فضل الرحمن کا مدارس بل پر حکومت سے مذاکرات سے صاف انکار

مولانا فضل الرحمان کا مدارس بل پر سخت موقف
چارسدہ (ڈیلی پاکستان آن لائن) مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ مدارس بل پر ہمیں حکومت کی کوئی تجاویز قبول نہیں ہیں۔ اگر انہوں نے کوئی ترمیم دی تو اسے قبول کرنے یا اس کی تجاویز کو بھی نہیں سنیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: محلے کے ایک انکل نے بچپن میں مجھے جنسی ہراساں کیا: اداکارہ چاہت کھنہ کا انکشاف
اجلاس اور حکومت کے اقدامات
روزنامہ امت کے مطابق پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مدارس کے بل پر نواز شریف، آصف زرداری، سینیٹ اور قومی اسمبلی سب متفق ہوگئے تھے۔ بل سینیٹ میں پیش ہوا اور اسمبلی نے یہ بل پاس کر دیا، مگر صدر نے اس پر دستخط نہیں کیے۔ انہوں نے سوال کیا کہ اگر صدر دیگر بلز پر دستخط کر سکتے ہیں تو اس مدارس بل کو اعتراضات کے ساتھ کیوں واپس بھیجا؟
یہ بھی پڑھیں: پنجاب: انسدادِ تمباکو نوشی آرڈیننس 2002 پر سختی سے عملدرآمد کا فیصلہ
مدارس کی آزادی کا اعلان
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آج نیا شوشہ چھوڑا جا رہا ہے کہ مدارس پہلے وزارت تعلیم کے ساتھ وابستہ تھے۔ مگر اس بل میں ہم نے تمام مدارس کو مکمل آزادی دی ہے کہ وہ کسی بھی وفاقی ادارے کے ساتھ الحاق کر سکتے ہیں، چاہے وہ 1860ء ایکٹ کے تحت ہو یا وزارت تعلیم کے ساتھ، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ مریم نواز کی خضدار میں لیویز چیک پوسٹ پر حملے کی شدید مذمت
علماء کی تقسیم کا خدشہ
انہوں نے مزید کہا کہ علماء کو آپس میں لڑایا جا رہا ہے، جبکہ مدارس میں کوئی اختلاف نہیں۔ مدارس بل پر تمام علماء و مدارس کا اتفاق ہے۔ وہ نئے شوشے چھوڑنے کی سازش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ مفتی تقی عثمانی اور صدر وفاق المدارس کی طرف سے اطلاع کا ذکر کیا کہ انہوں نے 17 دسمبر کو اہم اجلاس طلب کر لیا ہے، اور وہ فیصلے اس اجلاس تک روک رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: امریکہ کی 6 ماہ سے “غائب” خاتون رکنِ کانگریس ایسی جگہ سے مل گئی کہ ہنگامہ برپا ہوگیا
حکومت کی سیاست اور مدارس کی خودمختاری
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت اس معاملے کو سیاسی اکھاڑا نہ بنائے، جبکہ وہ مدارس کو ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے وزارت تعلیم کے تحت رجسٹرڈ ہو کر ان کی بات مانی ہے، مگر ان کی طرف سے ڈائریکٹوریٹ مسلط کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں، جو کہ مدارس کی خودمختاری پر اثر انداز ہوں گی۔
خفیہ اداروں کا اتفاق اور مستقبل کے فیصلے
ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ مدارس بل پر پاکستانی خفیہ ادارے بھی متفق تھے اور ان کے اتفاق رائے سے ہی سارے معاملات طے ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم جیت چکے ہیں کیونکہ پارلیمنٹ اس بل کو پاس کر چکی ہے، اور جو چیز طے ہو چکی ہے اسے مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اس وقت تک حکومت کی کوئی تجویز قبول نہیں کریں گے۔