علوی: وہ فرقہ جو شام میں 50 سال تک اقلیت ہونے کے باوجود حکمرانی کرتا رہا

شام کے دارالحکومت دمشق پر اتوار کو عسکریت پسند باغی گروہ ’ہیئت تحریر الشام‘ سمیت دیگر باغی گروہوں کے قبضے کے بعد بشار الاسد کے 24 سالہ دورِ اقتدار کا خاتمہ ہوا اور اس کے ساتھ ہی ملک میں مقیم علوی فرقے کی سکیورٹی کے حوالے سے خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔

بشار الاسد اور اُن کے والد علوی فرقے سے تعلق رکھتے تھے، جس کے نتیجے میں ایک سُنی اکثریتی ملک پر ایک ایسے فرقے کے پیروکاروں کی حکمرانی رہی جو تقریباً 50 برس تک برقرار رہی، جبکہ اس فرقے کے عقائد کے بارے میں بہت کم معلومات موجود ہیں۔

ہفتہ کی شام صدر بشار الاسد کی علوی اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد نے باغیوں کی جانب سے حمص پر قبضے کے بعد بڑی تعداد میں شہر چھوڑنا شروع کر دیا تھا۔ اس دوران سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی ویڈیوز میں شہر سے باہر نکلنے کی منتظر گاڑیوں کی لمبی قطاریں دیکھی جا سکتی تھیں۔

اندازوں کے مطابق شام میں علوی فرقے سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد 10 سے 13 فیصد کے درمیان ہے، لیکن اس کے باوجود گذشتہ 50 سالوں سے یہ ایک سُنی اکثریتی ملک پر حکمرانی کرتے رہے ہیں۔

سنہ 1970 کی فوجی بغاوت، جس کی سربراہی بشار الاسد کے والد حافظ الاسد کر رہے تھے، کے نتیجے میں علویوں نے شام کے اہم اداروں اور سکیورٹی کے محکموں میں اپنی اجارہ داری قائم کی۔

حافظ الاسد کی علوی فرقے سے نسبت کے باعث اُن کے شام میں دیگر اقلیتی گروہوں کے ساتھ بہتر روابط قائم ہوئے، جن سے انھوں نے مساوی حقوق اور تحفظ کے وعدے کیے تھے۔

علوی: وہ فرقہ جو شام میں 50 سال تک اقلیت ہونے کے باوجود حکمرانی کرتا رہا

مشرقِ وسطیٰ میں علویوں کو دیگر مسلمانوں کی جانب سے نہایت زیادہ لبرل یا سیکولر سمجھا جاتا ہے، اور اس فرقے کے عقائد پر دیگر فرقوں کی جانب سے شدید تنقید بھی کی جاتی ہے۔

علوی فرقے کو ابتدا میں فرقہ نصیریہ کہا جاتا تھا، اور اس کا آغاز شام میں نویں اور دسویں صدی کے درمیان ہوا تھا۔

تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو علوی فرقہ نے شام میں کئی برسوں کے مظالم اور صلیبی جنگوں میں نقصان سہنے کے بعد شام کی اسٹیبلشمنٹ میں جگہ بنائی۔

علوی فرقے کے بارے میں بہت کم آگاہی پائی جاتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فرقے میں کرسمس کا تہوار بھی منایا جاتا ہے اور دین زرتشتی کا نیا سال بھی۔

فرانسیسی آبادکاروں کی جانب سے شامی علویوں کو ایک علیحدہ مذہب دینے کی کوشش کی گئی تھی، لیکن علوی رہنماؤں کی جانب سے اس کی مخالفت کی گئی تھی۔

علوی کے معنی ’حضرت علی کے پیروکار‘ کے ہیں۔ شیعہ فرقے میں پیغمبرِ اسلام کے داماد حضرت علی کی تعظیم کی جاتی ہے اور علوی فرقے کا عقیدہ ہے کہ پیغمبرِ اسلام کے بعد انھیں ہی پہلا امام ہونا چاہیے تھا۔

تاہم علوی فرقے کے بارے میں یہ تاثر کہ وہ حضرت علی کو خدا کے بعد قابل تعظیم سمجھتے ہیں، کی وجہ سے اکثر سنی مسلمان انھیں ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ کچھ سکالرز کا ماننا ہے کہ علوی کے عقائد سے متعلق یہ تاثرات بے بنیاد ہیں۔

سنہ 2016 میں Uses in Urdu کو حاصل ہونے والی ایک دستاویز کے مطابق شامی صدر بشار الاسد کے علوی دھڑے کے رہنماؤں نے ایک انتہائی غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے حکومت سے دوری اختیار کرنے کا کہا تھا۔

اس دستاویز میں علوی رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ اُن کا عقیدہ ’صرف خدا کی عبادت کرنے کے بارے میں ہے۔‘ مزید ان کا کہنا تھا کہ ’قرآن ہی ہماری واحد مقدس کتاب ہے اور یہ ہمارے مسلمان ہونے کی واضح دلیل ہے۔‘

علوی: وہ فرقہ جو شام میں 50 سال تک اقلیت ہونے کے باوجود حکمرانی کرتا رہا

دستاویز میں علویوں کے رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا کہ ان کے عقائد شیعہ اسلام سے مختلف ہیں اور وہ ماضی کے ایسے فتوؤں کو رد کرتے ہیں جن میں علوی فرقے کو شیعہ اسلام کی ایک شاخ کہا گیا تھا۔

انھوں نے واضح کیا کہ وہ برابری اور خود مختاری پر یقین رکھتے ہیں اور انھوں نے سیکولرزم کو شام کے مستقبل کہا۔

علویوں کے زیادہ تر عقائد خفیہ طور پر سرانجام دیے جاتے ہیں جو شیعہ فرقے میں تقیہ کے رواج کے مطابق ہیں، جس کے تحت کسی بھی شخص کے لیے اپنے عقائد کو چھپانا ممکن ہوتا ہے تاکہ مظالم سے بچا جا سکے۔

شام میں علوی برادری ملک کے بحیرۂ روم کے ساتھ جڑی ساحلی پٹی کے ساتھ آباد ہے۔ ان کی اکثریت ساحلی شہروں لاذقیہ اور طرطوس میں رہتی ہے اور یہ شمال میں ترک سرحد کی جانب پھیل جاتی ہے۔ ان کی کچھ تعداد ترکی کے صوبہ حطائی اور لبنان کے جنوب اور شمال میں بھی موجود ہے۔

سنہ 2011 میں جب مشرقِ وسطیٰ میں دیگر سربراہان کو برطرف کیا گیا تھا تو شام کے صدر بشار الاسد کے خلاف بھی بغاوت ہوئی تھی، جو کہ ناکام ثابت ہوئی۔ اس بغاوت کو فرقہ وارانہ رنگ دیا گیا تھا کیونکہ یہ معلوم ہوا کہ احتجاج کرنے والوں کی اکثریت سنی فرقے سے تعلق رکھتی تھی۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ صدر بشار الاسد کی جانب سے اہم سیاسی اور عسکری عہدوں پر علوی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد ہی تعینات کیے گئے تھے۔

دمشق اور حلب میں سنی تاجروں کے ساتھ اتحاد کر کے علوی اشرافیہ نے اپنا اثر و رسوخ معیشت کے ساتھ ساتھ سکیورٹی محکموں اور فوج میں بھی بڑھایا۔ سخت گیر اسد نواز شبیحہ ملشیا میں بڑی تعداد علوی فرقے سے تعلق رکھتی ہے۔

خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق شام میں فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگز میں اس لیے اضافہ ہوا کیونکہ صدر بشار الاسد کا تعلق علوی فرقے سے ہے۔ روئٹرز کے مطابق علوی برادری کے تمام افراد بشار الاسد کی حمایت نہیں کرتے اور بہت کم ایسے ہیں جنھیں بشار الاسد کے دورِ اقتدار سے فائدہ ہوا ہے، جبکہ ان کی بڑی تعداد شام کی مرکزی پہاڑیوں میں رہ رہی ہے۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...