ایمیزون کی غیر قانونی کانیں جہاں سیکس کے عوض سونا حاصل ہوتا ہے

ڈیئین لیٹ 17 برس کی تھیں جب ان کے شوہر دل کا دورہ پڑنے سے وفات پا گئے اور ان کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ شوہر کی آخری رسومات کے لیے ادائیگی کر پاتیں۔
برازیل کی شمالی پارا ریاست میں ان کا آبائی شہر ایٹائی ٹبوبا ملک میں سونے کی غیر قانونی کان کنی کرنے والوں کا مرکز ہے۔۔۔ ڈیئین کی ایک دوست نے انہیں ایمازون کی گہری کانوں میں جانے والے کان کنوں کے ساتھ سیکس کر کے پیسے اکٹھا کرنے کا مشورہ دیا۔
وہ کہتی ہیں کہ کانوں میں جانا قسمت کا کھیل ہے۔
’وہاں خواتین کی شدید تذلیل کی جاتی ہے۔ شاید وہاں موجود مرد آپ کے منہ پر تھپڑ مار دیں یا چیخنے لگیں۔‘
انہوں نے بتایا ’میں بیڈ روم میں سو رہی تھی کہ اچانک ایک آدمی نے کھڑکی سے چھلانگ لگا کر میرے سر پر بندوق تان دی۔‘
ڈیئین کہتی ہیں کہ اگر وہ پیسے دے رہے ہیں تو عورت کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں۔
انہوں نے اس غیر قانونی کانوں میں جا کر اپنے شوہر کی آخری رسومات کے لیے پیسے اکٹھے کیے۔ وہ 18 سال کی تھیں جب ان کا پہلا بچہ پیدا ہوا۔ پچھلے 16 سالوں سے ایٹائی ٹبوبا کی بہت سی خواتین کی طرح وہ بھی وقتاً فوقتاً ان کانوں میں باورچی، دھوبی، بار گرل اور ایک سیکس ورکر کے طور پر کام کرتی رہی ہیں۔
اب سات افراد کے خاندان کی کفالت ڈیئین کی ذمہ داری ہے۔
نتالیا کوالکانتی 24 سال کی عمر میں ایک ریموٹ سائٹ پر واقع کان کنوں کی بستی میں سیکس ورکر بنیں۔ وہ کہتی ہیں ’میں یہ نہیں کہہ رہی کہ یہاں کی ساری خواتین یہی کام کرتی ہیں لیکن زیادہ تر کا گزر بسر سیکس ورکر کے طور پر ہی ہوتا ہے لہذا یہاں یہ ایک عام سی بات ہے۔‘
چار سال بعد انہوں نے شراب خانے کے مالک سے شادی کر لی اور قحبہ خانے کی میڈیم بن گئیں۔ حال ہی میں شہر میں رہنے والی اپنی بھانجیوں کی دیکھ بھال کرنے کے لیے انہوں نے یہ نوکری چھوڑی ہے۔
بارانی جنگلوں میں بسی کان کنوں کی بستیوں میں زندگی آسان نہیں ہے۔۔۔ یہاں مٹی سے اٹے گندے راستے ہیں، ایک سیلون بار کے علاوہ بس ایک چرچ ہے۔
لیکن کان کن یہاں سے بہت دور لکڑی اور بانس سے بنی ان جھونپڑیوں میں رہتے ہیں جن کے اردگرد ہر وقت چیتے اور سانپ گھومتے رہتے ہیں اور جنریٹر بند ہونے کے بعد مکمل اندھیرا چھا جاتا ہے۔ جو خواتین باورچی کے طور پر کام کرتی ہیں انہیں مردوں کے ساتھ ان کیمپوں میں رہنا پڑتا ہے۔
نتالیہ کہتی ہیں کہ کان کن صرف اس وقت گاؤں میں نظر آتے ہیں جب انہیں کان سے سونا ملے اور ان کے پاس خرچ کرنے کے لیے پیسہ ہو۔ خواتین کا کہنا ہے کہ بعض اوقات انہیں سیکس سے قبل نہانے کے لیے قائل کرنا پڑتا ہے۔
برازیل کے قانون کے تحت قحبہ خانہ چلانا جرم ہے تاہم نتالیہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس بزنس سے کوئی کمیشن نہیں کمایا۔ وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے صرف شراب خانے کے لیے عملے کو ملازمت پر رکھا اور سیکس کے لیے کمرے کرائے پر دیے۔
نوجوان عورتیں ان سے رابطہ کر کے کام مانگتی ہیں اور وہ کبھی کبھار انہیں قحبہ خانے تک سفر کرنے کے پیسے دیتی تھیں۔ یہ ایٹائی ٹبوبا سے سات گھنٹے کی مسافت پر ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا وہ دوسری خواتین کو کام دینے کے بارے میں شکوک و شبہات رکھتی ہیں، نتالیہ نے جواب دیا: ’کبھی کبھار میں سوچتی ہوں کہ میں اس سب سے گزر چکی ہوں اور میں جانتی ہوں کہ یہ کیسا ہے لیکن پھر میں سوچتی ہوں کہ ان لڑکیوں کے خاندان کی کفالت ان کی ذمہ داری ہے اور انہیں اپنے بچے بھی پالنا پڑتے ہیں۔ بہت سی ایسی لڑکیاں جن کے ایک یا دو بچے ہوں، ہم انہیں کام دیتے ہیں۔‘
شادی سے پہلے بھی نتالیہ نے بہت پیسہ کمایا تھا۔
اب نتالیہ کا ایٹائی ٹبوبا میں اپنا گھر ہے، ایک موٹرسائیکل ہے اور بہت سارا سونا بھی ہے جو انہیں سیکس کے بدلے میں ملتا تھا۔۔۔ کبھی کبھار ایک ہی وقت میں دو یا تین گرام تک۔
وہ تعلیم حاصل کرنا اور وکیل یا آرکیٹکٹ بننا چاہتی تھیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ایٹائی ٹبوبا (جسے گولڈ نگیٹ سٹی بھی کہتے ہیں) کی کچھ خواتین نے اپنے کمائے ہوئے پیسوں سے خود کاروبار شروع کیا ہے۔
لیکن ایک عورت کے لیے ان پرتشدد اور غیر قانونی طور پر بسی کان کنوں کی بستیوں میں جانا خطرناک ہے۔
اگرچہ ان کانوں سے ہونے والے ماحولیاتی نقصانات کے متعلق سب کو علم ہے لیکن اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس میں انسانوں کے لیے تشدد، جنسی استحصال اور سمگلنگ جیسے خطرے بھی شامل ہیں جن کے بارے میں زیادہ بات نہیں کی جاتی۔
قیمتی دھاتوں کے ایک ڈیلر نے Uses in Urdu کو بتایا کہ عام طور پر ان کانوں سے نکلنے والے غیر قانونی سونے کو زیورات اور موبائل فونز یا دیگر الیکٹرانک سامان میں استعمال کرنے کے لیے برآمد کرنے سے قبل لائسنس یافتہ کمپنیوں کی پروڈکٹ کے طور پر ریبل کیا جاتا ہے۔
برازیل کے سونے کے تین سب سے بڑے گاہکوں میں کینیڈا، سوئٹزرلینڈ اور برطانیہ شامل ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ آف ایسکولہاس تھنک ٹینک کے مطابق یورپ کو جانے والی تمام برآمدات میں سے 90 فیصد سے زیادہ ان علاقوں سے جاتی ہے جہاں غیر قانونی کان کنی کی جاتی ہے۔
ان گاؤں میں عورتوں کے قتل کا واقعہ بھی ایک حیرت انگیز بات نہیں ہے۔ 26 سالہ رائیلی سانتوس کی لاش پچھلے سال اس کمرے سے ملی جہاں وہ رہائش پذیر تھیں جو کویو کویو کان کے قریب واقع ہے۔ یہ ایٹائی ٹبوبا سے 11 گھنٹے کی مسافت پر ہے۔
ان کی بڑی بہن ریلینی کا کہنا ہے کہ ایک شخص نے انھیں سیکس کے بدلے رقم کی پیشکش کی تھی جسے انہوں نے قبول نہیں کیا۔ اس آدمی نے بعد میں رائیلی کو تلاش کیا اور اسے مار کر ہلاک کر دیا۔
ریلینی کا کہنا ہے کہ روزانہ بہت سی خواتین ہلاک ہو جاتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں کانوں میں پیدا ہوئی، کانوں میں پلی بڑھی، مگر اب مجھے کانوں میں رہنے سے ڈر لگتا ہے۔‘
رائیلی کے قتل کے الزام میں ایک شخص کو گرفتار کیا گیا ہے لیکن ابھی تک مقدمہ نہیں چلایا جا سکا۔ وہ شخص اپنے اوپر لگائے گئے تمام الزامات کو مسترد کر رہا ہے۔
برازیل کی غیر قانونی سونے کی کانوں والی زمین 10 سال بعد یعنی 2023 میں دگنی سے بھی زیادہ ہو کر دو لاکھ 20 ہزار ہیکٹر تک پھیل گئی ہے، جو گریٹر لندن سے بھی بڑا رقبہ ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس علاقے میں کتنی خواتین کام کرتی ہیں یا یہاں کتنے غیر قانونی کان کن موجود ہیں۔
برازیل کی حکومت کا کہنا ہے کہ ان غیر قانونی کان کنوں کی تعداد 80 ہزار سے آٹھ لاکھ کے درمیان ہے۔
صدر لوئیز اناسیو لولا ڈا سلوا کی حکومت نے غیر قانونی کانوں کو بند کرنے اور ڈیلروں کو سونا خریدنے سے روکنے کے اقدامات کیے ہیں، مگر سونے کی بڑھتی قیمتیں بہت سے مردوں کو ان خطرناک کانوں میں جا کر اپنی قسمت آزمانے پر مجبور کرتی ہیں۔
کان کنی کے علاقوں میں صحت کے خطرات اور مشکلات کی وجہ سے ڈیئین یہاں کام بند کرنا چاہتی ہیں اور وہ اس کی منصوبہ بندی بھی کر رہی ہیں۔ انہیں امید ہے کہ یہ ان کا آخری سفر ہوگا۔ ان کا مقصد دو یا تین مہینوں میں اتنی پیسہ کمانا ہے کہ وہ واپس جا کر سنیک بار کھول سکیں۔
تاہم انہیں اس بات کا احساس ہے کہ شاید وہ اس کاروبار میں کامیاب نہ ہو سکیں۔
وہ کہتی ہیں کہ جب وہ جنگل میں اکیلی چل رہی ہوتی ہیں تو انہیں اپنے بچوں کی فکر لاحق رہتی ہے۔
’جب تک ہمت ہے میں کوشش کرتی رہوں گی۔۔۔ کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ ایک دن میرے بچے کہیں گے: ہماری ماں نے بہت محنت کی۔۔۔ اس نے جو کچھ سہا ہمارے لیے سہا اور اس نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔‘