ہم سب جدی پشتی دوست تھے، روز جامن، شہتوت کھانے مادھوپور ہیڈ ورکس جاتے، واپسی پر نہر میں تیرتے سجان پور آتے، ہندو اور سکھ لڑکے بھی ساتھ ہوتے

مصنف کی معلومات
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 10
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم نے وفاقی وزراءکی ایوان میں غیر حاضری کا نوٹس لے لیا
قصبے کی حویلیاں
اس قصبے کی 3 حویلیاں مشہور تھیں۔ پہلی حویلی "صمد میر" (صمد میر کشمیری رئیس تھے) تھی۔ اس حویلی کے چالیس پچاس کمرے تھے اور 100 دروازے کھڑکیاں تھیں۔ یہ عرصہ دراز سے بند رہنے کی وجہ سے ویران ہو گئی تھی۔ ایک روز قصبہ کے بڑوں نے جن میں میرے والد، تمھارے دادا، امیر الدین صاحب اور انکل نجو کے والد قمر الدین شامل تھے، فیصلہ کیا کہ مسلمانوں کی اس حویلی میں لڑکوں کا ہائی سکول قائم کیا جائے جو قائم ہوا۔ میرے والد اس سکول کے انتظامی سربراہ مقرر ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد یہاں ہندوؤں نے قبضہ کر لیا اور اسے ڈی آئی وی (DIV Dayanand Anglo Vedic) "دیانند انگلو ویدکسکول" میں تبدیل کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: انڈر19 ویمنز ایشیا کپ: نیپال نے بھی پاکستان کو ہرا دیا
دوسری حویلی: شاہ صاحب کی حویلی
دوسری "شاہ صاحب کی حویلی"، میرے والد کی یہ حویلی تقریباً 20 کنال رقبہ پر پھیلی تھی۔ ارد گرد وسیع میدان تھا۔ تقسیم ہند کے بعد اس پر بھی ہندو قابض ہو گئے اور یہاں لڑکیوں کا سکول ہائی سکول بنا دیا۔ یہ دونوں سکول آج بھی قائم ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: گوجرانوالہ میں پی ٹی آئی کارکنان کا ایس ایچ او پر تشدد، ضلعی صدر کو حراست سے چھڑا لیا
تیسری حویلی: صاحب رشید کی حویلی
تیسری "صاحب رشید" کی حویلی یعنی تیرے دادا کی حویلی۔ ہماری اطلاع کے مطابق یہاں کوئی سرکاری ہسپتال بنا دیا گیا تھا۔ تمھارے دادا کی طرح میرے والد بھی پاکستان بننے سے پہلے انتقال کر گئے تھے اور اپنی اپنی حویلی میں دفن ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: شام میں اپوزیشن فورسز کی پیش قدمی، ایران بھی میدان میں، منصوبہ سامنے آگیا
ابا جی کی کہانی
ابا جی نے مجھے بتایا تھا؛ "بیٹا! مادھو پور ہیڈورکس سجان پور سے 4 میل اپ سٹریم دریائے راوی پر تعمیر کیا گیا تھا جس سے 2 نہریں 'لوئر باری دوآب' (یہ سجان پور سے ہوتی پٹھانکوٹ سے گزرتی آگے بہتی تھی۔ لاہور شہر کے بیچ سے بہتی نہر اسی لوئر باری کی آف شوٹ ہے) اور 'اپر باری دوآب' (یہ اوکاڑہ، ساہیوال کی جانب بہتی تھی) نکالی گئی تھیں۔ چھٹیوں میں، میں، سیلم شاہ (انکل شاہ نے مختلف ملازمتیں کیں، ایڈیشنل سیکرٹری ٹرانسپورٹ بھی رہے)، مقصود بٹ، (ان کے والد کا سجان پور میں ریشم کا کارخانہ تھا. پاکستان آ کر یہ ایک فلور مل میں منیجر تھے۔ ہنس مکھ اور پہلوان آدمی تھے۔ شیخ رشید کے والد انہی کے کارخانے میں ریشم کے کیٹروں سے ریشم نکالتے تھے)، انکل نجو (اصل نام نذیر تھا، سوئی ناردرن گیس میں ڈسٹربیوشن انجینئرتھے)، امین انکل (سرگودھا میں سیٹل ہوئے، پرائیویٹ ملازمت کرتے تھے)، راجہ سیلم اختر (پاکستان ائیر فورس میں فائیٹر پائلٹ تھے۔ ڈپیوٹیشن پر دوبئی کے حکمران شیخ زید کے پاس گئے اور پھر انہوں نے انہیں واپس نہیں آنے دیا۔ انکل سیلم اختر شیخ زید بن سلطان کے ذاتی پائلٹ تھے اور دوبئی کے موجودہ حکمران شیخ سلطان محمد بن راشد المکتوم کو جہاز اڑانا بھی انہوں نے ہی سکھایا تھا)۔ بیٹا! ہم سب جدی پشتی دوست تھے۔ روز جامن، شہتوت کھانے مادھوپور ہیڈورکس جاتے تھے اور واپسی پر نہر میں تیرتے سجان پور آتے۔ کچھ ہندو اور سکھ لڑکے بھی ساتھ ہوتے تھے۔ جب ہم کالج میں پہنچے اور پھر پاکستان بن گیا تو دوستوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گیا۔ جیسے جعفر، یاسینٰ (یہ دونوں ریلوے کے اکاؤنٹ آفس میں تھے)، ڈاکٹر اعجاز میر (آنکھوں کے نامور سرجن اور فلم ڈائر یکٹر)، کرنل ستار شاہ (یہ فوج میں ڈنٹسٹ تھے۔ والد کے سبھی دوست انہیں دندان ساز کہتے اور وہ اس کا برا مناتے تھے)۔ انکل یہ یار جب کبھی اکھٹے بیٹھے ہوتے تو ان کی محفل کشت زعفران بن جاتی تھی.
(جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔