آرمڈ فورسز میں نہ ہونے والا شخص فورسز کے ڈسپلن کے نیچے کیسے آتا ہے؟ جسٹس جمال مندو خیل کا استفسار

سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹ کے سوالات
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن ) سپریم کورٹ کے جسٹس جمال مندوخیل نے سویلینز کے ملٹری کورٹ میں ٹرائل کیس میں استفسار کیا ہے کہ آرمڈ فورسز میں نہ ہونے والا فرد آرمڈ فورسز کے ڈسپلن کے نیچے کیسے آسکتا ہے؟
یہ بھی پڑھیں: صوبائی اور ضلعی سرحدوں پر گندم اور آٹا کی نقل وحمل پر پابندی ختم، کسان کا نقصان نہیں ہونے دوں گی: وزیراعلیٰ مریم نواز
عدالتی سماعت اور دلائل
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے جسٹس امین الدین کی سربراہی میں ملٹری کورٹس کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی، جس میں وفاقی حکومت کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ ملٹری کورٹس کیس میں عدالتی فیصلہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک حصے میں آرمی ایکٹ دفعات کو کالعدم قرار دیا گیا ہے جب کہ دوسرے حصے میں ملزمان کی ملٹری کورٹ میں کسٹڈی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آباؤ اجداد کے ہمراہ 1947ء میں اِس ارض مقدس میں آ کر سجدہ ریز ہوئے، قربانیوں کی داستانیں نشان راہ کی حیثیت اختیار کر چکی ہیں
آرٹیکل 8 اور ڈسپلن کی تشریح
اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ملٹری کورٹس کا پورا کیس آرٹیکل 8 کے گرد گھومتا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ آرمڈ فورسز میں نہ ہونے والا فرد آرمڈ فورسز کے ڈسپلن کے نیچے کیسے آسکتا ہے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ اگر قانون اجازت دیتا ہے تو ڈسپلن کا اطلاق ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی مسافر طیارے کے حادثے میں ہلاکتوں کی تعداد 242 ہوگئی
اختیارات اور قانون کی تشریح
جسٹس جمال مندوخیل نے وضاحت کی کہ اگر کوئی شخص آرمی میں ہے تو اس پر ملٹری ڈسپلن کا اطلاق ہوگا، اور اگر کوئی محکمہ زراعت میں ہے تو اس پر محکمہ زراعت کے ڈسپلن کا اطلاق ہوگا۔ اگر کوئی شخص کسی محکمہ میں نہیں ہے، تو آرمڈ فورسز کے ڈسپلن کا اطلاق کیسے ہوسکتا ہے؟ کیا غیر متعلقہ شخص کو ڈسپلن کے نیچے لانا آرٹیکل 8 کی خلاف ورزی نہیں ہوگی؟
یہ بھی پڑھیں: سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی سے بھی 26ویں آئینی ترمیم منظور
سویلین پر آرمی ایکٹ کا اطلاق
خواجہ حارث نے کہا کہ مخصوص حالات میں سویلین پر بھی آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے۔ عدالت کے پاس آرمی ایکٹ دفعات کو کالعدم کرنے کا اختیار نہیں ہے، جس پر جسٹس جمال نے کہا کہ اگر کوئی اکسانے کا سوچے تو آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوگا، کیا آرمی ایکٹ نے آئین کے آرٹیکل 8کا سیکشن 1 غیرمؤثرنہیں کردیا؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ملٹری ٹرائل میں بھی فیئر ٹرائل کا آرٹیکل 10 اے موجود ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عدالت انتظار کرتی رہ گئی، جیل حکام نے حکم کے باوجود عمران خان کو ویڈیو لنک پر پیش نہ کیا
صدر مملکت اور ٹرائل کے معاملے
جسٹس مندوخیل نے مزید کہا کہ پاکستان میں سب سے بڑا عہدہ صدر مملکت کا ہے۔ اگر صدر ہاؤس پر حملہ ہو تو ملزم کا ٹرائل انسداد دہشتگردی عدالت میں ہوگا، مگر آرمی املاک پر حملہ ہونے کی صورت میں ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوگا۔ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ یہ فیصلہ قانون سازوں نے قانون سازی کے ذریعے کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان اور بشریٰ بی بی کیخلاف 190 ملین پاونڈ ریفرنس کا فیصلہ موخر، کل نہیں سنایا جائے گا
ملٹری کورٹ میں ٹرials کی تفصیل
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ ملٹری کورٹس کے زیر حراست افراد کی ایف آئی آر کی نقول نہیں دی گئیں۔ کیا ملٹری کورٹ ٹرائل میں وکیل کی اجازت ہوتی ہے؟ کیا ملٹری کورٹ میں ملزم کو تمام مواد فراہم کیا جاتا ہے؟ اس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ملٹری کورٹ میں ملزم کو وکیل اور تمام متعلقہ مواد فراہم کیا جاتا ہے۔
قتل کے معاملات اور کیس کی منتقلی
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا اگر ایک فوجی اپنے افسر کا قتل کردے تو کیس کہاں چلے گا؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ قتل کا کیس عام عدالت میں چلے گا۔ بعد ازاں، سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے کیس کی مزید کل تک ملتوی کر دی۔