کراچی کی آلودہ ساحلی پٹی: “ایک وقت تھا جب ہم یہاں بال دھوتے تھے، اب یہ مٹی پاؤں میں لگ جائے تو کئی دن تک دھونے سے بھی نہیں جاتی”
’جب میں چھوٹا تھا تو اس وقت یہ مٹی اتنی سفید ہوتی تھی کہ ہم اپنے بال دھویا کرتے تھے، اور آج اگر یہی مٹی پاؤں پر لگ جائے تو کئی دن تک پاؤں سے کالک نہیں جاتی ہے۔‘
کراچی کے علاقے ریڑھی گوٹھ کے رہائشی نواز علی نے ساحل سمندر پر موجود سیاہ مٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنی بات کا آغاز کیا۔ نواز پیشے کے لحاظ سے مچھیرے ہیں اور اُن کی عمر 40 سال کے لگ بھگ ہے۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’پہلے یہاں کا پانی صاف ہوا کرتا تھا اور ہم ساحل کے نزدیک پانیوں سے مچھلی پکڑ کر بازار میں بیچا کرتے تھے۔ مگر گذشتہ چند برسوں سے پورے کراچی کا سیوریج کا پانی اس سمندر میں بہایا جا رہا ہے، (یہاں کی) پوری مٹی کالی ہو گئی ہے۔‘
نواز بتاتے ہیں کہ ’ماضی میں کراچی شہر کے طول و عرض میں بہنے والے برساتی نالوں کے ذریعے پانی اور صاف مٹی سمندر میں داخل ہوتی تھی جس سے ساحل کے قریب موجود جزیرے بڑے ہوتے تھے۔ اب حالت یہ ہے کہ وہ جزیرے جن پر ہم کبھی 10 کلومیٹر پیدل چل کر کنارے پر پہنچتے تھے، وہ سمندر برد ہو چکے ہیں۔‘
’پہلے پانی بہت صاف تھا اور اگر حادثاتی طور پر کوئی ڈوب جاتا تو اسے بآسانی تلاش کر لیا جاتا تھا مگر اب سیاہی مائل مٹی کی وجہ سے ڈوبنے والوں کی لاشیں کئی کئی روز تک نہیں ملتیں۔ سیوریج کے پانی نے ساحل کے نزدیکی علاقوں میں دلدل کی صورت اختیار کر لی ہے اور اکثر ڈوبنے والے یہاں پھنس جاتے ہیں۔‘
نواز کے مطابق اس سب کی بڑی وجہ قریب واقع بھینس کالونی سے سمندر میں بہایا جانے والا ہزاروں ٹن فضلہ ہے۔
اُن کے مطابق اِس ساری گندگی کی صورتحال کے باعث پاپلیٹ، کڈی، جھینگا، پھاڑ سمیت دیگر اقسام کی مچھلیاں اب یہاں سے ناپید ہو چکی ہیں۔
مریم بھی ریڑھی گوٹھ کی رہائشی ہیں۔ ان کو شکوہ ہے کہ ناصرف ساحلی علاقوں سے مچھلیوں کی تعداد کم ہو گئی ہے بلکہ جو مچھلی ملتی بھی ہے اس کا ذائقہ ٹھیک نہیں ہوتا۔
’جو مچھلی ساحل کے نزدیکی پانیوں سے پکڑ کر لاتے ہیں وہ پکانے میں ذائقہ دار نہیں ہوتی، گٹر کے پانی نے مچھلی کا ذائقہ بھی خراب کر دیا ہے۔‘
کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے سنہ 2015 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں روزانہ تقریباً 470 ایم جی ڈی سیوریج پیدا ہوتا ہے جو کہ شہر میں سپلائی کیے جانے والے پانی کا 70 فیصد ہے۔ تاہم یہ اعداد و شمار ناصرف سرکاری ہیں بلکہ نو سال پرانے بھی۔
ورلڈ بینک کے اندازوں کے مطابق دنیا میں ہر فرد کو یومیہ اوسطاً 40 گیلن تک پانی درکار ہوتا ہے۔ اور اگر اس اندازے کو سامنے رکھا جائے تو ڈھائی کروڑ کی آبادی کے کراچی شہر کی پانی کی روزانہ ضرورت 1000 ایم جی ڈی ہے اور اگر ان بنیادوں پر تخمینہ لگایا جائے تو کراچی میں پیدا ہونے والے سیوریج کی مقدار 700 ایم جی ڈی کے لگ بھگ بنتی ہے۔
اتنی بڑی مقدار میں خارج ہونے والے سیوریج کو ٹریٹ کرنے کے لیے کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے تحت تین سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ قائم ہیں۔ یعنی ٹی پی 1، ٹی پی 2 اور ٹی پی 3۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اِن تینوں پلانٹس میں سیوریج کو ٹریٹ کرنے کی مجموعی صلاحیت 150 ملین گیلن روزانہ (ایم جی ڈی) ہے تاہم کراچی کے علاقے محمود آباد میں واقع ٹریٹمنٹ پلانٹ، ٹی پی 2، مکمل طور پر بند ہے جبکہ دیگر دو جزوی طور پر چل رہے ہیں۔
اس ضمن میں Uses in Urdu نے کے ڈبلیو ایس سی کے افسران کو سوالات بھیجے تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
میئر کراچی مرتضی وہاب نے Uses in Urdu کے روحان احمد کی جانب سے بھیجے گئے سوالات کے جواب میں تحریری طور پر بتایا کہ ’شہر میں درحقیت چار سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس ہونے چاہییں تھے۔ ٹی پی 2 کے لیے درکار زمین ایم کیو ایم کے دور حکومت میں الاٹ کی گئی تھی جو کہ چائینہ کٹنگ کے ذریعے حاصل کی گئی تھی جبکہ کورنگی کے علاقے میں ٹی پی 4 کبھی تعمیر ہی نہیں ہو سکا۔ موجودہ حکومت نے ٹی پی 3 کو اب فعال کر دیا ہے جس میں 54 ایم جی ڈی سیوریج کو ٹریٹ کرنے کی صلاحیت ہے اور جون 2025 تک اس صلاحیت کو 100 ایم جی ڈی تک پہنچایا جائے گا۔ ٹی پی ون کو 2025 کے اختتام تک فعال کر دیا جائے گا۔‘
’کراچی کی ساحلی پٹی کہیں ڈھائی تو کہیں پانچ کلومیٹر تک آلودہ ہو چکی ہے‘
پاکستان فشر فولک فورم کے مجید موٹانی بتاتے ہیں کہ کراچی کی کئی کلومیٹر طویل ساحلی پٹی مبارک ولیج سے شروع ہو کر بن قاسم پورٹ پر ختم ہوتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ شہر بھر سے بغیر ٹریٹ کیے سیوریج سمندر میں شامل کیے جانے کی وجہ سے کراچی کی ساحلی پٹی کسی جگہ پر ڈھائی اور کسی جگہ پر پانچ کلومیٹر تک آلودہ ہو چکی ہے اور اس صورتحال کے باعث ایسی مچھلیاں جو صاف پانی میں رہنا پسند کرتی ہیں وہ یہاں سے ہجرت کر گئی ہیں۔
مجید موٹانی کے مطابق ماحولیات پر اس کے اثر کے علاوہ ان سب کا معاشی دباؤ ماہی گیروں پر پڑ رہا ہے۔
اُن کا دعویٰ ہے کہ جو مچھلی یہاں رہ بھی گئی ہے اس میں اتنی بُو آتی ہے کہ وہ کھانے کے لائق نہیں ہوتیں اور نہ ہی مارکیٹ میں اس کا دام اچھا لگتا ہے۔
اسی علاقے میں قاسم بھی رہتے ہیں جو کیکڑے کا شکار کرنے والے چھوٹے مچھیروں کو اُن کی کشتیوں کے لیے ڈیزل اور کیکڑے پھنسانے کے لیے مرغی کے پنجے وغیرہ مہیا کرتے ہیں۔ اس کے عوض مچھیرے اپنا شکار انھی کو بیچتے ہیں۔ قاسم کہتے ہیں کہ ساحل پر گندگی کی وجہ سے اب کیکڑے کی تعداد میں بھی کمی آتی جا رہی ہے جس کے باعث اب گزارہ مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ٹیکنیکل ایڈوائزر معظم علی خان کا کہنا ہے کہ سمندر میں پانی ٹریٹ کیے جانے کے بعد ہی چھوڑنا چاہیے جبکہ صنعتوں سے نکلنے والے سیوریج کو الگ سے ٹریٹ کرنا چاہیے۔
وہ کہتے ہیں کہ 'کراچی کے دو علاقے ایسے ہیں جہاں کسی قسم کی سمندری حیات نہیں پائی جاتی، ایک کراچی پورٹ کا علاقہ جبکہ دوسرا گزری کریک کا۔'
اُن کا کہنا ہے کہ اگر اس صورتحال پر کنٹرول نہیں کیا گیا تو یہ بےقابو ہو سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن پاکستان نے پنجاب کے لیے الیکشن ٹربیونل کا اعلان کردیا
سیوریج ملے سمندری پانی میں مچھلیوں کا زندہ رہنا کیوں ممکن نہیں؟
ڈاکٹر شہناز راشد میرین بیالوجسٹ ہیں اور وہ کراچی یونیوسٹی کے انسٹیوٹ آف میرین سائنسز سے منسلک ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ کیسے بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے بدبودار گٹر کا پانی سمندر میں چھوڑنے کے نتیجے میں کراچی کی ساحلی پٹیوں سے مچھلیاں ناپید ہو رہی ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ سیوریج میں نامیاتی مادہ موجود ہوتا ہے اور جب یہ مادہ پانی کے ساتھ ملتا ہے تو اس عمل کے دوران آکسیجن کی بڑی مقدار استعمال ہوتی ہے، جس کے باعث سمندر کے اُس حصے میں جہاں سیوریج موجود ہو، وہاں آکسیجن کی سطح کم ہو جاتی ہے۔ ’اس سارے عمل کے نتیجے میں وہاں ہائپوکسیا یا 'ڈیڈ زون' وجود میں آ جاتا ہے جہاں سمندری حیات زندہ نہیں رہ سکتی۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ سیوریج کے پانی میں اکثر زہریلے کیمیکلز اور پیتھوجینز جیسے بیکٹیریا اور وائرس پائے جاتے ہیں جو سمندری حیات کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر راشد کہتی ہیں کہ یہ صورتحال صرف سمندری حیات کے لیے ہی نہیں بلکہ انسانوں اور دیگر جانوروں کے لیے بھی نقصاندہ ہے۔
کئی لوگوں کا خیال ہے کہ چونکہ گائے اور بھینسوں کا فضلہ ایک آرگینک میٹیریل ہے تو اس کے پانی میں شامل ہونے سے سمندری ماحول کو نقصان نہیں پہنچ سکتا۔
جب ہم نے یہی سوال ڈاکٹر راشد کے سامنے رکھا تو اُن کا جواب تھا کہ ’ایسا نہیں ہے۔‘
انھوں نے واضح کیا کہ ’گائے اور بھینسوں کے فضلے کو سمندر میں پھینکنے سے سمندری ماحول میں خلل پڑتا ہے اور آلودگی کی دیگر اقسام کی طرح اس سے سمندری حیات، پانی کے معیار اور ساحلی ماحولیاتی نظام پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‘
کیا ہمیں سمندری مچھلی کھانے سے اجتناب کرنا چاہیے؟
معظم علی خان کہتے ہیں کہ مچھلی کھانے کے افراد کو زیادہ فکریں کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ ان کے مطابق پاکستان کے ماہی گیری کے گراؤنڈز کراچی کے آلودہ ساحلی علاقے سے بہت دور ہیں۔
تاہم اگر یہی مچھلی کراچی کی آلودہ ساحلی پٹی کے نزدیکی پانیوں سے پکڑی جاتی ہے تو اس سے کھانے والوں کی صحت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
کراچی اربن لیب کے محمد توحید کہتے ہیں کہ پاکستان میں گرے واٹر کو دوسرے سیوریج سے الگ رکھنے کا تصور نہیں، جس کی وجہ سے شہر میں پیدا ہونے والے سیوریج کی مقدار بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔
گرے واٹر سے مراد وہ استعمال شدہ پانی ہے جس میں زیادہ کیمیکلز یا دوسرے مضر مواد شامل نہیں ہوتے، جیسے کہ واش بیسن میں منہ دھونے کے بعد جو پانی بہتا ہے جو سیوریج کا حصہ بن جاتا ہے۔
دنیا بھر میں گرے واٹر کو باغبانی اور دیگر مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اور ابتدائی مرحلے میں اس پانی کی صفائی کرنا بھی نسبتاً آسان ہوتا ہے۔
محمد توحید نے بتایا کہ ترقی یافتہ ممالک میں گھریلو سیوریج کو مرکزی سیوریج کے نظام میں شامل کرنے سے پہلے ہی اس کی صفائی کی جاتی ہے، جس سے نہ صرف سیوریج کی مقدار میں کمی آتی ہے بلکہ اس کی کیمیکل ساخت بھی ہمارے ہاں کی سیوریج سے مختلف ہوتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ تقریباً تین کروڑ کی آبادی کے سیوریج کو ٹھیک کرنا واقعی ایک مشکل چیلنج ہے۔ ان کا مشورہ ہے کہ اس مسئلے کے بارے میں لوگوں میں آگاہی پیدا کر کے شہر میں سیوریج کی مقدار میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
کراچی کی سیوریج کی صورتحال کے بارے میں محمد توحید نے کہا کہ ایک وقت تھا جب شہر میں گٹر اور برساتی نالے الگ تھے، لیکن یہ مسئلہ اس وقت شروع ہوا جب برساتی نالوں میں سیوریج کا پانی شامل کر دیا گیا اور وہ سیوریج کے نالے بن گئے۔