جڑانوالہ میں نئی دلہن کی موت: ‘دس سالہ بھانجے کی گولی، اور الزام ٹک ٹاک پر عائد’
جڑانوالہ کے ایک گاؤں میں چند روز قبل ماحول سوگوار ہو گیا جب وہاں بیاہ کر آنے والی فاطمہ کی شادی کے دو روز بعد ہی ہلاکت کی خبر پھیلی۔
اس واقعے کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق فاطمہ نے ٹک ٹاک ویڈیو بنانے کے مقصد سے پستول اٹھاکر کنپٹی پر رکھا، جس کے نتیجے میں حادثاتی طور پر گولی چل گئی جو اس کی موت کا سبب بنی۔
دنیا بھر میں ٹک ٹاک پر ویڈیو بناتے ہوئے موت یا خطرے میں ڈالنے کے رجحان پر تنقید کی جاتی ہے۔ تاہم پولیس کا دعویٰ ہے کہ فیصل آباد میں پیش آنے والے اس واقعے کی نوعیت کچھ مختلف ہے اور یہ واقعہ اتنا سادہ نہیں جتنا اہلخانہ نے بیان کیا ہے۔
فاطمہ کی موت کے وقت کیا ہوا؟
22 سالہ فاطمہ عباس کے چچا اشتیاق احمد نے Uses in Urdu سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'ہمارے گھر پر قیامت ٹوٹ گئی ہے۔ دو دن پہلے ہم نے بچی کو رخصت کیا اور دو دن بعد ہی اس کا جنازہ اٹھایا۔'
انہوں نے مزید بتایا کہ 'جب یہ واقعہ پیش آیا، تو مقتولہ کی والدہ، بہن اور اس کے بچے اسی کمرے میں تھے۔ اس نے دراز سے پستول نکالی اور ویڈیو بنانے لگی اور اچانک گولی چلی گئی۔'
اس سوال پر کہ پستول کہاں سے آیا، فاطمہ کے چچا کا کہنا تھا کہ 'یہ اس کے شوہر کے دوست کا تھا، جو شادی پر ہوائی فائرنگ کرنے کے لیے لایا تھا۔'
اشتیاق احمد نے فاطمہ کی موت کا ذمہ دار سوشل میڈیا ایپ ٹک ٹاک کو قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 'ٹک ٹاک بہت بری چیز ہے اور ہمارے بچے بالکل نہیں سنتے اور پھر والدین نقصان اٹھاتے ہیں۔'
اس سوال پر کہ کیا فاطمہ کے گھر والوں نے کبھی انھیں ٹک ٹاک بنانے سے روکا تھا، ان کا جواب تھا کہ 'جی ہم نے بہت دفعہ روکا، لیکن وہ پھر بھی چوری چھپے ویڈیوز بناتی تھی۔ آپ تو جانتی ہیں کہ آج کل کے بچے کس کی سنتے ہیں۔'
تاہم، اشتیاق احمد فاطمہ کے ٹک ٹاک اکاؤنٹ کی معلومات فراہم کرنے میں ناکام رہے۔ انہوں نے کہا 'میں تو موبائل زیادہ استعمال نہیں کرتا اس لیے مجھے اس کا ٹک ٹاک اکاؤنٹ نہیں معلوم۔'
یہ بھی پڑھیں: عوام پر” بجلی “کیسے گرائی جا رہی ہے ۔۔۔؟ گوہر اعجاز نے ایک اور تہلکہ خیز انکشاف کر دیا
کیا یہ واقعی ہی حادثاتی خودکشی تھی؟
اس معاملے کی معلومات کے حصول کے لیے جب میں نے فیصل آباد پولیس سے رابطہ کیا تو ابتدائی طور پر یہی کہا گیا کہ 'ہم نے والد کی مدعیت میں واقعے کی رپورٹ درج کر لی ہے کیونکہ لڑکی کے گھر والوں اور سسرال والوں کا ایک ہی بیان ہے، تاہم ہم پھر بھی اس واقعے کی چھان بین کر رہے ہیں۔'
تاہم ایک روز بعد سی پی او فیصل آباد کامران عادل سے جب اس بارے میں بات کی گئی تو ان کا موقف ابتدائی معلومات سے کہیں مختلف تھا۔ سی پی او کا کہنا تھا کہ ’یہ خودکشی کا معاملہ نہیں ہے۔ اس واقعے میں گولی مقتولہ سے نہیں چلی بلکہ وہ اپنے دس سالہ بھانجے کے ہاتھ سے چلنے والی گولی کا شکار ہوئی۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’یہ اپنی نوعیت کا ایسا معاملہ ہے جس کا کوئی والی وارث نہیں تھا اور ہم نے عوامی احساس تحفظ کے تحت اس کیس کو حل کیا ہے۔ مقتولہ فاطمہ کے والدین، شوہر، سسرال والے سب نے ہی فاطمہ کے قتل کو خودکشی کا رنگ دے کر الزام فاطمہ اور ٹک ٹاک پر ڈال دیا۔‘
کامران عادل کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسے مقدمات جن کی کوئی پیروی کرنے والا نہیں ہوتا ان میں پولیس کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے اور اگر بروقت ثبوتوں اور تفتیش کو صحیح سمت میں رکھا جائے تو اصل ملزم تک پہنچنا آسان ہو جاتا ہے۔
پولیس اس کیس کی تہہ تک کیسے پہنچی؟
اس کیس کا معمہ حل کرنے والے ایس پی جڑانوالہ ضیا الحق نے Uses in Urdu کو بتایا کہ ’ٹیلی فون پر ہمیں اطلاع ملی کہ ایک لڑکی ٹک ٹاک بناتے ہوئے اپنی ہی گولی کا شکار ہوئی ہے جس کے بعد ہماری ٹیم موقع پر پہنچی۔ جہاں وقوعہ ہوا وہ تقریباً دس مرلہ کا گھر تھا جس کے صحن میں چالیس سے پچاس خواتین بیٹھی تھیں جبکہ گھر کے باہر ساٹھ سے ستر لوگوں کا ہجوم تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جب پولیس اہلکار اندر پہنچے تو دیکھا کہ مقتولہ گولی لگنے کی وجہ سے کمرے کے اندر گری ہوئی تھی۔ ’میں نے قریب جا کر دیکھا تو اس کے سر اور کان کے درمیان میں گولی لگی ہوئی تھی۔‘
ضیا الحق کے مطابق ’ہم نے جائے وقوعہ پر موجود لوگوں سے پوچھا کہ کیا ہوا تھا تو لڑکی کی ماں بولی کہ ہم یہاں آئے ہوئے تھے۔ میں بھی اس کے ساتھ بیڈ پر بیٹھی تھی اور میری دوسری بیٹی بھی ساتھ تھی جبکہ فاطمہ ٹک ٹاک بنا رہی تھی پستول کے ساتھ اور اچانگ گولی لگی اور یہ موقع پر ہی فوت ہو گئی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جب وہاں موجود دیگر افراد سے پوچھ گچھ کی گئی تو سب نے والدہ کے موقف کی تائید کی لیکن پولیس کو صورتحال مشکوک لگ رہی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ موقع پر موجود پولیس ٹیم نے اس واقعے میں استعمال ہونے والے پستول کی تلاش شروع کی تو انہیں وہاں کوئی پستول نہیں ملا۔ ’اس کمرے کی تلاشی لی گئی تو ہمیں وہاں پستول نہیں ملا۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ پستول کہاں ہے تو انہوں نے کہا ہمیں نہیں پتا کہ کہاں گیا۔ پھر ہم نے کرائم سین کو اچھی طرح دیکھا تو ہمیں گولی کا خول مل گیا۔‘
ایس پی جڑانوالہ کے مطابق پستول نہ ملنے پر وہاں موجود افراد سے فاطمہ کے موبائل فون کی بابت دریافت کیا گیا تو بتایا گیا کہ وہ بھی ٹوٹ چکا ہے۔ ’ہم نے کہا جس موبائل پر فاطمہ ٹک ٹاک بنا رہی تھی وہ کہاں ہے؟ پہلے تو انہوں نے کہا کہ وہ موبائل نیچے گرا اور ٹوٹ گیا اور اب اس کا پنل کھل نہیں سکتا مگر ہم نے ان سے موبائل لیا تو لگ رہا تھا کہ جیسے کہ پاؤں کے نیچے آ کر ٹوٹا ہو۔‘
ضیا الحق کے مطابق اس پر انہیں زیادہ شک ہوا کیونکہ بقول ان کے ’کرائم سین کو پہلے ہی انہوں نے خراب کرنے کی کوشش کی ہوئی تھی۔ پھر انہوں نے کہا ہم نے لڑکی کا پوسٹ مارٹم نہیں کروانا۔ ہم نے کافی مشکل سے انہیں پوسٹ مارٹم پر منایا۔‘
پولیس افسر کے مطابق اس دوران فارانزک ٹیم نے شواہد بھی جمع کیے اور ’انہیں بھی شک تھا کیونکہ فائر نزدیک سے لگا تھا لیکن اس کا زاویہ ایسا بھی نہیں تھا کہ کہا جا سکے کہ وہ خودکشی ہے۔‘
ایس پی جڑانوالہ نے کہا کہ جب اہلخانہ سے فاطمہ کے ٹک ٹاک اکاؤنٹ کے بارے میں تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ اس کا ایسا کوئی اکاؤنٹ ہی نہیں تھا۔ 'ہم نے پوچھا کہ فاطمہ کا ٹک ٹاک اکاؤنٹ کیا ہے۔ اس بارے میں ہمیں معلوم ہوا کہ اس بچی کا تو کوئی اکاؤنٹ نہیں ہے۔'
انہوں نے بتایا کہ اس دوران اس واقعے کی معلومات حاصل کرنے کے لئے جن اہلکاروں کی ذمہ داری لگائی گئی تھی 'انہوں نے اگلی صبح خبر دی کہ مقتولہ نہ تو ٹک ٹاک بنا رہی تھی اور نہ ہی وہ اپنی گولی کا شکار ہوئی ہے بلکہ گولی مقتولہ کے دس سالہ بھانجے نے چلائی اور اس کا نتیجہ فاطمہ کی موت کی صورت میں نکلا۔'
پولیس افسر کا مزید کہنا تھا کہ ان اطلاعات پر 'ہم نے تفتیش کا دائرہ کار مزید بڑھایا اور مختلف گھر والوں کے بیانات ریکارڈ کیے جن میں تضاد تھا۔ تمام ثبوتوں کے سامنے آنے کے بعد جب ہم نے فیملی سے بات کی تو وہ کہنے لگے کہ یہ ایک حادثہ ہوا تھا، ہم ڈر گئے تھے وغیرہ وغیرہ۔ اس پر ہم نے ان سے کہا کہ آپ نے جھوٹ بولا ہے لہٰذا ہم کسی کہانی پر یقین نہیں کر سکتے اور معاملہ قانونی طور پر ثبوتوں کے ساتھ دیکھا جائے گا۔ جس کے بعد ہم نے پولیس کی مدعیت میں قتل کا مقدمہ درج کر لیا۔'
پولیس نے اس معاملے میں گولی چلانے والے دس سالہ بچے کو حراست میں لے لیا ہے، تاہم ایس پی جڑانوالہ کے مطابق 'ابھی ہم اس معاملے میں مزید تحقیقات کر رہے ہیں کہ کہیں اس بچے کے ساتھ کوئی اور شامل تو نہیں ہے، اور حتمی معلومات کچھ دن تک سامنے آ جائیں گی۔'