اسلام آباد پولیس پر پختون شہریوں کی نسلی بنیادوں پر گرفتاری کا الزام، پولیس کی جانب سے تردید
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے وفاقی داراحکومت اسلام آباد میں خیبرپختونخوا کے شہریوں کی گرفتاریوں کے معاملے پر وزیرِ اعظم شہباز شریف کو خط لکھا ہے، جس نے تحریکِ انصاف کے احتجاج کے بعد مبینہ طور پر نسل کی بنیاد پر پختون شہریوں کی گرفتاریوں کے الزام پر نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
علی امین گنڈاپور نے خط میں لکھا کہ 'یہ افراد عموماً کم اجرت والے کاموں میں مصروف ہوتے ہیں اور حالیہ پرامن سیاسی احتجاج کے بعد غیر منصفانہ طور پر نشانہ بنے ہیں، اس لیے خیبرپختونخوا کے گرفتار شہریوں کو رہا کیا جائے۔'
وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کا بیان ایسے وقت آیا ہے جب سوشل میڈیا پر تحریکِ انصاف کے احتجاج کے بعد پولیس نے مبینہ طور پر نسلی امتیاز کی بنیاد پر گرفتاریوں سمیت دیگر الزامات کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔
اس حوالے سے سوشل میڈیا پر انسانی حقوق کی وکیل ایمان مزاری نے مختلف دعوے کیے ہیں، لیکن اسلام آباد پولیس نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
اسلام آباد پولیس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ 'حال ہی میں امنِ عامہ کی صورتحال کے دوران کسی بھی پرامن پشتون کو جنوری حراست میں نہیں لیا گیا۔'
'قانونی کارروائی شرپسند عناصر کے خلاف عمل میں لائی گئی ہے نہ کہ کسی قومیت یا علاقے کی بنیاد پر۔'
پاکستان تحریکِ انصاف کا اسلام آباد کے لیے احتجاج ختم ہوئے ایک ہفتہ گزر گیا ہے، لیکن اب بھی اس سے متعلق دعوؤں اور الزامات کا سلسلہ جاری ہے۔
ایمان مزاری نے دو روز قبل ایک ٹویٹ میں کہا کہ 'جس طرح سے پشتون لڑکوں کو ہراساں اور نسلی امتیاز کا شکار بنایا جا رہا ہے، اور انہیں نجی گاڑیوں میں بٹھایا جا رہا ہے یہ بہت غلط ہے۔'
انھوں نے دعویٰ کیا کہ 'اسلام آباد پشتونوں کے لیے نو گو ایریا بن چکا ہے، جہاں پشتونوں کے شناختی کارڈ چیک کیے جا رہے ہیں اور انہیں حراست میں رکھا جا رہا ہے۔'
ایمان مزاری نے Uses in Urdu سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم حراست میں لیے گئے افراد کی فہرست جمع کر رہے ہیں، جسے جلد شیئر کیا جائے گا اور پھر مختلف وکلا سے درخواست کی جائے گی کہ وہ ان کی بریت کے لیے کوشش کریں۔'
اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر اس قسم کے دعوے بھی سامنے آئے ہیں کہ اسلام آباد میں مختلف پولیس ناکوں پر مبینہ طور پر لوگوں کو ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور شناختی کارڈز دیکھنے کے بعد گرفتار کیا جا رہا ہے۔
Uses in Urdu تاحال اس دعوے کی آزادانہ تحقیق نہیں کر سکا ہے، تاہم اسلام آباد پولیس کے ترجمان نے نامہ نگار شہزاد ملک کو بتایا کہ 'یہ صرف کہانی ہے اور اس حوالے سے منظم پراپیگینڈا پھیلایا جا رہا ہے۔'
انھوں نے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’اسلام آباد پولیس کے ہر ناکے پر موجود اہلکاروں کے پاس ایک ای پی پی نامی ایپ ہوتی ہے جس میں شناختی کارڈ نمبر یا گاڑیوں کے نمبر ڈال کر ان کے خلاف کسی غیر قانونی سرگرمی یا مقدمے کی تفصیلات معلوم کی جا سکتی ہیں۔ اس کی مانیٹرنگ سینیئر افسران کی جانب سے کی جاتی ہے۔‘
ایمان مزاری نے تحریکِ انصاف کی قیادت پر بھی تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ ’پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور لیگل ٹیم نے پشتون کارکنوں کو مکمل طور پر بے یارو مددگار چھوڑ دیا ہے اور اٹک اور جہلم کی جیلوں میں قید سینکڑوں کارکنوں جنھیں نسلی امتیاز کی بنیاد پر حراست میں رکھا گیا ہے، کی بالکل مدد نہیں کی گئی۔‘
خیال رہے کہ یہ الزامات ایک ایسے وقت میں سامنے آ رہے ہیں جب تحریکِ انصاف کے احتجاج کے بعد وزیرِ داخلہ محسن نقوی کی جانب سے 31 دسمبر تک اسلام آباد سے افغان شہریوں کے انخلا کی ڈیڈ لائن دی جا چکی ہے۔
اس حوالے سے اسلام آباد میں افغان شہریوں پر کریک ڈاؤن کے بارے میں بھی سوشل میڈیا پر دعوے کیے جا رہے ہیں۔
ایک صارف نے لکھا کہ ’پشتونوں کی نسلی بنیادوں پر پروفائلنگ، ریڑھی بانوں، ٹیکسی ڈرائیوروں اور دکانداروں کی بلاجواز گرفتاریاں اور ان کے آنکھوں پر پٹی باندھنے جیسے سلوک پر بات کرنا نفرت کو بڑھا رہا ہے جبکہ ایسے اقدامات کرنے والے ریاستی اہلکار محبت بڑھا رہے ہیں۔ واہ! کیا استدلال ہے۔‘
ایک صارف نے لکھا کہ ’اسلام آباد پولیس ہر ایسے شخص کو گرفتار کر رہی ہے جو پشتو بولتا ہے۔ پشتون بیروں، ریڑھی بانوں، مزدوروں اور یہاں تک کے صحافیوں کو بھی گرفتار کیا جا رہا ہے۔
’وہ صحافی حفیظ اللہ خٹک کی گرفتاری کے بارے میں بات کر رہے تھے۔‘
عمران نامی صارف نے لکھا کہ ’ورکنگ کلاس پشتون اب اسلام آباد میں اپنے آپ کو بچانے پر مجبور ہو چکے ہیں اور کچھ کو تو کام بھی نہیں مل رہا حالانکہ وہ پی ٹی آئی سے لاتعلقی کا اظہار کر رہے ہیں۔‘