منشیات کے مخر سمگلر کا احتساب: پاکستان نژاد آصف حفیظ عرف “سلطان” کا امریکہ میں اعتراف

امریکی محکمۂ انصاف کا کہنا ہے کہ آصف حفیظ، عرف سلطان، نے مینہیٹن کی ایک وفاقی عدالت میں ہیروئن، میتھ اور حشیش سمگل کرنے کی سازش کا اعتراف کیا ہے۔

18 نومبر 2024 کو امریکی اٹارنی ڈیمیئن ولیمز نے بتایا کہ آصف حفیظ دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے منشیات سمگل کرنے کا ایک عالمی نیٹ ورک چلا رہے تھے۔ ان کے مطابق اس اعتراف کا مطلب ہے کہ 'دنیا میں منشیات کے سب سے طاقتور سمگلروں میں سے ایک کا احتساب ہوگا۔'

ڈیمیئن ولیمز کا یہ بھی کہنا تھا کہ آصف حفیظ امریکہ اور دنیا بھر میں 'منشیات کی خطرناک مقدار سمگل کر رہے تھے۔'

آصف حفیظ کو 25 اگست 2017 کو لندن سے گرفتار کیا گیا تھا اور 12 مئی 2023 کو ان کی امریکہ حوالگی ہوئی تھی۔ انھیں امریکی ڈسٹرکٹ جج وکٹر مریرو کی عدالت میں سزا سنائی جائے گی۔

’سلطان‘ امریکہ کو چھ سال سے مطلوب تھے

’سلطان‘ امریکہ کو چھ سال سے مطلوب تھے

تقریباً نو سال قبل کینیا کے شہر ممباسا میں کولمبیا کے منشیات فروش گروپ کے نمائندوں کے طور پر اپنا تعارف کروانے والے دو افراد کی بکتاش عکاشہ نامی شخص سے ملاقات وہ موقع تھا جس کے بعد لاہور سے تعلق رکھنے والے پاکستانی نژاد برطانوی شہری محمد آصف حفیظ عرف ’سلطان‘ پر منشیات سمگلنگ کے الزامات کے تحت گھیرا تنگ ہونا شروع ہوا تھا۔

اس ملاقات کے دوران ان افراد نے بکتاش سے کہا کہ ان کا کولمبیئن آرگنائزیشن نامی گروہ سے تعلق ہے اور وہ امریکہ میں سمگلنگ کے لیے اعلیٰ معیار کی ہیروئین خریدنا چاہتے ہیں۔

اس پر بکتاش عکاشہ نے انھیں سو فیصد ’وائٹ کرسٹل‘ یا ملاوٹ سے پاک ہیروئن سپلائی کرنے کا یقین دلایا۔

یہ دونوں افراد کسی منشیات فروش گروہ کے ارکان نہیں بلکہ دراصل انڈر کور ایجنٹس تھے جو انسداد منشیات کے امریکی ادارے ڈی ای اے کے لیے کام کر رہے تھے۔

پاکستانی نژاد آصف حفیظ کو امریکی حکام کی درخواست پر 25 اگست 2017 کو برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے مرکزی لندن میں واقع ان کے فلیٹ سے گرفتار کیا تھا

ان پر 2013 سے جنوری 2017 کے دوران کینیا میں ہونے والے منشیات سے متعلق واقعات میں مرکزی کردار ادا کرنے کے الزامات لگائے گئے تھے۔

اس کیس میں کینیا سے تعلق رکھنے والے دو سگے بھائیوں بکتاش عکاشہ اور ابراہیم عبداللہ عکاشہ، بالی وڈ اداکارہ ممتا کلکرنی کے مبینہ ساتھی اور انڈین شہری وکی گوسوامی اور ایک پاکستانی شخص غلام حسین کو بھی شریک ملزم قرار دیا گیا تھا۔

لاہور کے محمد آصف حفیظ کے خلاف منشیات سمگلنگ کے الزامات کی کہانی کا آغاز ستمبر 2014 میں کینیا میں ہونے والی اس ملاقات سے ہوتا ہے جب بکتاش عکاشہ، ابراہیم عبداللہ عکاشہ، غلام حسین، وکی گوسوامی اور ایک پانچویں نامعلوم شریک ملزم کے درمیان ملاقات ہوئی تھی۔

اس ملاقات میں بتایا گیا کہ ہیروئین سپلائر ’سلطان‘ نے پانچویں نامعلوم شخص کو اپنے نمائندے کے طور پر بھیجا ہے۔

ملاقات کے دوران وکی گوسوامی نے ’سلطان‘ کے نمائندے کو ہیروئین کا ایک کلو گرام سیمپل مہیا کرنے کو کہا۔

اس ملاقات کے چند دن بعد آصف حفیظ نے وکی گوسوامی اور کینیا میں موجود اپنے نمائندے سے ہیروئین کے سودے کے بارے میں فون پر بات کی اور اگلے ماہ ہی ابراہیم عکاشہ نے کولمبیا ڈرگ مافیا کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے ایجنٹ سے نیروبی میں ملاقات کی اور اسے تقریباً ایک کلو گرام ہیروئین مہیا کی۔

جبکہ اسی سال نومبر میں ابراہیم عکاشہ اور ’سلطان‘ کے نمائندے نے کولمبیئن آرگنائزیشن سے تعلق ظاہر کرنے والے دونوں انڈر کور ایجنٹس سے ملاقات کی اور انھیں 98 کلو گرام ہیروئین فراہم کی۔

جبکہ 2015 میں آصف حفیظ عرف سلطان نے وکی گوسوامی کے ساتھ مل کے افریقی ملک موزمبیق کے شہر مپوٹو کے مضافات میں میتھ تیار کرنے والی ایک فیکٹری لگانے کا منصوبہ بنایا تاکہ اسے امریکہ سمیت دیگر ممالک سمگل کیا جا سکے۔

اس سلسلے میں اپریل 2016 کو ایک شخص کو افریقہ سے انڈیا بھیجا گیا تاکہ مپوٹو کے مضافات میں قائم ہونے والی فیکٹری میں استعمال کے لیے ایفیڈرین کی ایک ملٹی ٹن کھیپ کی روانگی کا بندوبست کیا جا سکے جبکہ بعد میں انڈین حکام نے سولاپور میں ایک فیکٹری پر چھاپہ مار کر 18 ٹن ایفیڈرین قبضے میں لے لی تھی۔

ان تمام واقعات کا حوالہ 2017 میں محمد آصف حفیظ عرف ’سلطان‘ کی گرفتاری کے موقع پر جاری کی گئی ایک چارج شیٹ میں کیا گیا ہے۔

اور اب تقریباً نو برس بعد آخر کار امریکی انسداد منشیات کا ادارہ ڈرگ انفورسمنٹ ایجنسی اپنے دیرینہ ہدف کو چھ سالہ عدالتی جنگ جیتنے کے بعد برطانیہ سے امریکی جیل منتقل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔

امریکی حکومت نے آصف حفیظ پر امریکہ میں ہیروئین، میتھ اور حشیش کی سمگلنگ کی منصوبہ بندی کے الزامات پر امریکہ کے حوالے کرنے کی درخواست کی تھی۔

ان پر امریکہ میں سمگل کرنے کے لیے ہیروئین کی پیداوار میں جانتے بوجھتے مدد فراہم کرنے کا بھی الزام ہے۔

محمد آصف حفیظ، جنہیں عدالتی کاغذات میں ’سلطان‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کی امریکہ حوالگی کے بارے میں تقریباً چھ سال جاری رہنے والی عدالتی جنگ پچھلے ماہ اس وقت ختم ہوئی جب انسانی حقوق کی یورپی عدالت میں سات ججوں پر مشتمل بینچ نے ان کی اپیل کو مسترد کر دیا۔ اس فیصلے نے برطانوی حکومت کے لیے انہیں امریکہ کے حوالے کرنے کی راہ ہموار کر دی۔

اپنی اپیل میں آصف حفیظ نے نشاندہی کی تھی کہ ان کی امریکہ حوالگی سے عالمی کنونشن کے تحت حاصل انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو گی، کیونکہ انہیں امریکی جیلوں میں غیر انسانی اور تحقیر آمیز سلوک کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مزید یہ کہ انہیں جن الزامات کا سامنا ہے، ان کی بنیاد پر امریکی عدالتوں میں عمر قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے، جس میں پیرول پر رہائی کا کوئی امکان نہیں ہوگا۔

تاہم، جج گیبرئیلا ککسکو شٹاڈلمائر کی سربراہی میں انسانی حقوق کی یورپی عدالت کے سات رکنی بینچ نے ان کی اپیل کو مسترد کر دیا۔

اٹھارہ صفحات پر مشتمل اپنے فیصلے میں سات یورپی ججوں نے آصف حفیظ کے وکلا کی جانب سے پیش کردہ تمام دلائل پر تفصیل سے بحث کی، لیکن انہوں نے ان کی دلیل سے اتفاق نہیں کیا۔

یہ بھی پڑھیں: سرحد پر رہائش پذیر لوگوں کا واحد ذریعہ معاش باڈرز ٹریڈ ہے، صادق سنجرانی

ویسٹ منسٹر مجسٹریٹ کورٹ میں کارروائی

ویسٹ منسٹر مجسٹریٹ کورٹ میں کارروائی

اس سے پہلے، سنہ 2018 کے وسط میں، آصف حفیظ کی امریکہ حوالگی کی درخواست کی سماعت ہوئی تھی۔ اس موقع پر انہوں نے اپنے ممکنہ ٹرائل کے دوران اپنے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں اپنے ساتھی قیدیوں کی طرف سے بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑے گا اور انہیں ایک مخبر کے طور پر دیکھا جائے گا۔

اس سلسلے میں ان کے وکلا نے مختلف حکومتی اداروں سے ان کے روابط کے ثبوت پیش کیے، جن میں انہوں نے ان اداروں کو ایسی خفیہ معلومات فراہم کی تھیں جن کی بنیاد پر بھاری مقدار میں منشیات کو قبضے میں لیا گیا تھا۔

سماعت کے دوران ایک امریکی اٹارنی مسٹر ایم کے نے ان کے حق میں گواہی دی اور عدالت کو بتایا کہ ٹرائل سے پہلے آصف حفیظ کو مین ہیٹن میں واقع میٹروپولیٹن کوریکشن سنٹر یا بروکلین کے میٹروپولیٹن حراستی مرکز میں رکھا جائے گا، جہاں انہیں متعدد مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ایک اور امریکی اٹارنی مس ڈی سی نے بھی آصف حفیظ کے حق میں گواہی دی تھی، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ انہیں جن الزامات کا سامنا ہے ان میں سے ہر ایک کے لیے انہیں ممکنہ طور پر دس سال قید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اور ان کے لیے یہ خطرہ موجود ہے کہ ان کی مجموعی سزا عمر قید ہو سکتی ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکی فیڈرل سسٹم کے تحت پیرول پر رہائی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔

اپنے فیصلے میں برطانوی ڈسٹرکٹ جج جان ذانی نے ان دلائل کو مسترد کیا اور قرار دیا کہ چاہے آصف حفیظ کو مین ہیٹن کی جیل میں رکھا جائے یا بروکلین کے حراستی مرکز میں، دونوں صورتوں میں حالات اس حد سے اوپر نہیں جاتے کہ ان کے انسانی حقوق کے کنونشن کے آرٹیکل تین کے تحت حاصل حقوق کی خلاف ورزی کی جا سکے۔

ڈسٹرکٹ جج نے آصف حفیظ کے وکلا کے اس مؤقف کو بھی رد کر دیا تھا کہ انھیں دیگر قیدیوں کی طرف سے بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ آصف حفیظ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے روابط کسی طرح سے اعلیٰ اخلاقی وجوہات کے سبب قائم کر رکھے تھے۔

انھوں نے کہا کہ حفیظ نے ان لوگوں کے بارے خفیہ معلومات قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فراہم کیں جو جرائم کی دنیا میں ان کے وسیع کاروبار میں ان کے مخالفین میں سے تھے۔

جج جان ذانی نے امریکہ حوالگی کی صورت میں آصف حفیظ کی صحت پر ہونے والے ممکنہ اثرات کے بارے میں دئیے گئے دلائل بھی مسترد کر دیے۔ انھوں نے کہا کہ امریکی جیل حکام کو آصف حفیظ کی صحت کو درپیش مسائل کے بارے میں خبردار کر دیا گیا ہے اور انھوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان کی علاج معالجے کی ضروریات کو اچھے طریقے سے پورا کیا جائے گا۔

ڈسٹرکٹ جج نے 11 جنوری 2019 کو سنائے گئے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ ان کی رائے میں آصف حفیظ کی امریکہ حوالگی کے سلسلے میں تمام تقاضے پورے ہو رہے ہیں اور اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ اپنی ان آرا کے ساتھ انھوں نے معاملہ سیکریٹری آف سٹیٹ برائے داخلہ کو بھیج دیا جنھوں نے پانچ مارچ 2019 کو آصف حفیظ کی امریکہ حوالگی کا حکم دے دیا۔

اس سے پہلے کہ سیکریٹری آف سٹیٹ برائے داخلہ کے حکم پر عمل درآمد ہوتا، آصف حفیظ نے لندن ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا اور سیکریٹری آف سٹیٹ برائے داخلہ کے حکم کے خلاف اپیل کی اجازت مانگی۔

ان کی درخواست پر ابتدائی سماعت 27 ستمبر 2019 کو ہوئی۔ بعد میں اس سلسلے میں باقاعدہ سماعت دسمبر 2019 میں ہوئی۔ سماعت کے دوران درخواست دہندہ نے حراست کے دوران سہولتوں کی عدم دستیابی اور دیگر معاملات سے متعلق نئے شواہد عدالت کے سامنے پیش کرنے کی استدعا کی جسے مسترد کر دیا گیا۔

آصف حفیظ کے مخبر ہونے کے دعوے پر عدالت نے کہا کہ امریکی حکومت انھیں ایک مخبر نہیں سمجھتی اور اس بنیاد پر وہ اس ’اسٹیٹس کا فائدہ حاصل نہیں کر سکتے جو انھیں حاصل ہی نہیں ہے۔‘

کیس کے دیگر پہلوؤں سے متعلق پیش کیے گئے دلائل بھی عدالت کو اس امر پر مطمئن نہ کر سکے کہ آصف حفیظ کو باقاعدہ اپیل کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ لندن ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ 31 جنوری 2020 کو جاری کیا۔

اس کے بعد آصف حفیظ نے انسانی حقوق کی یورپی عدالت سے رجوع کیا جس نے 24 مارچ 2020 کو ایک عبوری حکم امتناع جاری کرتے ہوئے ان کی امریکہ حوالگی کی کارروائی کو روک دیا تھا۔

شریک ملزمان کے ساتھ کیا ہوا؟

آصف حفیظ کے چار شریک ملزمان بکتاش عکاشہ، ابراہیم عبداللہ عکاشہ، وکی گوسوامی کو ابتدائی طور پر نو نومبر سن 2014 کو کینیا میں گرفتار کیا گیا لیکن بعد میں وہ ضمانت پر رہا ہو گئے جبکہ ان کی امریکہ حوالگی کا کیس کینیا کی عدالتوں میں زیر سماعت رہے۔

تاہم 29 جنوری 2017 کو کینیا کی حکومت نے ان کی ملک بدری کے احکامات جاری کیے، جن کی بنیاد پر انہیں حراست میں لے کر امریکہ منتقل کیا گیا۔

نیویارک کی سدرن ڈسٹرکٹ میں ٹرائل کے بعد بکتاش عکاشہ کو اگست 2019 میں 25 سال قید اور ایک لاکھ ڈالر جرمانے کی سزا سنائی گئی۔

بعد میں جنوری 2020 میں اختتام پذیر ہونے والے ایک ٹرائل کے نتیجے میں ابراہیم عبداللہ عکاشہ کو 23 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

ابھی تک امریکی حکومت کی طرف سے دیگر دو شریک ملزمان کے بارے میں کچھ واضح نہیں کیا گیا۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...