ہم تصور بھی نہیں کر سکتے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ کیسا برتاؤ ہوتا تھا، ان کی نظر میں ہم ملیچھ تھے، آج بھی ہیں، بڑی مایوسی ہوتی ہے کہ ہم نے پاکستان کو کیا بنا دیا۔
مصنف کی گفتگو
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 15
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کا بھارت میں جوہری، تابکاری مواد کی چوری اور فروخت پر اظہار تشویش
انکل سیلم کی یادیں
انکل سیلم بات جاری رکھے ہوئے تھے؛ "بیٹا! تم تصور بھی نہیں کر سکتے ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ کیسا برتاؤ ہوتا تھا۔ صبح سویرے کوئی ہندو دوکان دار کسی مسلمان کو کوئی سودا نہیں بیچتا تھا کہ سویرے سویرے ہی بھشت ہو گیا ہے۔ ہندو کی دوکان سے ویسے بھی مسلمان کو سودا خریدتے نفرت انگیز رویوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ ان کی نظر میں ہم ملیچھ تھے اور آج بھی ہیں۔ ہندو گرمیوں میں ٹھنڈے پانی کی سبیل لگاتے تھے۔ جہاں ہندو تو گلاس میں پانی پیتا تھا جبکہ مسلمان کے 'ہاتھ کی بک' (دونوں ہاتھوں کو جوڑ کر) میں پانی انڈیلا جاتا تھا۔ کسی مسلمان میں اتنی جرأت نہ تھی جو ایسے پانی پینے سے انکار کر دے یا بغیر برف کے پانی پینے کو ترجیح دے۔ پاکستان بننے سے بڑے بڑے مسائل سے ہم بچ گئے ورنہ ہمارا حال بھی یہی ہوتا جو آج کے ہندوستان کے مسلمانوں کا ہو رہا ہے۔"
یہ بھی پڑھیں: چارلس نہیں بلکہ ‘محمد’ برطانیہ میں سب سے مقبول نام ہے
پاکستان کی حقیقت
"ہاں رہی بات آج کے پاکستان کی تو یقیناً یہ وہ پاکستان نہیں جس کے لئے ہم نے قائد کی قیادت میں جدوجہد کی تھی۔ بڑی مایوسی ہوتی ہے کہ ہم نے پاکستان کو کیا بنا دیا ہے۔ بیٹا! جب قیادت کرپٹ ہو تو وہ ملک ترقی نہیں کرتے۔ لیٹرے لوٹتے ہیں اور لوٹنے والوں سے اگر کوئی آس لگالے تو میری نظر میں یہ بیوقوفی ہے۔ لیکن میرے خیال میں اپنا ملک اپنا ہوتا ہے جیسا بھی ہو۔"
یہ بھی پڑھیں: راولپنڈی ٹیسٹ: دوسرے دن کے کھیل کا آغاز، پاکستان نے 3 وکٹوں کے نقصان پر 80 رنز بنالیے
گرداسپور کا سوگ
میں نے پوچھا ہندوستان سے پاکستان کب اور کیسے آئے۔ "کہنے لگے؛ پہلے تو ہم اس غلط فہمی میں رہے کہ گرداسپور پاکستان کا ہی حصہ ہو گا کہ یہ مسلمان اکثریت والا ضلع ہے۔ قائد اعظم کو بھی اس بارے کسی نے آگاہ کیا تھا اور بتایا تھا؛ 'سر! میں نے تقسیم کا نقشہ دیکھا جس میں گرداسپور کو بھارت کا حصہ دکھایا گیا ہے۔' قائد نے جواب دیا؛ ایسا ممکن نہیں کہ یہ تقسیم کے بنیادی اصول کے خلاف ہے۔ یقیناً آپ نے غلط نقشہ دیکھا ہوگا۔" ریڈ کلف اور ہندو کی عیاری قائد کو بھی مات دے گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: صائم ایوب کو ضائع نہیں کرنا چاہیے، شعیب ملک کا بیان
تقسیم کے اثرات
تقسیم کے اعلان میں اسے ہندوستان میں شامل کر دیا گیا۔ وجہ یہ تھی کہ اگر تقسیم کے فارمولے پر عمل کیا جاتا تو مسلمان اکثریت رکھنے پر یہ ضلع پاکستان کا حصہ بنتا اور کشمیر کا مسئلہ ہی پیدا نہ ہوتا۔ کہ اس دور میں کشمیر کا راستہ یہیں سے ہی ہو کر جاتا تھا۔ تقسیم کے اعلان کے بعد وہ ہندو اور سکھ لڑکے جو ہم سے اپنے تحفظ کی بات کرتے تھے اب ہمیں گھورنے لگے تھے۔ بہرحال ہوا یوں کہ 4 اگست 47 آ رہی تھی۔ ہم یہ سوچ رہے تھے کہ یہ دن کیسے منائیں۔ کچھ لڑکوں کا خیال تھا کہ پٹاخے اور گولے چلائے جائیں۔ ایک لڑکے نے کہا کہ کھمبا کاٹا جائے اور اس میں بارود بھر کر چلایا جائے۔ یہ تجویز پسند کی گئی۔ لہٰذا ایسا ہی کیا۔ بیٹا اتنا زور دار دھماکہ تھا کہ اس کی آواز کئی میل تک سنی گئی۔ شور مچ گیا کہ شاہ کی حویلی میں بڑا اسلحہ ہے۔ پولیس کو شکایت کی گئی اور اتنا دباؤ ڈالا گیا کہ پولیس چلی آئی۔ ورنہ ہمارے قصبہ میں پولیس حمید کے بابا جی یا میرے والد کی اجازت کے بغیر داخل نہیں ہوتی تھی۔ تلاشی لی گئی لیکن کچھ بھی برآمد نہ ہو، لیکن اس واقعہ کے بعد ہندو مسلم تناؤ بہت بڑھ گیا تھا۔
(جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔