نیل کی لہروں کا زور ناصر جھیل نے توڑ دیا تھا، کشتی جزیرے کی طرف بڑھ رہی تھی میں دیکھ کر پریشان ہوگیا مگرمچھ چٹانوں پر بیٹھے دھوپ تاپ رہے تھے.
سفر کی شروعات
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 84
میں چٹانوں پر بنی ہوئی پتھر کی سیڑھیوں سے اترتا ہوا نشیب کی طرف واقع ایک کشتی گھاٹ پر آگیا۔ وہاں یکے بعد دیگرے کشتیاں سیاحوں سے بھرتی جاتیں اور ان کو لے کر دریا کی طرف نکل جاتیں۔
یہ بھی پڑھیں: بچوں کی سکول پک اینڈ ڈراپ: عدالت کا اہم فیصلہ
کشتیوں کا انتخاب
ان میں بادبانی کشتیاں بھی تھیں اور موٹر بوٹ بھی۔ اب یاد نہیں رہا لیکن مناسب سا کرایہ تھا۔ میں ایک بادبانی کشتی کے کونے پر لگ کر بیٹھ گیا۔ میرے علاوہ وہاں اور بھی سات آٹھ مرد اور خواتین سیاح موجود تھے۔ جو اس مختصر مگر خوبصورت سے سفر کو لے کر بڑے پُرجوش تھے اور مسلسل قہقہے لگا رہے تھے۔ کچھ فوٹو گرافی میں مشغول تھے۔
یہ بھی پڑھیں: 27ویں آئینی ترمیم کا بھی پہلے کی طرح مقابلہ کریں گے: بیرسٹر گوہر
دریا کی خوبصورتی
2 مصری ملاح چھلانگ مار کر کشتی میں کود گئے اور چپوؤں کی مدد سے کشتی کو دھکیل کر گھاٹ سے گہرے پانیوں کی طرف روانہ ہوگئے۔ ان کا سفر کناروں سے کوئی زیادہ دور نہیں تھا وہ ساحل کیساتھ ساتھ دور نظر آنے والے چٹانی سلسلے کی طرف روانہ ہوئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں دریائے نیل اس وقت اپنی خوبصورتی کی انتہا ؤں کو چھو رہا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: یو اے ای کیساتھ تعلقات پر فخر، مزید وسعت دینے کیلئے پر عزم ہیں: محسن نقوی
نکاسی کا اثر
چونکہ یہ جگہ اسوان ڈیم کے بعد شمال کی طرف تھی، اس لئے نیل کی بے چین لہروں کی طاقت کا زور ناصر جھیل نے توڑ دیا تھا، جو یہاں سے کچھ ہی دور جنوب کی طرف واقع تھا۔ اب اس کا سارا جوش و خروش پیچھے ہی رہ گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ذہنی بیماری کی دوا نے میرا وزن 20 کلو گرام بڑھا دیا
جزیرہ ایلیفینٹینا
ہماری کشتی جب اس جزیرے کی طرف بڑھ رہی تھی تو میں یہ دیکھ کر پریشان ہوگیا کہ وہاں کہیں کہیں مگرمچھ چٹانوں پر بیٹھے دھوپ تاپ رہے تھے اور ایک دو آس پاس تیرتے پھر رہے تھے۔ یہ کافی بڑے مگرمچھ تھے جیسا کہ کراچی میں منگھو پیر کے مزار والے تالاب میں ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سلمان اکرم راجا نے شیر افضل مروت کو وارننگ دے دی
آبی حیات کا مشاہدہ
چٹانوں کے بیچ میں سے گزرتے ہوئے دریا کی کئی شاخیں بہت خوبصورت منظر پیش کر رہی تھیں، آبی پرندے اوپر محو پرواز تھے اور نیچے پانی میں اپنے شکار کو دیکھ کر جھپٹتے اور اسے پکڑ کر پرواز کر جاتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: بات سمجھنے کی یہ ہے آزادی کا معاملہ ویسا ہی ہے جیسا آئرلینڈ اور انگلینڈ کے درمیان ہے، گورا سچ سننا پسند کرتا ہے اور جھوٹ سے اسے نفرت ہے.
یادگار سفر
کشتیوں کے علاوہ یہاں بڑے بڑے بحری جہاز اور بجرے بھی تھے جو دریا کے نشیبی علاقوں سے یہاں پہنچے تھے اور چونکہ آگے دریا پر ڈیم بننے کی وجہ سے سوڈان کی طرف جانے والا راستہ بند ہوگیا تھا۔
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔