ایک ہفتے میں2 دن ایسے ہوتے ہیں جو مجھے فکر اور خوف سے قطعی طور پر محفوظ رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک دن ”گزرا ہوا کل“ ہے اور دوسرا ”آنیوالا کل“
مصنف کی معلومات
مصنف: ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر
ترجمہ: ریاض محمود انجم
قسط: 72
یہ بھی پڑھیں: سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی سے بھی 26ویں آئینی ترمیم منظور
نگاہ ندامت اور پشیمانی پر
ندامت، پشیمانی اور فکرمندی شاید سب سے زیادہ عام عناصر ہیں جن کے باعث ایک معاشرہ مایوسی، افسردگی اور بے چینی و پریشانی کا شکار ہو جاتا ہے۔ ندامت اور پشیمانی کا احساس آپ کو اپنے ماضی کے کسی واقعے کی یاد دلاتا رہتا ہے۔ آپ اس چیز کے متعلق مایوسی، افسردگی، پریشانی یا غصہ محسوس کرتے ہیں جس کے متعلق آپ نے کبھی بھی اظہار نہیں کیا ہوتا اور آپ اپنے موجودہ لمحات (حال) کو ماضی کے رویے پر مبنی احساسات سے مغلوب کر لیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جوہی چاولہ بالی وڈ کی امیر ترین حسینہ، فلمسازوں کے بچوں میں ہریتھک روشن کا غلبہ
فکر کا اثر
جب آپ فکرمندی میں مبتلا ہوتے ہیں تو آپ اپنے قیمتی موجودہ لمحات کو مستقبل میں واقع ہونے والے واقعے کے احساس سے مغلوب کر لیتے ہیں۔ اس ضمن میں خواہ آپ اپنی ماضی کی یادیں کریدتے ہیں یا مستقبل میں جھانکتے ہیں، نتیجہ ایک ہی برآمد ہوتا ہے کہ آپ اپنے موجود قیمتی لمحات کو ضائع کر رہے ہوتے ہیں۔ رابرٹ برڈیٹی کی کتاب "Golden Day" ایک حقیقی ”آج“ کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ ندامت، پشیمانی اور فکرمندی جیسے احمقانہ رویے اور جذبات کی مختصراً مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کرتا ہے:
”ایک ہفتے میں2 دن ایسے ہوتے ہیں جو مجھے فکر اور خوف سے قطعی طور پر محفوظ رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک دن ”گزرا ہوا کل“ ہے اور دوسرا دن ”آنے والا کل“ ہے۔“
یہ بھی پڑھیں: دسمبر آرگینک ہے۔۔۔
ندامت اور پشیمانی کا شکار
ہم میں سے اکثر افراد اپنی زندگیوں میں ندامت اور پشیمانی کی سازش کا شکار ہو جاتے ہیں جس کے باعث ہم واقعی اور حقیقتاً ندامت اور پشیمانی محسوس کرنے لگتے ہیں۔ یہ صورتحال اس طرح واقع ہوتی ہے جب کوئی شخص ہمیں یہ یاد دلانے کے لیے پیغام بھجواتا ہے کہ آپ ایک ایسے برے شخص ہیں کیونکہ آپ نے بعض باتیں کہی تھیں یا کہنے سے گریز کیا تھا۔ آپ سرتاپا ندامت اور پشیمانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں، اور یہ ندامت اس قدر شدت اختیار کر لیتی ہے کہ آپ کا چلنا، باتیں کرنا، سانس لینا، سب کچھ ندامت اور پشیمانی پر مشتمل ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سینیٹ کا اجلاس ملتوی ، آج سہ پہر کتنے بجے ہو گا ؟ جانیے
معاشرتی دباؤ
جب آپ ایک ایسے معاشرے میں سرتاپا ڈوب جاتے ہیں جو ندامت اور پشیمانی کا محرک ثابت ہوتا ہے تو پھر آپ کے وجود میں ندامت اور پشیمانی کی آگ مزید بھڑک اٹھتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ نے فکرمندی اور ندامت اور پشیمانی کے ان پیغامات کو خود پر کیوں سوار کر لیا ہے جو سالہاسال سے آپ میں موجود تھے؟
یہ بھی پڑھیں: چیمپئنز ٹرافی فائنل لاہور سے کس ملک منتقل ہو سکتا ہے؟ حیران کن دعویٰ!
احساس کا احساس
زیادہ تر اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر آپ ندامت اور پشیمانی محسوس نہیں کرتے اور فکرمندی میں بھی مبتلا نہیں ہوتے تو آپ کو “برا” سمجھا جاتا ہے۔ آپ کے اس تمام رویئے کا انحصار آپ کے “محسوس” کرنے پر ہے۔ اگر آپ واقعی کسی چیز یا شخص کے متعلق کچھ محسوس کرتے ہیں تو پھر آپ نے جو غلطیاں کی ہیں، ان کے متعلق آپ اپنی طرف سے ندامت اور پشیمانی کے احساس کے اظہار کے لیے خوف اور ڈر ظاہر کرتے ہیں یا پھر آپ اس امر کا واضح اور ٹھوس ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ آپ مستقبل کے متعلق خوفزدہ ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: صدر نے عالمی چیمپئن زیب رند کو 10 کروڑ روپے کا چیک دیدیا
خلاصہ
آپ کا یہ رویہ اور طرزعمل ایسا ہی ہے کہ جیسے آپ خود کو ایک بہت ہی محتاط اور فکرمند شخص کے مانند پیش کرنا چاہتے ہیں۔ (جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔