آج کی سیاست میں آگے بڑھنے کیلئے بااصول، دیانت دار اور حق گو ہونا اور ملک و قوم کی خدمت کی تڑپ رکھنا خوبیاں نہیں بلکہ کمزوریاں گنی جاتی ہیں

مصنف کا تعارف
مصنف: رانا امیر احمد خاں
قسط: 2
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی سپنر ساجد خان کا راولپنڈی ٹیسٹ کے پہلے روز کے بارے میں دلچسپ بیان
سیاست میں اصول اور دیانتداری
میں مذکورہ بالا سوالوں کے ضمن میں اپنی کم مائیگی، اپنی کمزوریوں کا اظہار کرتا رہا۔ آج کی سیاست میں آگے بڑھنے کے لیے بااصول، دیانت دار اور حق گو ہونا اور ملک و قوم کی خدمت کی تڑپ رکھنا خوبیاں نہیں بلکہ کمزوریاں گنی جاتی ہیں۔ سیاست کے میدان میں آج بے اصولی، خوشامد، بے ضمیری اور دولت کی چمک ایسے رائج الوقت سِکّے ہیں، جو مجھ جیسے سیاسی کارکنوں کے پاس نہیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے دعا کریں روشنی ہو جائے: شیخ رشید
سیاسی کارکنوں کی صورت حال
میرے جیسے کارکن جن کے رول ماڈل قائد و اقبال ہیں، ذاتی اغراض کی سیاست کر سکتے ہیں نہ مذہب، ذات، نسل، علاقہ جاتی اور خاندانی وراثتی بنیادوں پر کام کرنے والی غیر جمہوری قیادت کی غلامی میں خود کو دے سکتے ہیں۔ میرے جیسے لوگ آج کی بے اصول سیاست کے لیے موزوں اور اہل نہیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: صورتِ حال انتہائی خطرناک، بھارت اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے: ممتاز زہرہ بلوچ
مالی وسائل کا سوال
میں چاہتا تو اپنی مزید زمین بیچ کر پراپرٹی کے کاروبار میں آ جاتا، اس طرح سیاست کے لیے مالی وسائل بھی پیدا کئے جا سکتے تھے لیکن دولت کی سیاست کبھی بھی میرے مزاج کا حصہ نہیں بن سکی۔
یہ بھی پڑھیں: اولمپیئن ارشد ندیم کی بائیں پنڈلی کی سرجری کی فیصلہ
پاکستان کا سیاسی نظام
پاکستان کا سیاسی نظام ایک کرپٹ نظام ہے اس لحاظ سے میں خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس گلے سڑے نظام کا فعال حصہ، کل پْرزہ بننے اور اس کی آلائشوں سے بچائے رکھا ہے اورمجھے اپنے ضمیر کو زندہ و بیدار رکھنے کی توفیق دی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وطنِ عزیز کے دفاع کیلیے قوم پاک فوج کے ساتھ ہے: وزیر اعلیٰ مریم نواز
لاک ڈاؤن کے اثرات
پاکستان میں مارچ 2020ء میں کوویڈ 19 کی آمد کی وجہ سے پہلا لاک ڈاؤن شروع ہوا تو مجھے بھی اپنی بیگم اور بچوں کے اصرار پر تقریباً 6 ماہ تک گھر میں نظربند رہنا پڑا۔ ان حالات میں میرے اپنے ادارے سٹیزن کونسل آف پاکستان کی فکری مجلسیں اور سیمینار وغیرہ جیسی سرگرمیاں بھی معطل ہو کر رہ گئیں۔ میں نے ایک بھرپور فعال زندگی گزاری ہے۔ میں خود کو عضو معطل بنا کر نہیں رکھ سکتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: چیمپئنز ٹرافی کے مستقبل کا فیصلہ آج متوقع
یادداشتوں کی تحریر کا آغاز
ایک دو ماہ تو میں نے کچھ کتابوں کے مطالعہ سے دل بہلایا، مگر اسی اثنا میں مجھے رہ رہ کر خیال آیا کہ یادداشتوں کو تحریر میں لانے کا اس سے بہتر وقت نہیں ملے گا۔ چنانچہ میں نے ہمت پکڑی اور تقریباً پندرہ سالوں بعد اپنے کلاس فیلو جسٹس (ر) شیخ محمد رشید کے مشورہ کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کر لیا۔
یہ بھی پڑھیں: خضدار سکول بس پر حملے میں شہید طلبہ کی تعداد 5 ہوگئی
تحریر کے مراحل
میں نے اپنے بچپن، لڑکپن اور کالج ٹائم میں جھانکتے ہوئے اپنی یادداشت کے زور پر واقعات و خیالات کو تحریر میں لانا شروع کیا۔ انبالہ (بھارت) کے موضع دھین (جہاں 1941ء میں میری پیدائش ہوئی) میں گزرے بچپن کے دن اور بھارت سے پاکستان ہجرت اور پاکستان میں میری سکولنگ کے دور کے واقعات پر مشتمل 25 صفحات کو پہلے ایک ماہ میں مکمل کرنے کے بعد میں نے اپنی تحریر محبی معروف دانشور اور لکھاری قیوم نظامی کو اصلاح کے لیے دکھائی۔ انہوں نے میری بڑی حوصلہ افزائی فرمائی۔ چنانچہ میں لکھتا چلا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت پاکستان کے خلاف جارحیت کے لیے ڈونز کیوں استعمال کر رہا ہے؟ سینئر تجزیہ کار حامد میر نے اندر کی بات بتا دی
رؤف طاہر سے گفتگو
معروف صحافی اور مولانا ظفر علی خاں ٹرسٹ کے سیکرٹری رؤف طاہر مرحوم سے ان کے انتقال سے ایک ماہ قبل ذکر ہوا کہ میں اپنی یادداشتیں لکھنے کی کوشش میں ہوں، 200 صفحات مکمل ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا: مجھے دیں میں نوک پلک سیدھی کر دوں گا۔
یہ بھی پڑھیں: مریم نواز نے جنید صفدر کی سیکیورٹی گاڑی کا چالان کرنے والی پولیس ٹیم کو شاباش دے دی
آخری لمحات
میں نے کہا: مکمل ہونے پر دوں گا۔ یہ تقریباً 4 صد صفحات پر مشتمل ہو گی۔ انہوں نے فرمایا: 200 صفحات ابھی دے دیں، جوں جوں لکھتے جائیں مجھے دیتے جائیں۔ دو سو صفحات کا ٹائپ شدہ رف ڈرافٹ اْن کے حوالے کر دیا۔ ایک ہفتہ بعد انہوں نے بتایا کہ "انہوں نے پڑھنا شروع کر دیا ہے" لیکن زندگی نے انہیں مہلت نہ دی اور وہ 12 فروری 2021 ء کو اچانک اس دنیائے فانی کو ہمیشہ کے لیے داغِ مفارقت دے گئے۔
خراج تحسین
اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے۔ عجب آزاد منش، دوست نواز اور محبت کرنے والے انسان تھے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔