوچار نہیں ہونے دیتے۔ کھرے مسلمان ہیں لیکن مد مقابل حسن ہو تو کافر ہونے میں بھی نہیں چوکتے۔ وضع دار خاندان کے چشم و چراغ، انتہائی نیک والدین کے فرمانبردار بیٹے ہیں۔ کمال یار دوست، ملنسار، وفادار، وضع دار انسان۔
یہ بھی پڑھیں: اپنی ذات میں موجود مختلف صلاحیتوں کا اظہار کرنے میں بذات خود کوئی برائی نہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انہیں ضرررساں انداز میں استعمال کیا جا سکتاہے
خامیاں اور خوبیوں کا تذکرہ
بے شمار خوبیوں کا سلسلہ چند خامیوں سے بھی جا ملتا ہے۔ جن کا ذکر یہاں مناسب نہیں کہ ان کی چند خامیاں ہی انہیں عزیز ہیں۔ آپ جانتے ہیں عقیدتوں کا تعلق دلوں سے ہوتا ہے اور دلوں کا افسد ہونا کسی صورت قبول نہیں۔ میرا ان سے وہی تعلق ہے جو لفظ کا معنی سے یا زبان کا بیان سے۔
محبت اور نفرت
محبت کے آدمی تھے، نفرت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ میں نے انہیں جب پہلی بار دیکھا تو مجھے روم کے اس نوجوان شاعر کا عکس لگے جو اپنی محبوبہ کا سراپا لکھتے ہوئے یہ سوچتا ہے کہ کاش کائنات کا ہر خوبصورت لفظ اس کے حافظے میں اتر آئے۔ وقت نے ان کو بوڑھا جوان کر دیا ہے۔ سلامت رہیں، آباد رہیں۔ آمین۔ (جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔