فضل الرحمن کا مدارس بل پر حکومت سے مذاکرات سے صاف انکار
مولانا فضل الرحمان کا مدارس بل پر سخت موقف
چارسدہ (ڈیلی پاکستان آن لائن) مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ مدارس بل پر ہمیں حکومت کی کوئی تجاویز قبول نہیں ہیں۔ اگر انہوں نے کوئی ترمیم دی تو اسے قبول کرنے یا اس کی تجاویز کو بھی نہیں سنیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: شیخ مجیب اگرتلہ سازش کیس میں قید تھے تو اُنکے خصوصی نائب ڈاکٹر کمال الدین بھٹو کے ساتھ رابطے میں تھے، بھارت اس خوفناک سازش کا اہم مرکز تھا
اجلاس اور حکومت کے اقدامات
روزنامہ امت کے مطابق پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مدارس کے بل پر نواز شریف، آصف زرداری، سینیٹ اور قومی اسمبلی سب متفق ہوگئے تھے۔ بل سینیٹ میں پیش ہوا اور اسمبلی نے یہ بل پاس کر دیا، مگر صدر نے اس پر دستخط نہیں کیے۔ انہوں نے سوال کیا کہ اگر صدر دیگر بلز پر دستخط کر سکتے ہیں تو اس مدارس بل کو اعتراضات کے ساتھ کیوں واپس بھیجا؟
یہ بھی پڑھیں: گوگل میپ قابلِ اعتماد نہیں رہا؟ ایک اور فیملی بھٹک کر گھنے جنگل میں جا پھنسی
مدارس کی آزادی کا اعلان
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آج نیا شوشہ چھوڑا جا رہا ہے کہ مدارس پہلے وزارت تعلیم کے ساتھ وابستہ تھے۔ مگر اس بل میں ہم نے تمام مدارس کو مکمل آزادی دی ہے کہ وہ کسی بھی وفاقی ادارے کے ساتھ الحاق کر سکتے ہیں، چاہے وہ 1860ء ایکٹ کے تحت ہو یا وزارت تعلیم کے ساتھ، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آسٹریلوی سرزمین پر آسٹریلیا کے خلاف کامیابی، قومی کرکٹ ٹیم نے بھارت کو پیچھے چھوڑ دیا
علماء کی تقسیم کا خدشہ
انہوں نے مزید کہا کہ علماء کو آپس میں لڑایا جا رہا ہے، جبکہ مدارس میں کوئی اختلاف نہیں۔ مدارس بل پر تمام علماء و مدارس کا اتفاق ہے۔ وہ نئے شوشے چھوڑنے کی سازش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ مفتی تقی عثمانی اور صدر وفاق المدارس کی طرف سے اطلاع کا ذکر کیا کہ انہوں نے 17 دسمبر کو اہم اجلاس طلب کر لیا ہے، اور وہ فیصلے اس اجلاس تک روک رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی رہنما طاہر اقبال کی نظر بند کالعدم قرار، فوری رہا کرنے کا حکم
حکومت کی سیاست اور مدارس کی خودمختاری
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت اس معاملے کو سیاسی اکھاڑا نہ بنائے، جبکہ وہ مدارس کو ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے وزارت تعلیم کے تحت رجسٹرڈ ہو کر ان کی بات مانی ہے، مگر ان کی طرف سے ڈائریکٹوریٹ مسلط کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں، جو کہ مدارس کی خودمختاری پر اثر انداز ہوں گی۔
خفیہ اداروں کا اتفاق اور مستقبل کے فیصلے
ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ مدارس بل پر پاکستانی خفیہ ادارے بھی متفق تھے اور ان کے اتفاق رائے سے ہی سارے معاملات طے ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم جیت چکے ہیں کیونکہ پارلیمنٹ اس بل کو پاس کر چکی ہے، اور جو چیز طے ہو چکی ہے اسے مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اس وقت تک حکومت کی کوئی تجویز قبول نہیں کریں گے۔