حلب کے بعد حما پر بھی باغیوں کا قبضہ: شام میں کن کن علاقوں پر کس کا کنٹرول ہے؟

شامی باغیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے ملکی فوج کی جانب سے حما شہر سے فوجیں واپس بلائے جانے کے بعد ملک کے دوسرے بڑے شہر کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ اسے صدر بشار الاسد کے لئے ایک اور دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔
عسکریت پسند تنظیم ہیئت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کے رہنما ابو محمد الجولانی نے حما میں 'فتح' کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 'بدلہ نہیں لیا جائے گا۔'
اس سے قبل ایچ ٹی ایس کے جنگجوؤں اور ان کے اتحادیوں نے شدید جھڑپوں کے بعد حما کی مرکزی جیل پر قبضہ کرتے ہوئے متعدد قیدیوں کو رہا کروایا تھا جبکہ فوج نے اعلان کیا تھا کہ اس نے اپنے دستے شہر سے باہر تعینات کر دئیے ہیں۔
حما میں 10 لاکھ افراد آباد ہیں اور یہ حلب کے جنوب میں 110 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یاد رہے کہ باغیوں کی جانب سے حلب شہر پر اچانک حملے کے بعد پچھلے ہفتے قبضہ کیا گیا تھا۔
باغیوں کے کمانڈر نے حلب کے جنوبی شہر حمص کے رہائشیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 'اب آپ کا وقت آن پہنچا ہے۔'
ماضی میں صدر اسد نے اپنے حریفوں کو ختم کرنے کے لیے روس اور ایران پر انحصار کیا ہے۔ لیکن چونکہ دونوں اتحادی خود خطے میں نئے تنازعات سے دوچار ہیں، اس لیے یہ واضح نہیں ہے کہ وہ باغیوں کی اس پیش قدمی کو کس طرح روک سکیں گے، جو اب بشار الاسد کی حکومت کے وجود کے لئے براہ راست خطرہ بن چکی ہے۔
اگرچہ شام میں 13 سال کی لڑائی کے بعد بھی جنگ جاری رہی، لیکن یہ اس وقت تک شہ سرخیوں سے اوجھل رہی جب تک کہ جہادی گروپ ہیئت تحریر الشام نے پچھلے ہفتے حلب پر حیرت انگیز پیش قدمی کرتے ہوئے چند گھنٹوں میں بڑے علاقوں پر قبضہ نہیں کر لیا۔
یاد رہے کہ شام کے صدر بشار الاسد کے خلاف ایک پرامن بغاوت 2011 میں ایک مکمل خانہ جنگی میں بدل گئی تھی۔ اس تنازعے میں تقریباً پانچ لاکھ افراد ہلاک ہوئے جبکہ روس اور امریکہ کی مداخلت نے اسے ایک 'پراکسی وار' میں تبدیل کر دیا۔
آج شام چار مختلف حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے، جو یا تو بشار الاسد کی حکومت کے کنٹرول میں ہیں یا ایسے خود ساختہ مسلح گروہوں کے جن کے مختلف نظریات اور وفاداریاں ہیں۔
شام کے کس حصے کو کون کنٹرول کرتا ہے، اس میں جنگ کے آغاز کے بعد سے نمایاں تبدیلی آئی ہے۔
ابتدائی طور پر باغیوں کے ہاتھوں وسیع علاقہ کھونے کے بعد، صدر بشار الاسد کی حکومت 2015 کے بعد سے روس کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہی اور حلب پر باغیوں کی تازہ پیش قدمی سے پہلے تک ملک کے تقریباً دو تہائی حصے پر کنٹرول بحال کر لیا۔
شمال میں، جہاں شام کی سرحدیں ترکی سے ملتی ہیں، وہاں متعدد سرحدیں خود ساختہ حکام یا دیگر ممالک کے حمایت یافتہ مسلح گروہوں نے کھینچی ہیں۔
ایک نجی سکیورٹی ادارے میں کام کرنے والے تجزیہ کار سیرحت ایرکمان کا کہنا ہے کہ 'دارالحکومت دمشق کے مشرق سے لے کر دریائے فرات تک، ایرانی اثر و رسوخ اب بھی موجود ہے۔'
ان کے مطابق بحیرۂ روم کا ساحل اور وہاں سے دمشق تک کا علاقہ اور جنوبی سرزمین روس کے زیر اثر ہیں۔
یاد رہے کہ ایران اور روس بشار الاسد حکومت کے سب سے زیادہ حمایتی مانے جاتے ہیں۔
لیکن خطے میں ہونے والی حالیہ پیش رفت نے سب تبدیل کر دیا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ تنازع میں پھنس کر ایران اور حزب اللہ کو الجھا دیا جبکہ روس نے یوکرین کے ساتھ جنگ پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔
اگرچہ ان تمام کرداروں نے اب بھی بشار الاسد حکومت کی حمایت کا اعلان کر رکھا ہے لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تازہ ترین کشیدگی کے دوران زمینی سطح پر ان کی حمایت میں کمی آئی ہے۔
حلب اور اس کے آس پاس کے علاقے اور اب حما شہر بھی فرقے کی اسلام پسند سیاسی اور مسلح تنظیم ہیئت تحریر الشام کے زیر قبضہ ہیں۔
بحیرہ روم پر واقع شام کی اہم بندرگاہ لتاکیہ بشار الاسد کے کنٹرول میں ہے اور خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد سے اس جگہ کا اہم کردار رہا ہے۔
ادلب پر کس کا قبضہ؟
شام کی شمالی سرحد کی جانب فقط 120 کلومیٹر کے فاصلے پر صوبہ ادلب ہے جہاں 2015 میں حکومتی فورسز کا کنٹرول ختم ہونے کے بعد سے حزب اختلاف کے متعدد حریف دھڑوں کا قبضہ رہا ہے اور اس وقت یہ زیادہ تر ہیئت تحریر الشام کے کنٹرول میں ہے۔
Uses in Urdu کی میڈیا سپیشلسٹ مینا اللامی کہتی ہیں کہ 'اسے نصرہ فرنٹ کہا جاتا تھا اور بہت سے لوگ اس نام سے واقف بھی ہوں گے۔ یہ شام میں القاعدہ کی شاخ تھی۔'
سنہ 2016 میں نصرہ فرنٹ نے القاعدہ سے اپنے تعلقات توڑنے کا اعلان کیا کیونکہ مقامی باغی گروپ القاعدہ کے نام کی وجہ سے ان کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر رہے تھے۔
مینا اللامی کہتی ہیں کہ 'ہر کوئی القاعدہ کی شہرت سے خوفزدہ تھا۔ لہٰذا گروپ نے اپنی آزادی کا اعلان کیا۔'
اگرچہ جہادی گروپ ہیئت تحریر الشام کا دعویٰ ہے کہ وہ آزاد ہے اور کسی بیرونی ادارے سے منسلک نہیں اور نہ اس کے کوئی عالمی جہادی عزائم ہیں، تاہم اقوامِ متحدہ، امریکہ اور ترکی اسے القاعدہ سے وابستہ گروہ سمجھتے ہیں اور اس کا شمار دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں کرتے ہیں۔
شامی صحافی سارکیس کاسرگیان کا کہنا ہے کہ خطے میں ہیئت تحریر کی حمایت کرنے والے بہت سے بنیاد پرست گروہ موجود ہیں، جیسے ترکستان اسلامک پارٹی جو ایک چینی ایغور اکثریتی جہادی گروپ ہے۔
زیادہ تر ترکی کے حمایت یافتہ عسکریت پسندوں کو ادلب سے باہر نکالنے کے بعد ہیئت تحریر الشام نے علاقے میں ایک انتظامی اتھارٹی قائم کر لی ہے۔
مینا اللامی کہتی ہیں کہ ’اس میں وزارتیں ہیں، اس میں ایسے وزرا شامل ہیں جو سوشل میڈیا پر بہت متحرک ہیں، نئے منصوبوں کا افتتاح کر رہے ہیں، تعمیر نو پر توجہ دے رہے ہیں، اور گریجویشن ایونٹس میں شرکت کر رہے ہیں۔‘
’لہٰذا یہ واقعی خود کو ایک چھوٹی ریاست کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ریاست کے اندر ایک چھوٹی ریاست چل رہی ہے اور یہ بین الاقوامی برادری کی منظوری حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔‘
سنہ 2017 میں ترکی، جس نے شامی حکومت کی مخالفت کی تھی، اور شام کے اتحادی روس اور ایران نے قزاقستان کے دارالحکومت آستانہ میں ہونے والے مذاکرات میں ادلب سمیت ہتھیاروں سے پاک (ڈی ایسکلیشن) زون قائم کرنے کے لیے ایک معاہدہ کیا تھا، جس کا مقصد لڑائی کو روکنا تھا۔
اگلے سال روس اور ترکی نے صوبہ ادلب میں ایک غیر فوجی علاقہ بنانے پر اتفاق کیا تاکہ وہاں مقیم باغی جنگجوؤں سے سرکاری افواج کو الگ کیا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ طاس معاہدے کی منسوخی کے اعلان کے خلاف سیاسی رہنما اور قانونی ماہرین یک زبان
عفرین کون کنٹرول کر رہا ہے؟
شام کے شمال مغرب میں واقع کردوں کے زیر قبضہ رہنے والا عفرین آج ترکی کی حمایت یافتہ بشار الاسد مخالف گروہوں کے کنٹرول میں ہے۔
سنہ 2018 میں ترکی نے کرد وائی پی جی جنگجوؤں پر مشتمل ایک بارڈر سکیورٹی فورس تشکیل دینے کے امریکی فیصلے کے بعد سرحد کے دوسری طرف کرد فورسز پر بڑے پیمانے پر حملہ شروع کیا۔
ان حملوں کو ترکی قومی سلامتی کے لیے خطرہ اور عسکریت پسندوں کے گروہ ’پی کے کے‘ کی شاخ کے طور پر دیکھتا ہے، جو ترکی کے جنوب مشرق میں تین دہائیوں سے جنگ لڑ رہا ہے۔
اس وقت سے ترکی اور اس کے اتحادی شامی گروہ نے عفرین کے علاقے کو کنٹرول کر رکھا ہے۔
ترکی نے سنہ 2017 میں ان عسکریت پسند گروہوں کو اکٹھا کیا تھا جن کو اس نے شامی نیشنل آرمی (SNA) کا نام دیا تھا۔ انہیں پہلے فری سیرین آرمی (FSA) کہا جاتا تھا۔
شامی نیشنل آرمی ان گروہوں پر مشتمل ہے جو براہ راست ترک فوج یا انٹیلیجنس سے منسلک ہیں، مثلاً سلطان مراد ڈویژن اور دیگر گروپس جن کا تعلق اخوان المسلمون اور قطر سے ہے۔
Uses in Urdu کی مینا اللامی کہتی ہیں کہ ’جہاں تک ہماری معلومات ہیں یہ گروہ جہادی گروپس کے ساتھ مل کر کام نہیں کرتے۔‘
’تاہم یہ یقیناً خطے میں ترکی کے اپنے ایجنڈے، ترجیحات اور عزائم کے عین مطابق ہیں۔ لہٰذا وہ کُرد قیادت والی شامی جمہوری فورسز اور یقیناً شامی حکومتی افواج کے سخت محالف ہیں۔‘
ترکی کی حمایت سے شامی نیشنل آرمی آج دریائے فرات کے مغرب میں عفرین سے جرابلس تک اور مشرق میں راس العین اور تل ابیض تک کے علاقوں کو کنٹرول کر رہی ہے۔
30 نومبر کو انھوں نے حلب کے شمال میں کرد فورسز کے خلاف آپریشن شروع کیا اور پیش قدمی کرتے ہوئے تل رفعت نامی قصبے سمیت دیگر علاقوں پر کنٹرول حاصل کر لیا جو پہلے کردوں کے زیر قبضہ تھے۔
شامی نیشنل آرمی دراصل شام کی عبوری حکومت نامی انتظامی اتھارٹی کا حصہ ہے جبکہ ترکی کی حکومت اور فوج بھی خطے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سپورٹس بورڈ پنجاب کے زیراہتمام کھیلتا پنجاب گیمز کے دلچسپ مقابلے جاری
منبج پر کس کا کنٹرول ہے؟
شمال میں ایک اور نمایاں گروپ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (SDF) ہے۔
کردوں، عربی ملیشیا اور باغی گروہوں کا یہ اتحاد دریائے فرات کے مشرق سے عراقی سرحد اور مغرب میں منبج شہر تک کے علاقوں کو کنٹرول کرتا ہے۔
شامی ڈیموکریٹک فورسز نے 2018 میں یکطرفہ طور پر شمالی اور مشرقی شام کی خود مختار انتظامیہ کے نام سے ایک ادارے کا اعلان کیا جو شام کے ایک چوتھائی علاقے کو کنٹرول کرتا ہے اور امریکہ اور روس دونوں کے فوجی اڈوں کے لیے میزبانی کا کام انجام دیتا ہے۔
سیکورٹی تجزیہ کار سیرہت ارکمین کے مطابق ’ایس ڈی ایف دیگر اپوزیشن گروپس سے الگ، اپنی بین الاقوامی قانونی حیثیت قائم کرنے کے لیے واشنگٹن اور ماسکو کے ذریعے دونوں چینلز کو استعمال کر رہا ہے۔
’ایک طرف تو وہ شامی حکومت سے مذاکرات کر رہے ہیں تاکہ ملک کے مستقبل میں ان کی حیثیت کا تعین کیا جا سکے، تو دوسری طرف وہ امریکہ کے ساتھ قریبی سیاسی، اقتصادی اور عسکری ہم آہنگی برقرار رکھے ہوئے ہیں، جس کی شامی حکومت بھرپور مخالفت کرتی ہے۔‘
ترکی کی سرحد پر شامی ڈیموکریٹک فورسز کی موجودگی انقرہ کے لیے باعث تشویش ہے، اور بہت سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حلب کی طرف باغیوں کی حالیہ پیش قدمی کا ایک مقصد بشار الاسد حکومت کو ترکی کے صدر اردوغان کے ساتھ شمال میں ایک مخفوظ زون کے حوالے سے معاہدے پر بات چیت کرنے پر مجبور کرنا ہے۔
کیا نام نہاد دولتِ اسلامیہ کا خطرہ ٹل گیا؟
عسکریت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ (آئی ایس)، جسے داعش بھی کہا جاتا ہے، نے سنہ 2014 میں اپنی نام نہاد خلافت کا اعلان کیا تھا اور برسوں تک شام اور عراق کے وسیع حصوں پر قبضہ کرنے میں اسے کامیابی ملی تھی۔
داعش کے آنے کے بعد شام میں جنگ کا رخ بدل گیا تھا، اور اسے شکست دینے کے لیے 70 سے زائد ممالک نے امریکی قیادت میں اتحاد تشکیل دیا تھا۔
سنہ 2019 میں اس اتحاد نے بالآخر داعش کو شام میں اس کی آخری پناہ گاہ سے نکال باہر کیا، لیکن کیا شام میں داعش کا خطرہ مکمل طور پر ختم ہو گیا ہے؟
مینا اللامی کہتی ہیں کہ ’یہ اب ایک باغی گروپ کی طرح ہے جو ’ہٹ اینڈ رن‘ کی حکمت عملی پر حملے کر رہا ہے، لیکن یہ شام میں اب بھی بہت فعال ہے، اور اس سال اس کے حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ داعش کے لیے ایک اہم موڑ اس وقت آ سکتا ہے جب وہ آئی ایس کے جنگجوؤں اور زیر حراست خاندانوں کو سیریئن ڈیموکریٹک فورسز کے زیر کنٹرول مختلف کیمپوں سے رہا کروانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ نام نہاد دولت اسلامیہ کی شکست کے پانچ سال بعد بھی ہزاروں افراد کو حراست میں لیا جا رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ان میں 11,500 مرد، 14,500 خواتین اور 30,000 بچے کم از کم 27 حراستی مراکز اور دو حراستی کیمپوں میں رکھے گئے ہیں۔
مینا اللامی کہتی ہیں کہ ’داعش کی نظر ان کیمپوں پر ہے۔ یہ کسی بھی بحران، سکیورٹی میں کسی بھی کمزور لمحے کا منتظر ہے کہ کب وہ ان کیمپوں اور جیلوں پر حملے کرے اور وہاں سے اپنے لوگوں کو آزاد کروائے۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’شمالی شام میں ترکی کی قیادت میں ایک بڑا فوجی آپریشن ہو سکتا ہے، اور یہ ممکنہ طور پر کرد فورسز کے خلاف ہو گا یا شام میں شیعہ ملیشیا کے خلاف ایک بڑا امریکی آپریشن بھی ممکن ہے۔‘