کولوسس اور ایکس اے آئی: وہ پراسرار سپر کمپیوٹر جو چلانے کے لیے 10 لاکھ گیلن پانی اور 150 میگا واٹ بجلی کا محتاج ہے
دنیا کے امیر ترین شخص اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نامزد کابینہ میں شامل ایلون مسک جدید اور مستقبل کے شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں اور آج کل ان کا ایک ایسا ’سٹارٹ اپ‘ یعنی نیا منصوبہ زیرِ بحث ہے جو انھوں نے مصنوعی ذہانت کی دنیا میں قدم رکھنے کے لیے بنایا ہے۔
ایکس اے آئی گذشتہ سال کے وسط میں لانچ ہوئی تھی اور اس کے بارے میں ایلون مسک سمیت مارکیٹ میں دیگر ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ مصنوعی ذہانت کے شعبے میں انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ایکس اے آئی بمقابلہ اوپن اے آئی وہ مقابلہ ہے جسے اکثر افراد ایپل کے سی ای او سٹیو جابز اور مائیکروسافٹ کے سی ای او بل گیٹس کے درمیان مسابقت سے تشبیہ دے رہے ہیں۔
تاہم یہ کمپنی دنیا کے طاقتور ترین سوپر کمپیوٹر کولوسس کے گرد گھومتی ہے جس کے بارے میں پراسراریت کمپنی کے قیام کے ایک سال بعد بھی موجود ہے۔
آج اس کمپنی کی لاگت 50 ارب ڈالر بتائی جا رہی ہے۔ یاد رہے کہ مسک نے ٹوئٹر (موجودہ ایکس) کو 44 ارب ڈالر میں خریدا تھا۔
گو یہ کمپنی ابھی پبلک لسٹڈ نہیں ہے لیکن امریکہ میں اس کے پری آئی پی او مارکیٹ میں شیئر پرائس خاصی حوصلہ افزا ہے اور لوگ اس جدید دور کے کرشمے پر سرمایہ لگانے کے لیے بیتاب ہیں۔
تاہم کولوسس بنانے کا عمل ہی مصنوعی ذہانت میں کام کرنے والی کمیونٹی کے لیے ایک اہم سنگِ میل سمجھا جا رہا ہے۔
مسک نے جب یہ کمپنی قائم کی تو انھوں نے کہا کہ اس کی وجہ ’یہ جاننا ہے کہ حقیقی دنیا کیسی ہے۔‘
ایکس اے آئی کی ویب سائٹ پر درج مشن سٹیٹمنٹ میں درج ہے کے ’ایکس اے آئی ایسی کمپنی ہے جو مصنوعی ذہانت کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہی ہے اور سائنسی ایجادات کی رفتار میں تیزی لا رہی ہے تاکہ ہم اس کائنات کے بارے میں مزید جان سکیں۔‘
مسک متعدد انٹرویوز میں یہ بتا چکے ہیں کہ انھوں نے یہ کمپنی اس لیے قائم کی تھی کیونکہ وہ مصنوعی ذہانت کے بے قاعدہ استعمال کے نقصانات سے پریشان تھے۔
ایکس اے آئی سوپر کمپیوٹر کا جدید ڈیزائن اسے مصنوعی ذہانت سے متعلق تحقیق کرنے کے قابل بناتا ہے۔ مشین لرننگ اور نیورل نیٹ ورکس کے ذریعے کولوسس کو لینگوج ماڈلز (جیسے اوپن اے آئی کی جی پی ٹی سیریز) کو ٹرین کرنے کے لیے استعمال کرے گا اور اس فریم ورک کو مشینوں، روبوٹس اور سائنسی سیمولیشنز کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
کولوسس کو یوں تو ستمبر 2024 میں میمفس، ٹینیسی میں لانچ کیا گیا تھا۔ تاہم اس کے حوالے سے پراسراریت اب بھی برقرار ہے۔ ڈیٹا سینٹر سابقہ الیکٹرولکس مینوفیکچرنگ (ایپلائنسز) سائٹ پر موجود ہے جو امریکہ میں جنوبی میمفس انڈسٹریل پارک میں موجود ہے۔
ریاست ٹینیسی کی اتھارٹی کی جانب سے اس سائٹ کو 100 میگاواٹ سے زیادہ کی بجلی فراہم کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔
جب یہ مکمل صلاحیت پر چلے گا تو مقامی یوٹیلٹی کے مطابق اسے ٹھنڈا رکھنے کے لیے روزانہ 10 لاکھ گیلن پانی اور اس کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے 150 میگاواٹ بجلی درکار ہوگی، جو ایک سال کے لیے ایک لاکھ گھروں کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے۔
جنوبی ٹینیسی کے ایک دور دراز علاقے میں قائم یہ سہولت ایک خفیہ ڈیٹا سینٹر کے طور پر موجود ہے، جس کے بارے میں جاننے کے لیے حریف بھی بے تاب ہیں تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ آیا یہ واقعی وہ سب کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو اس کے بارے میں کہا گیا ہے۔
اس کمپاؤنڈ میں سرور 'دی ہوم ڈاٹ کام' نامی ویب سائٹ کو دورے کی اجازت دی گئی تھی، جس کے نتیجے میں دنیا نے پہلی بار اس سوپر کمپیوٹر کو دیکھا ہے۔
کولوسس کے نظام میں ایک لاکھ این ویڈیا کے ایچ 100 کے گرافکس پروسیسنگ یونٹس (جی پی یو) نصب ہیں، جس کی بدولت یہ دنیا کے اہم ترین اے آئی ٹریننگ پلیٹ فارمز میں سے ایک بن گیا ہے۔
تاہم یہ بات جان کر حیرانی ہوگی کہ یہ صرف 19 دن میں نصب کیا گیا، کیونکہ ایلون مسک جلد از جلد اس کمپنی کو اپنے حریفوں کے مقابلے میں لا کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ جبکہ یہ پورا کمپاؤنڈ صرف 122 دن میں مکمل ہوا ہے۔
ان ایک لاکھ جی پی یوز کے نصب کرنے کے بعد ایکس اے آئی کی کمپیوٹنگ صلاحیت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا، جس سے ان کے لیے مشکل سوالات کو حل کرنے کی گنجائش پیدا ہوگئی۔
یہ رفتار اور کارکردگی اس لیے ضروری ہے کیونکہ اے آئی ماڈلز کے حجم اور پیچیدگی کی وجہ سے انہیں بڑی تعداد میں ڈیٹا سیٹس دیے جاتے ہیں، اور اس دوران بہت زیادہ کمپیوٹیشنل طاقت درکار ہوتی ہے۔
نومبر کے اواخر میں ایکس اے آئی کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ وہ اپنی صلاحیت کو ایک نئے معاہدے کے تحت دوگنا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
کمپنی کا منصوبہ ہے کہ وہ آنے والے سالوں میں چھ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری جمع کرے، جس میں سے زیادہ تر مشرق وسطیٰ کے سوورین ویلتھ فنڈز سے آنے کی توقع کی جا رہی ہے۔
اس حوالے سے تنقید بھی کی جا رہی ہے کیونکہ کچھ حلقے یہ مانتے ہیں کہ اے آئی ٹیکنالوجی میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے جغرافیائی خطرات ہو سکتے ہیں، خاص طور پر جب اس کا تحقیق کے علاوہ دیگر عملی سرگرمیوں میں کردار ہو۔
یوں کولوسس میں نصب جی پی یوز کی تعداد ایک لاکھ سے بڑھا کر دو لاکھ کی جائے گی۔ اس اپ گریڈ میں این ویڈیا کا نیا بلیکویل ایچ 200 جی پی یو استعمال کیا جائے گا، جو پچھلے ماڈل سے زیادہ طاقتور سمجھا جاتا ہے۔
کولوسس دوسرے سپر کمپیوٹرز سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اسے خاص طور پر مصنوعی ذہانت سے متعلق کمپیوٹنگ کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس میں اے آئی کی تربیت کے حوالے سے خاص ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
اگرچہ کمپنی کی جانب سے اس حوالے سے کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئی ہیں، لیکن مقامی میڈیا میں یہ بات متعدد بار رپورٹ ہوئی ہے کہ اسے تیار کرنے کے لئے ڈیل ٹیکنالوجیز اور سوپرمائیکرو نے ایکس اے آئی کے ساتھ شراکت کی ہے۔
لیکن یہ کمپنی ایسی طاقتور مشین کے ساتھ کیا کرنے والی ہے؟ لینگوج ماڈلز کی دی گروک فیملی ایکس اے آئی کا بنیادی مقصد ہے۔ یہ ماڈلز اوپن اے آئی کی جی پی ٹی سیریز کی طرح انسانوں کی زبان میں چیزیں تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
لینگوج ماڈلز کے علاوہ ایکس اے بغیر ڈرائیور کے گاڑیوں، روبوٹکس اور سائنسی سیمولیشن بھی کرنا چاہتا ہے۔
کمپنی کی جانب سے اے آئی کے ذریعے سائنس میں سرمایہ کاری کی جارہی ہے تاکہ نیا میٹریل ڈھونڈا جائے، توانائی کی بچت کی جائے اور نئی ادویات اختراع کی جائیں۔
کولوسس کے اندر ایک ’کولنگ سسٹم‘ بھی موجود ہے جو جی پی یوز کو بہترین اور پائیدار حالات میں کام کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ اس لیے اہم ہے کیونکہ ایک جی پی یو بہت زیادہ گرمی پیدا کرتا ہے۔
یہ کہنا درست نہیں کہ کولوسس کو مسائل کا سامنا نہیں ہے، اتنے بڑے سپر کمپیوٹر کو ٹھنڈا رکھنا بھی ایک چیلنج ہے خاص طور پر ایسے وقت میں جب موسمیاتی تبدیلی اور پائیدار توانائی دنیا کے سامنے بڑے مسائل ہیں۔